گزشتہ ہفتہ کی تین اہم خبروں کے حوالہ سے آج کچھ گزارشات پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔ پہلی خبر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے استنبول میں ہونے والے سربراہی اجلاس کی ہے جس میں امریکہ کا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ ’’القدس‘‘ فلسطین کا دارالحکومت ہے اور امریکی صدر کا یہ اعلان غیر قانونی اور قابلِ مذمت ہے۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا جائے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ اعلان کے بعد مسلم سربراہوں کے مل بیٹھنے کا پوری دنیا میں شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا جس کے لیے ترک صدر رجب طیب اردگان نے متحرک کردار ادا کیا ہے اور ان کی سرگرمیاں دیکھ کر عالم اسلام کے بیشتر حلقوں کو یہ اطمینان ہوا ہے کہ ہم اپنی عالمی قیادت سے یکسر محروم نہیں ہیں۔ صدر اردگان کو عالم اسلام کے اجتماعی مسائل کے لیے مضطرب اور بے چین دیکھ کر شاہ فیصلؒ، ذوالفقار علی بھٹوؒ اور مہاتیر محمد یاد آرہے ہیں جو امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل پر گفتگو کرتے تھے اور ان کے لیے اپنے اپنے دائرہ میں کوشاں بھی ہوتے تھے۔ اول الذکر دونوں اللہ تعالیٰ کے حضور جا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا معاملہ فرمائیں جبکہ آخر الذکر مہاتیر محمد علیل ہیں اور ہم ان کی صحت یابی کے لیے بارگاہ ایزدگی میں دعا گو ہیں، آمین یا رب العالمین۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی خدمات میں لاہور کی مسلم سربراہ کانفرنس تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ شاہ فیصل شہیدؒ نے مغربی ملکوں کو تیل کی سپلائی بند کر کے دنیا کو یہ احساس دلایا تھا کہ مسلم دنیا اور عالم عرب اگر آج بھی متحد و بیدار ہو جائیں تو عالمی معاملات پر مغرب کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے او آئی سی کے سربراہ کے طور پر یہ مہم چلائی تھی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلم امہ کو ویٹو پاور کا حق دلانے اور متنازعہ بین الاقوامی معاہدات پر نظرثانی کے لیے مضبوط موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے انہوں نے اقوام متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کی تجویز دی تھی مگر بیشتر مسلم حکومتوں کی سردمہری نے ان کی اس تجویز کو آگے نہیں بڑھنے دیا تھا۔ ان کے بعد اب رجب طیب اردگان سامنے آئے ہیں جو حوصلہ و تدبر کے ساتھ عالم اسلام کے مسائل و مشکلات پر بات کر رہے ہیں اور ان کی پشت پر چونکہ ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کا شاندار ماضی ہے اس لیے ہم جیسے نظریاتی کارکنوں کو ان کی باتیں زیادہ بھلی لگ رہی ہیں اور ان سے توقعات بھی زیادہ وابستہ ہوگئی ہیں، خدا کرے کہ وہ ان توقعات پر پورا اتریں، آمین یا رب العالمین۔
جہاں تک استنبول کانفرنس کے اعلامیہ کا تعلق ہے ہمارے نزدیک یہ خوش آئند اور عالم اسلام کے جذبات کا ترجمان ہے۔ لیکن اعلامیہ سے آگے بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلہ میں پاکستان کے سابق وزیرداخلہ جناب رحمان ملک کی یہ تجویز زیادہ مناسب لگتی ہے کہ او آئی سی میں شامل تمام ممالک امریکہ کا چند روز کے لیے عملی بائیکاٹ کر کے اس کو اپنی سنجیدگی کا احساس دلائیں۔ یہ بائیکاٹ اگرچہ علامتی ہوگا لیکن اگر اتنا بھی عملاً ہو جائے تو صدر ٹرمپ کو اپنے اعلان پر نظرثانی کے لیے آمادہ کرنے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے ورنہ اسرائیلی رویہ کے خلاف قراردادیں تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی منظور کر رکھی ہیں جن سے صدر ٹرمپ بے خبر نہیں ہیں۔
دوسری اہم خبر متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی ہے جس کا ملک بھر کے سنجیدہ علمی و دینی حلقوں میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور آئندہ الیکشن ’’کتاب‘‘ کے انتخابی نشان پر مشترکہ طور پر لڑنے کا اعلان قومی سیاست میں دینی جماعتوں کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کا باعث ہوگا او ریہ وقت کی اہم ترین ملی و قومی ضرورت ہے۔ اس پر سیکولر اور لبرل حلقوں کو ضرور پریشانی ہوگی اور وہ اس کا شدت کے ساتھ اظہار بھی کریں گے جس سے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ بعض دینی حلقوں کی طرف سے جو تحفظات سامنے لائے جا رہے ہیں ان پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے خیال میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں شیعہ نمائندگی پر اعتراض درست نہیں ہے کہ تحریک آزادی، تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفٰیؐ اور تحریک تحفظ ناموسِ رسالتؐ سمیت ہر قومی و دینی تحریک میں اہل تشیع کی مؤثر نمائندگی نہ صرف ہماری قومی روایات کا حصہ چلی آرہی ہے بلکہ ملی ضرورت بھی ہے۔ مگر جو بات زیادہ محسوس ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ماضی قریب میں ملک گیر سطح پر سنی شیعہ کشمکش اور باہمی تصادم میں جو حلقے اور جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل محاذ آراء رہی ہیں ان میں ایک کو متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں شامل کرنا اور دوسروں کو یکسر نظر انداز کر دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو قومی و ملی تحریکات میں اہل تشیع کی نمائندگی کے حوالہ سے نہیں بلکہ ماضی قریب کی باہمی محاذ آرائی کے تناظر میں دیکھنا زیادہ حقیقت پسندانہ بات ہوگی۔ بہرحال بعض دینی حلقوں کے ان تحفظات کے تذکرہ کے باوجود ہم متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو قومی اور دینی ضرورت سمجھتے ہوئے اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت ماضی کے تجربات، حال کی ضروریات اور مستقبل کے خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامیان پاکستان کو مؤثر اور حوصلہ مند دینی قیادت فراہم کرنے میں کامیاب ہوگی۔
اسی دوران مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں دفاع پاکستان کونسل بھی نئے سرے سے متحرک ہوئی ہے اور اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے بیت المقدس کے مسئلہ پر تمام مکاتب فکر کے راہنماؤں نے مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے جو تحسین و تبریک کے لائق ہے۔ مولانا سمیع الحق نے مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی مگر میں اپنی بعض مصروفیات کے باعث حاضر نہ ہو سکا۔ عام حلقوں میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور دفاع پاکستان کونسل کے ازسرنو متحرک ہونے کو باہمی معاصرت کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے مگر قارئین جانتے ہیں کہ میں ہر معاملہ میں مثبت اور امید کے پہلو کو ترجیح دیا کرتا ہوں۔ میرے خیال میں جہاں یہ ضروری ہے کہ دینی مکاتب فکر اور جماعتیں قومی سیاست میں متحد ہو کر حصہ لیں اور الیکشن مل کر لڑیں وہاں یہ بھی قومی ضرورت ہے کہ الیکشن اور پاور پالیٹیکس سے ہٹ کر غیر انتخابی بنیادوں پر تمام مکاتب فکر کا کوئی مؤثر مشترکہ تحریکی فورم بھی قومی سطح پر متحرک رہے۔ یہ دونوں فورم قومی اور ملی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہیں۔ اگر متحدہ مجلس عمل اور دفاع پاکستان کونسل اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دریا کے دو کناروں کی طرح متوازی چلتے ہوئے بھی خاموش انڈرسٹینڈنگ کر لیں تو بہت سی قومی اور ملی ضروریات کو حصار میں لے کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔