رمضان المبارک قرآن کریم اور روزوں کا مہینہ ہے، برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، مغفرت اور نجات کا مہینہ ہے، جو اپنی بہاریں دکھا کر چند دنوں میں رخصت ہونے والا ہے۔ مبارکباد کے مستحق ہیں وہ سعادت مند جنہوں نے ان مبارک ساعات سے فیض حاصل کیا اور اپنے ذخیرۂ آخرت میں اضافہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک صبر و مواخاۃ کا مہینہ بھی ہے کہ اس ماہ میں مسلمانوں کو بھوک پیاس پر صبر کر کے اپنے بھوکے پیاسے بھائیوں کی تکالیف کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ان میں بھوکوں پیاسوں کے لیے ہمدردی اور غم خواری کے جذبات کو ابھارتا ہے۔
قرآن کریم نے بیسیوں آیات میں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں ارشادات میں سوسائٹی کے غربا، مساکین اور مستحقین کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے اور اس بات کی ترغیب دی ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھو اور ضرورت مندوں کو تلاش کر کے انہیں خوشیوں میں شریک کرو۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ ’’وفی اموالہم حق للسائل والمحروم‘‘ جن لوگوں کو ہم نے مال و دولت سے نوازا ہے ان کے مال میں سوسائٹی کے سائل اور محروم دونوں طبقوں کا حق ہے۔ مفسرین نے بتایا کہ سائل اس ضرورت مند کو کہتے ہیں جو اپنی ضروریات کا اظہار کرتا ہے اور ان کے لیے اپنے بھائیوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے، جبکہ محروم وہ شخص ہے جو ضرورت مند تو ہے مگر اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کرتا اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ مالدار کے مال میں ان دونوں کا حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ان لوگوں کی امداد کر دینا کافی نہیں ہے جو اپنی ضروریات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں بلکہ سفید پوشی کے پردے میں چھپے ہوئے ان افراد کی تلاش بھی مالدار لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اپنی ضرورت کا اظہار کرنے اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے میں حجاب محسوس کرتے ہیں۔ پھر قرآن کریم نے اسے ’’حق‘‘ قرار دیا ہے اور احسان کے زمرے میں شمار نہیں کیا، حتیٰ کہ کسی ضرورت مند اور مستحق پر خرچ کر کے اسے بعد میں یاد دلانے اور اس پر احسان جتانے کو قرآن کریم نے نیکی ضائع ہو جانے کا باعث بتایا ہے۔ اسی لیے رمضان المبارک اور روزوں کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس ماہ مبارک کے دوران انسان میں بھوک پیاس برداشت کر کے بھوکوں اور پیاسوں کی تکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اردگرد کے ضرورت مندوں کے ساتھ تعاون کا جذبہ اجاگر ہوتا ہے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے عمال اور سرکاری افسران و حکام پر پابندی لگا دی تھی کہ ان میں سے کوئی شخص (۱) ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا (۲) چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا (۳) باریک لباس نہیں پہنے گا (۴) اور اپنے مکان کے دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنائے گا۔ یہ سب باتیں اس دور میں معاشرتی امتیاز اور تعیش کے اسباب میں شمار ہوتی تھیں اور حضرت عمرؓ کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری حکام اور افسران عام سوسائٹی سے الگ تھلگ رہنے کی بجائے لوگوں کے درمیان رہیں اور انہی جیسی زندگی گزاریں تاکہ انہیں لوگوں کے مسائل کا علم رہے اور ان کی مشکلات و تکالیف کا احساس ہو۔ ظاہر بات ہے کہ بھوک اور پیاس کی تکلیف کا احساس اسی شخص کو ہوگا جس نے خود بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کی ہے یا آج کی زبان میں لوڈشیڈنگ کے عذاب کا اندازہ وہی شخص کر سکے گا جس کے اپنے گھر میں دن اور رات کا زیادہ حصہ بجلی بند رہتی ہے۔
خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی ہر قسم کی سہولتوں پر دسترس ہونے کے باوجود اختیاری فقر کی جو زندگی بسر کی اس کی ایک حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ آنحضرتؐ عام لوگوں کی طرح رہنے کو پسند فرماتے تھے تاکہ ان کی تکالیف اور ضرورتوں کا علم ہوتا رہے اور ان کی مجبوریوں کا احساس موجود رہے، حتیٰ کہ نبی کریمؐ نے ایک موقع پر ازواج مطہراتؓ کی طرف سے بعض سہولتوں کے تقاضے پر ان سے علیحدگی اختیار کر لینے کی پیشکش بھی فرما دی تھی۔ ہمارے آج کے مسائل اور مشکلات کی سنگینی میں مسلسل اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم نے ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس ختم کر دیا ہے اور سہولت و تعیش کی فراوانی نے مال و دولت کی کثرت رکھنے والے طبقات کو عام آدمی کی تکالیف اور اذیتوں سے بے خبر کر رکھا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نماز، روزہ اور حج کی تینوں عبادتیں اس فرق کو مٹانے کا ذوق پیدا کرتی ہیں۔
نماز کسی امتیاز کے بغیر سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتی ہے، روزہ سب کو ایک ہی طرح بھوکا اور پیاسا رکھتا ہے، اور حج سب کو ایک لباس میں بیت اللہ کے گرد جمع کر کے مساوات کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی عبادات کی اس روح کو معاشرتی زندگی اور معاشی سرگرمیوں کی بنیاد بنایا جائے اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور تکلیف و مصیبت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ رپورٹ کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے جو دہلی سے شائع ہونے والے اخبار سہ روزہ دعوت نے ۲۶ جولائی ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع کی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ دو امیر زادوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ غربت کیا ہوتی ہے چند روز تک ایک سو روپیہ یومیہ میں گزارہ کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ ان میں ایک ہریانہ کے اعلیٰ پولیس افسر کا بیٹا ہے جس نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے جبکہ دوسرا امریکہ میں ہی والدین کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ ان دونوں نے چند دن کے اس تلخ تجربے کے بعد جو تاثرات بیان کیے ہیں وہ اس رپورٹ کے مطابق کچھ اس طرح ہیں:
’’اب وہ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ اس ادھیڑبن میں گزارتے تھے کہ دو وقت کے کھانے کا انتظام کس طرح کریں؟ اب ان کی زندگی کا دائرہ بہت محدود ہوگیا تھا، سستی غذائی اشیا کی تلاش ان کا روز مرہ معمول بن گیا تھا، بس کا سفر پانچ کلو میٹر سے زائد کا نہیں کر سکتے تھے، بجلی کا استعمال بھی بمشکل پانچ چھ گھنٹے کر پاتے تھے، اور نہانے کا صابن دونوں فرد آدھا کاٹ کر استعمال کرتے تھے۔ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ یہ محض اتفاق ہی تھا کہ ہماری پیدائش امیر گھرانوں میں ہوئی جس کی وجہ سے ہم آرام دہ زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن ان لوگوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں جو اپنے حالات کی وجہ سے سخت جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں، ان سوالات کے جوابات تو ہمیں نہیں معلوم لیکن اب ہم اتنا ضرور جان گئے ہیں کہ غربت کے معنیٰ کیا ہوتے ہیں؟‘‘
غربت ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ہر دور میں کوششیں ہوتی رہتی ہیں لیکن کاغذی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو طبقات غربت کو کم کرنے کی پالیسیاں بناتے ہیں انہیں خود پتہ نہیں کہ غربت کیا ہوتی ہے اور غریب کے شب و روز کس کرب میں گزرتے ہیں۔ وہ غربت کو بھی اعداد و شمار کا ہی مسئلہ سمجھتے ہیں اور اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے لیپاپوتی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کم از کم کچھ لوگوں کو اندازہ تو ہو جائے کہ بھوک اور پیاس کیا ہوتی ہے اور بھوکوں اور پیاسوں پر کیا گزرتی ہے۔