جمعیۃ علماء اسلام (س) ضلع گوجرانوالہ کے امیر مولانا حافظ گلزار احمد آزاد سیشن کورٹ گوجرانوالہ کے سامنے ابوبکر ٹاؤن کی مسجد ختم نبوت کے خطیب ہیں اور ہر سال رمضان المبارک کے دوران قریب ہی ایک دوست کے مکان میں روزانہ صبح نماز فجر کے نصف گھنٹہ بعد قرآن کریم کے درس کا اہتمام کرتے ہیں جس میں مختلف علماء کرام متنوع موضوعات پر قرآن کریم کا درس دیتے ہیں اور علاقہ بھر سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ اس سال تین رمضان المبارک کو مجھے درس کے لیے کہا گیا تو میں نے ’’قرآن کریم کا ایجنڈا اور انسانی سماج‘‘ کے موضوع پر کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم کے نزول کا بڑا مقصد انسانی سماج کی تبدیلی تھا اور اس نے تئیس سال کے مختصر سے عرصہ میں جزیرۃ العرب کے سماج کو یکسر تبدیل کر کے دنیا کو آسمانی تعلیمات و ہدایات پر مبنی ایک مثالی معاشرہ کا عملی نمونہ دکھا دیا جبکہ اس معاشرتی انقلاب نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنے دائرے میں سمو لیا۔ اس حوالہ سے دو پہلوؤں پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ انسانی سماج کی تبدیلی کے اس ایجنڈے پر اس وقت کے سماج کا ردعمل کیا تھا اور دوسرا یہ کہ قرآن کریم نے انسانی معاشرہ کو کن تبدیلیوں سے روشناس کرایا؟ پہلے حصہ پر آج بات ہوگی جبکہ دوسرے حصے پر اس مجلس میں اپنے دوسرے درس کے موقع پر چوبیس رمضان المبارک کو گفتگو کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قرآن کریم کا پیغام مکہ مکرمہ میں پیش کیا تو اس وقت کے سماج کے تمام لیڈر یہ بات سمجھ گئے تھے کہ یہ صرف چند لفظوں اور جملوں کا ورد اور تکرار نہیں ہے بلکہ مکمل معاشرتی تبدیلی اور انقلاب کا ایجنڈا ہے۔ اس لیے انہوں نے پہلے دن سے ہی مزاحمت شروع کر دی اور پھر وہ مسلسل تئیس برس تک مختلف حوالوں سے اور مختلف دائروں میں مسلسل مزاحمت کرتے رہے۔ اس مزاحمت کا آغاز پہلی مجلس سے ہی ہوگیا تھا جس میں جناب رسول اکرمؐ نے صفا پہاڑی پر مکہ والوں کو جمع کر کے ’’ایہا الناس‘‘ کے خطاب کے ساتھ توحید کی دعوت دی تھی اور اس مزاحمت میں پہل خود آنحضرتؐ کے چچا ابولہب نے کی تھی اور آپؐ سے کہا تھا ’’تیرے لیے (نعوذ باللہ) بربادی ہو، کیا تم نے ہمیں اس کام کے لیے اکٹھا کیا ہے؟‘‘ ابولہب کی اسی بات کا جواب قرآن کریم کی سورۃ اللہب میں دیا گیا ہے۔
اس طرح مزاحمت کا پہلا دائرہ طعن و تشنیع، الزامات، تحقیر اور طنز و استہزا کا تھا جس میں کسی طرف سے کوئی کمی روا نہیں رکھی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر کو کاہن، شاعر، مجنون، ساحر اور کذاب کے الفاظ سے پکارا گیا اور پورے علاقے میں کردار کشی کا بازار گرم کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہا گیا کہ (نعوذ باللہ) مکہ اور طائف کی دو بڑی بستیوں میں کوئی سردار ایسا نہیں تھا جس پر وحی آتی، کیا آپ ہی اس کام کے لیے رہ گئے تھے؟
مزاحمت کا دوسرا دائرہ مداخلت کا تھا جس کا تذکرہ قرآن کریم میں اس طرح ہے کہ انہوں نے آپس میں مشورہ کر لیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جہاں بھی قرآن کریم لوگوں کو سنائیں وہاں شور و غل کرو اور کسی کو ان کی بات سننے نہ دو۔ یہ بھی روایات میں آتا ہے کہ جناب نبی کریمؐ کے چچا حضرات مسلسل ٹوہ اور تعاقب میں رہتے اور جہاں بھی آپؐ کسی اجتماع میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے اور قرآن کریم سناتے ان میں سے کوئی چچا کھڑا ہو جاتا اور لوگوں سے کہتا کہ یہ ہمارا بھتیجا ہے، آج کل (نعوذ باللہ) یہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہے اس لیے یہ اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے، ہم اس کا علاج کروا رہے ہیں کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا، اس لیے آپ لوگ اس کی باتوں پر توجہ نہ دیں۔
مزاحمت کا تیسرا دائرہ مقابلہ کا تھا اور اس کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں ہے کہ ایک قریشی سردار حارث بن نضر نے کچھ آلات موسیقی اور چند گانے ناچنے والیوں کا بندوبست کیا اور مکہ مکرمہ میں راگ و رنگ کی محفلیں جمانا شروع کر دیں تاکہ لوگ ان محفلوں میں آئیں اور آنحضرتؐ کی باتیں نہ سن سکیں۔ قرآن کریم نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ‘‘ اور ’’و یتخذہا ہزوًا‘‘ کے جملے ارشاد فرمائے ہیں کہ کھیل تماشے کی باتیں اور کام کیے جاتے تھے تاکہ لوگوں کو حق قبول کرنے سے روکا جائے اور خدا کے دین کو ہنسی اور استہزا کا نشانہ بنایا جائے۔ میں یہاں ایک بات درمیان میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کل جب ٹی وی پروگراموں اور سوشل میڈیا میں دین کے نام پر اور دینی احکام و مسائل کے بارے میں پیش کیا جانے والا ماحول دیکھتا ہوں تو بے ساختہ مکہ مکرمہ میں حارث بن نضیر کی بپا کردہ محفلیں چشم تصور کے سامنے آجاتی ہیں کہ وہ بھی تو سب کچھ اسی طرح کیا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس شر سے پناہ میں رکھیں، آمین۔
قرآن کریم کی راہ میں مزاحمت کا چوتھا دائرہ ان پیش کشوں کا ہے جو ابوجہل اور دوسرے بعض سرداروں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھیں کہ یہ غریب اور کمزور لوگ جو آپ کی مجلس میں ہر وقت بیٹھے رہتے ہیں ہم ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس میں ہماری توہین ہوتی ہے، اس لیے اگر انہیں آپ اپنی مجلس سے اٹھا دیں تو ہم آپ کے پاس بیٹھنے اور آپ کی بات سننے کے لیے تیار ہیں۔ ان باتوں کا مقصد مسلمانوں میں تفریق اور جناب نبی کریمؐ کے ساتھیوں میں احساس کمتری پیدا کرنا تھا جس سے خود اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو قرآن کریم میں منع فرمایا کہ ان بڑوں کے لیے آپ اپنے کمزوروں اور غریب ساتھیوں کو مجلس سے نہیں اٹھائیں گے۔
قریشیوں کی طرف سے قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ کے خلاف مزاحمت کا پانچواں دائرہ وہ ظلم و تشدد تھا جو آنحضرتؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کے ساتھ تیرہ سالہ مکی دور میں مسلسل روا رکھا گیا۔ خود جناب رسول اللہؐ اس تشدد اور اذیتوں کا شکار ہوئے اور بہت سے صحابہ کرامؓ پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس میں اسلام قبول کرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ مسلمان اپنی عبادات اور دعوت و تبلیغ کو حرم کی حدود میں سرانجام نہیں دیں گے اور کسی عوامی جگہ پر مذہبی سرگرمیاں نہیں کر سکیں گے۔ مسلمانوں کو حرم میں نماز پڑھنے پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا، حضرت صدیق اکبرؓ کو ایک باقاعدہ معاہدہ کے ذریعے پابند کیا گیا کہ وہ نماز اور تلاوت قرآن کریم اپنے گھر کے اندر کریں گے اور ان کی آواز گھر سے باہر نہیں آئے گی۔
اس مزاحمت کا چھٹا دائرہ وہ سوشل بائیکاٹ تھا جو مکہ مکرمہ کے تمام قبائل نے باہمی اجتماعی فیصلے کے تحت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے پیروکاروں کے ساتھ بلکہ آپؐ کی حمایت کرنے والے غیر مسلموں کے ساتھ بھی کیا۔ ان سب کو ایک وادی (شعب ابی طالب) میں محدود کر دیا گیا اور سوشل بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی ناکہ بندی بھی کر دی گئی اور چاروں طرف سے نگرانی کی گئی کہ خوراک اور ضرورت کی کوئی چیز باہر سے ان تک نہ پہنچنے پائے۔ اس بائیکاٹ اور ناکہ بندی کا معاہدہ باقاعدہ دستخطوں کے ساتھ بیت اللہ کے دروازے پر لٹکا دیا گیا اور یہ ناکہ بندی مسلسل تین سال تک جاری رہی مگر یہ طویل آپریشن بھی ناکام رہا۔
مزاحمت کے ان سب ہتھکنڈوں کی ناکامی کے بعد ساتویں دائرہ میں قریش نے پینترا بدلا اور صلح و مفاہمت کے نام پر مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانے کی چال چلنا شروع کر دی جسے قرآن کریم نے ’’ودوا لو تدھن فیدھنون‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے کہ وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کچھ لچک وہ دکھائیں اور کچھ لچک جناب رسول اللہؐ پیدا کریں تاکہ درمیان درمیان میں کوئی سمجھوتا ہو جائے۔ یہ بڑا دلچسپ دور تھا جس کا تذکرہ میں قدرے تفصیل کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آج بھی پوری دنیا میں ہمیں اسی صورتحال کا سامنا ہے اور مسلمانوں کو ایسے ہی جال میں پھنسانے کی کوششیں ہر سطح پر جاری ہیں۔ جناب رسول اکرمؐ کو مخالفین کی طرف سے مصالحت کی یہ پیشکش تین صورتوں میں کی گئی۔
(۱) ایک کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم سن کر کہتے ہیں کہ ’’ائت بقرآن غیر ھذا او بدلہ‘‘ اس قرآن کی بجائے کوئی دوسرا قرآن لے آؤ یا اس میں ردوبدل کر دو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن کریم میں آنحضرتؐ سے یہ دلوایا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اس بات کا اختیار حاصل نہیں ہے کہ میں قرآن کریم میں اپنی طرف سے کوئی ردوبدل کر سکوں۔
(۲) دوسرا مرحلہ قریشی سرداروں کے اس وفد کی ملاقات کا ہے جو جناب رسول اکرمؐ کے ساتھ خواجہ ابوطالب کی موجودگی میں ہوئی اور جس میں آنحضرتؐ کو دو نکاتی مصالحتی فارمولا پیش کیا گیا۔ ایک یہ کہ آپ حرم پاک میں بے شک نماز پڑھیں اور قرآن کریم لوگوں کو سنائیں ہم آپ کو نہیں روکیں گے بلکہ ہم بھی آپ کے ساتھ شریک ہو جایا کریں گے، مگر آپ بھی کبھی کبھی ہمارے بتوں کی تعظیم کے لیے آیا کریں۔ اور دوسرا یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات اور عظمت جتنی چاہیں بیان کریں مگر ہمارے بتوں کی نفی نہ کیا کریں، یعنی پازیٹو بات کریں نیگیٹو بات نہ کریں۔ چنانچہ ان کا کہنا تھا کہ ان دو باتوں پر ہمارا باہمی سمجھوتا ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ الکافرون کی شکل میں جناب رسول اللہؐ سے دلوایا اور دوٹوک طور پر اس پیشکش کو مسترد کر دیا گیا۔
(۳) جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس کا تیسرا مرحلہ آنحضرتؐ کے ساتھ طائف کے بنو ثقیف کے سرداروں کی ملاقات کا بیان فرمایا ہے جو انہوں نے اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ منورہ جا کر کی اور قبول اسلام کے لیے کچھ شرائط پیش کیں جن کا تذکرہ سیرت نبویؐ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔یہ شرائط کچھ اس طرح تھیں کہ (۱) ہم اپنا بت ’’لات‘‘ نہیں توڑیں گے (۲) نماز کی اس طرح پابندی نہیں کریں گے جیسے بتائی جاتی ہے، نماز میں ہم رکوع سجدہ نہیں کریں گے اور اوقات اپنی سہولت کے مطابق طے کریں گے (۳) شراب ترک نہیں کریں گے (۴) سود کا کاروبار نہیں چھوڑیں گے (۵) زنا نہیں چھوڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرائط قبول کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اگلے روز ہی باہمی مشورہ کے ساتھ سب شرطیں واپس لے لیں اور غیر مشروط طور پر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ اس حوالہ سے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ طائف کے بنو ثقیف نے یہ شرطیں اسلام قبول کرنے کے لیے پیش کی تھیں جبکہ کم و بیش اسی طرح کی شرطیں ہم پاکستانیوں کی طرف سے ملک میں اسلام کے نفاذ کے لیے مسلسل پیش کی جا رہی ہیں البتہ فرق یہ ہے کہ طائف والوں کو ایک دن میں ہی بات سمجھ میں آگئی تھی اور انہوں نے اگلے روز وہ شرطیں واپس لے لی تھیں مگر ہم مسلسل ستر برس سے ایسی شرطوں پر اصرار کیے جا رہے ہیں۔
مصالحت و مفاہمت کے عنوان سے اسلام کو کمزور کرنے اور مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانے کی ان کوششوں میں ناکامی کے بعد قریش نے وہ آخری جرگہ کیا جس میں ’’لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک‘‘ کی تجاویز پر غور و خوض کے بعد قریشی سرداروں نے اجتماعی فیصلہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دیا جائے۔ اس کے لیے باقاعدہ ’’ڈیتھ اسکواڈ‘‘ مقرر کیا گیا جس نے رات کی تاریکی میں آنحضرتؐ کے گھر کا محاصرہ کر لیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے گھیرے سے نکال کر آنحضرتؐ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے لیے روانہ کر دیا۔
قرآن کریم کے ایجنڈے اور اس وقت کے سماج کی مزاحمت کے ان دائروں کا تذکرہ کرنے کے بعد میں اپنی گفتگو کے ابتدائی حصہ کی طرف آتا ہوں کہ قرآن کریم کا بنیادی موضوع اور مقصد سماج کی تبدیلی تھا جسے قریش اور بنو ثقیف کے سرداروں نے سمجھ لیا تھا اور اس کے خلاف مزاحمت شروع کر دی تھی جو دو عشروں سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی۔ مگر اس شدید مزاحمت کے باوجود قرآن کریم اور جناب رسول اللہ نے ربع صدی سے بھی کم عرصہ میں عرب معاشرہ کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور قرآن کریم اپنے ایجنڈے میں سرخرو ہوا۔ میری گفتگو کا اگلا موضوع ان شاء اللہ تعالیٰ یہ ہوگا کہ وہ تبدیلیاں کیا تھیں جو عرب سماج میں قرآن کریم نے پیدا کیں اور پھر ان تبدیلیوں نے ایک صدی کے دوران دنیا کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کر لیا۔ چونکہ آج بھی ہمیں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے اس لیے ان تبدلیوں سے واقف ہونا ہمارے لیے ایک بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔