اکیسویں صدی اور علمائے کرام

   
مدرسہ قاسم العلوم، شیرانوالہ گیٹ، لاہور
۲ فروری ۱۹۹۹ء

۲ فروری ۱۹۹۹ء کو مدرسہ قاسم العلوم (شیرانوالہ گیٹ، لاہور) میں امیر انجمن خدام الدین مولانا میاں محمد اجمل قادری کی زیرصدارت شاہ ولی اللہ سوسائٹی کی ایک فکری نشست میں ’’اکیسویں صدی اور علماء کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر گفتگو کا موقع ملا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دنیا بھر میں اکیسویں صدی کی آمد آمد کا غلغلہ ہے اور ہر جگہ نئی عیسوی صدی کے آغاز کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے اور مختلف حوالوں سے اکیسویں صدی کے تقاضوں پر بحث ہو رہی ہے۔ ہم نے تو اپنی نئی ہجری صدی کا آغاز بیس سال قبل کیا تھا اور اس موقع پر بھی عالم اسلام میں بہت تیاریاں ہوئی تھیں اور تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اب نئی عیسوی صدی کے آغاز پر دنیا کے مختلف حصوں میں تقریبات منعقد ہو رہی ہیں اور ارباب دانش آنے والے حالات اور ضروریات کی طرف اپنے اپنے ذوق کے مطابق دنیا کو متوجہ کرنے میں مصروف ہیں۔ میں شاہ ولی اللہ سوسائٹی کا شکر گزار ہوں کہ اس عنوان پر آپ حضرات سے کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع فراہم کیا۔

اقوامِ عالم کی موجودہ کیفیت

بنیادی سوال یہ ہے کہ نسلِ انسانی جو اکیسویں صدی عیسوی میں داخل ہو رہی ہے اس وقت مجموعی طور پر کس حالت میں ہے؟ اور دنیا بھر کے چھ ارب کے لگ بھگ انسان کس کیفیت کے ساتھ نئی صدی کا آغاز کر رہے ہیں؟ ہم اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے انسانی معاشرہ کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ان پر تھوڑی بہت گفتگو کریں گے۔ (۱) سب سے پہلے فرد، کہ وہ انسانی سوسائٹی کا سب سے پہلا بنیادی یونٹ ہے۔ (۲) اس کے بعد خاندان کہ اس سے انسانی اجتماعیت کا آغاز ہوتا ہے۔ (۳) پھر علاقائی قومیتیں کہ وہ نسل انسانی کی اجتماعیت کے بڑے بڑے مظاہر ہیں۔ (۴) اور آخر میں مجموعی بین الاقوامی ماحول اور عالمی تناظر جو انسانی معاشرت کی آخری منزل ہے۔

  1. جب ہم موجودہ عالمی تناظر میں انسانی معاشرہ کے ایک فرد کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پوری دنیا میں ایک بات ہر جگہ یکساں دکھائی دیتی ہے کہ ’’فرد‘‘ جتنا غیر مطمئن اور بے سکونی کا شکار آج ہے انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں رہا۔ اس معاملہ میں ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک سب ایک جیسے ہیں کہ فرد بحیثیت فرد ذہنی سکون سے محروم ہے، دل کے اطمینان سے بے بہرہ ہے اور فکری خلفشار سے دوچار ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں ذہنی سکون کے حصول اور پریشانیوں سے نجات کے لیے مصنوعی سہاروں کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔ جاپان صنعتی ترقی میں ساری دنیا سے آگے ہے مگر خودکشی کا تناسب سب سے زیادہ اسی ملک میں ہے۔ امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور متمدن ملک کہلاتا ہے مگر معاشرتی جرائم بالخصوص چوری، ڈکیتی اور عصمت دری کی وارداتیں سب سے زیادہ وہاں ہوتی ہیں۔ یورپ مغربی تہذیب و تمدن کی قیادت کا دعوے دار ہے مگر نشہ آور اشیا کے روز افزوں استعمال کو روکنے کے لیے یورپی راہنماؤں اور دانشوروں کا تمام تر واویلا صدا بصحرا ثابت ہو رہا ہے۔ خودکشی، معاشرتی جرائم اور منشیات کا استعمال انسان کے داخلی اضطراب اور بے سکونی کا اظہار ہیں اور پریشانی سے نجات کے وقتی اور مصنوعی سہارے ہیں جبکہ آج انسانی معاشرہ مکمل طور پر ان کی لپیٹ میں ہے۔ جب سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور متمدن ممالک کا یہ حال ہے تو باقی ممالک اور اقوام متحدہ کے ذکر کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ موجودہ انسانی سوسائٹی میں فرد کا حال کیا ہے اور انسان کی شخصیت زندگی کس کربناک کیفیت سے دوچار ہے۔
  2. خاندانی زندگی اور فیملی سسٹم کا حال اس سے زیادہ برا ہے۔ ہم مشرقی اور مسلم ممالک الحمد للہ بہتر حالت میں ہیں اور ہمارے ہاں خاندانی زندگی کا تقدس بڑی حد تک ابھی قائم ہے مگر آج کی عالمی تہذیب کے علمبردار مغرب نے فری سوسائٹی اور فریڈم کے نام پر اپنے خاندانی نظام کا جس طرح بیڑہ غرق کر لیا ہے وہ تاریخ میں عبرت کا باب بن کر رہ گیا ہے۔ آج میخائل گورباچوف مغرب میں فیملی سسٹم کی تباہی کا رونا روتے ہیں اور ’’پروسٹرائیکا‘‘ میں اس ناکامی پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں عورت کو دوبارہ گھر کی چار دیواری میں واپس لے جانے اور گھر کے اندر کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ جان میجر ’’بیک ٹو بیسکس‘‘ (بنیادوں کی طرف واپسی) کا نعرہ لگاتے ہیں اور اپنے دورِ حکومت میں گھریلو ذمہ داریوں کو ترجیح دینے والی خواتین کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کی خاتون اول ہیلری کلنٹن مشرق کے فیملی سسٹم پر رشک کا اظہار کرتے ہوئے لڑکیوں کو کھلے بندوں مذہبی اقدار کی پاسداری اور ماں باپ کی عزت کی حفاظت کی تلقین کرتی ہیں۔

    اس سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ فیملی سسٹم کی تباہی نے انسانی سوسائٹی کو کس کرب اور اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ مغرب خود تو فیملی سسٹم کی تباہی کا رونا رو رہا ہے اور بنیادوں کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے مگر ہمارے ہاں مغرب کے پرستار حلقے او رمغرب کے سرمائے پر چلنے والی این جی اوز فیملی سسٹم کو سبوتاژ کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں اور ہمیں بنیاد پرستی کے طعنے دینے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور فریڈم کے نام پر ہمارے تہذیبی اور ثقافتی ڈھانچے کو بکھیرنے کے لیے مسلسل ورک ہو رہا ہے۔

  3. علاقائی قومیتوں اور ممالک و اقوام کے حوالہ سے دو باتیں عرض کروں گا:

    ایک یہ کہ اس وقت پوری دنیا میں کوئی ایک بھی قومیت یا علاقہ ایسا نہیں ہے جسے باقی دنیا کے سامنے اس کے سسٹم اور نظامِ زندگی کے تناظر میں بطور مثال اور آئیڈیل پیش کیا جا سکے اور اقوامِ عالم اس کی پیروی میں کسی قسم کی کشش محسوس کریں۔ دنیا کا ہر ملک اور قوم کسی استثنا کے بغیر ’’ایڈ ہاک ازم‘‘ کا شکار ہے اور باقی قوموں کے سامنے کوئی نمونہ پیش کرنے کی بجائے اپنے اپنے وجود اور ڈھانچے کے تحفظ میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اس لیے انسانی معاشرہ میں اس سطح پر بھی سکون اور اطمینان نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اور اس دائرے میں بھی اضطراب و خلفشار اور ذہنی و فکری انتشار نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

    اور دوسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب نے آسمانی تعلیمات سے بغاوت کے بعد علاقائی اور لسانی قومیتوں کے جن بتوں کو ’’نیشنلزم‘‘ کے نام سے دوبارہ جھاڑ پھونک کر انسانی تاریخ کے اسٹیج پر سجا دیا تھا وہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں اور منطقی انجام کے لیے کسی ’’ابراہیم‘‘ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

  4. اس کے بعد آجائیں بین الاقوامی ماحول اور عالمی تناظر کی طرف تو آپ کو عالمی اسٹیج پر لوٹ مار، غنڈہ گردی اور بدمعاشی کے سوا کوئی منظر دکھائی نہیں دے گا۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران مغربی اقوام نے جس طرح اقوام عالم کی آزادی کو غصب کیا اور نوآبادیاتی کلچر کو منظم کیا وہ تاریخ عالم کا ایک شرمناک باب ہے۔ پھر اس کے بعد گزشتہ پون صدی کے دوران امریکہ اور روس دونوں نے جس طرح دنیا کی بندر بانٹ کی اور باہمی کشمکش میں روس کے بکھر جانے کے بعد امریکہ دنیا کے واحد چودھری کے طور پر جو کچھ کر رہا ہے وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ نام آزادی اور حقوق کا ہے مگر عملاً جو کچھ ہو رہا ہے اسے جبری بالادستی کے سوا اور کسی عنوان سے تعبیر کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ڈنڈے اور جنگل کا قانون آج امریکی استعمار کے ہاتھوں اور اس کے زیر سایہ پوری دنیا پر مسلط ہے اور کسی فرد، گروہ یا قوم کو انصاف کے حصول کے لیے کوئی ضمانت میسر نہیں رہی۔ ہر طرف افراتفری، نفانفسی اور چھینا چھپٹی کا دور ہے اور پوری نسل انسانی کسی ’’مسیحا‘‘ کی تلاش میں ہے جو اسے اس دلدل سے نکال کر امن و سکون کی شاہراہ پر گامزن کر دے۔

یہ ہے وہ ماحول جس میں دنیا کے ساڑھے پانچ ارب انسان اکیسویں صدی میں داخل ہو رہے ہیں اور اس وقت نسل انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ اس ماحول سے نجات حاصل کرنا ہے۔

اکیسویں صدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’گلوبلائزیشن‘‘ کی صدی ہے، فاصلے سمٹ رہے ہیں اور دوریاں ختم ہو رہی ہیں۔ فون، فیکس اور انٹرنیٹ کے باعث آج یہ کیفیت ہے کہ کسی چھوٹے سے گاؤں میں ایک کنارے سے دوسرے کونے تک رابطہ قائم کرنے میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے کہیں تھوڑے وقت میں دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں رابطہ ہو جاتا ہے، گفتگو ہو جاتی ہے، تحریروں کا تبادلہ ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے اب دنیا ایک محلے کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، علاقائی تہذیبیں اور کلچر دم توڑ رہے ہیں، روایات و اقدار آپس میں گڈمڈ ہو رہی ہیں اور ایک مشترکہ اور مخلوط کلچر وجود میں آرہا ہے جو پوری نسل انسانی کا اجتماعی کلچر ہوگا اور ساری دنیا ایک مشترکہ سوسائٹی کی شکل اختیار کر جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ’’گلوبلائزڈ کلچر‘‘ کی تشکیل میں نسل انسانی کی فکری راہنمائی اور علمی قیادت کون کرے گا؟ اس وقت دنیا میں جو نظام عملاً رائج ہیں ان میں سے کسی میں اتنی سکت نہیں رہی، اور جن فلسفوں کی آج دنیا کے مختلف حصوں میں حکمرانی ہے ان میں سے کوئی اتنا بڑا بوجھ اٹھانے کا اہل نہیں ہے۔

اس لیے آج کا دانشور ایک بار پھر آسمانی تعلیمات کی طرف دیکھ رہا ہے، وحیٔ الٰہی کی پناہ گاہ کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے اور دنیا کی اعلیٰ دانش گاہوں میں اس پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ انسان کی اپنی عقل و دانش خواہ وہ شخصی ہو، طبقاتی ہو، یا اجتماعی، نسل انسانی کی مشکلات حل کرنے میں کامیاب نہیں رہی اور اس کی ہر کوشش نے مسائل و مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے، ان میں کمی کسی درجہ میں واقع نہیں ہوئی۔ اس لیے آسمانی تعلیمات کی طرف ایک بار پھر رجوع کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہا۔ چنانچہ اکیسویں صدی جہاں گلوبلائزیشن کی صدی ہے وہاں آسمانی تعلیمات کی طرف نسلِ انسانی کی واپسی کی صدی بھی ہے اور اس حوالہ سے اب ہم علمائے اسلام کی ذمہ داریوں پر ایک نظر ڈالنا چاہیں گے۔

اکیسویں صدی کے چیلنجز اور علمائے کرام

اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس میں علاقائی تہذیبیں اور کلچر آپس میں گڈمڈ ہو رہے ہیں اور ایک مشترک عالمی کلچر تشکیل پا رہا ہے، اور اس عالمی کلچر کی بنیاد کے طور پر انسانی عقل اور اس کے تخلیق کردہ تمام فلسفے اور نظام ہائے حیات بے کار ثابت ہو رہے ہیں۔ اس لیے اہل دانش کو ایک بار پھر آسمانی تعلیمات کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آسمانی تعلیمات صرف ایک مذہب کے پاس اصلی اور محفوظ حالت میں موجود ہیں اور وہ اسلام ہے۔ باقی کسی مذہب کے دعوے دار اپنی تعلیمات کو اس طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کے پاس اس وقت جو مذہبی تعلیمات موجود ہیں وہ فی الواقع وہی ہیں جو ان کے پیغمبر پر وحیٔ الٰہی کی صورت میں نازل ہوئی تھیں۔ اور نہ ہی کسی مذہب کے پیروکار یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وحیٔ الٰہی کی تشریح میں ان کے پیغمبر نے جو تعلیمات دی ہیں کم از کم وہی ان کے پاس اصل اور محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ یہ اعزاز صرف اور صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ آسمان سے نازل ہونے والی وحی (قرآن کریم) اور اس کی تشریح میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات (سیرت و سنت) ان کے پاس اصل حالت میں موجود ہیں اور تاریخ کے ریکارڈ کا ایسا حصہ ہیں جس سے دنیا کا کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اس لیے ان حقائق کی بنیاد پر جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسیوں صدی آسمانی تعلیمات کی طرف نسل انسانی کی واپسی کی صدی ہے وہاں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والی صدی اسلام کی طرف نسلِ انسانی کی واپسی کی صدی ہے اور اگلی صدی جسے آپ پندرہویں ہجری صدی کہہ لیں یا اکیسویں صدی کے نام سے یاد کر لیں اسلام کے غلبہ اور عالمگیر نفاذ کی صدی ہے۔

مگر اس حوالہ سے علمائے اسلام کا کردار کیا ہے؟ اس کے بارے میں دو گزارشات پیش کرنے کو جی چاہتا ہے:

  1. ایک یہ کہ انسانی اجتماعیت اور سوسائٹی کے مسائل کے ضمن میں قرآن و سنت کی راہنمائی کے پہلوؤں سے ہم خود بے خبر ہیں تو نسلِ انسانی کی راہنمائی کیا کریں گے؟ میں اپنے ماحول کی بات کر رہا ہوں اور مجھے اس گستاخی پر معاف فرمائیں کہ ہمارے علمائے کرام کی اٹھانوے فیصد اکثریت اسلام کے اجتماعی کردار اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہے اور انتہائے ستم یہ ہے کہ اپنی اس بے خبری سے بھی اسے آگاہی حاصل نہیں ہے۔ ہم دنیا بھر میں اسلام اسلام کا نعرہ لگا رہے ہیں، اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کفر کو للکار رہے ہیں او رشریعت کا پرچم ہاتھ میں لیے معرکہ آرائی کے لیے تیار کھڑے ہیں مگر اسلام جب نافذ ہوگا تو کون سی چیز نافذ ہوگی، کہاں نافذ ہوگی اور کیسے نافذ ہوگی، اس کا ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے۔ اپنے ملک اور دنیا کے مروجہ نظام اور تہذیب و اقدار میں کہاں کہاں اور کون کون سی تبدیلی واقع ہوگی، اس سے بھی ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں بس اسلام چاہیے اور صرف اسلام چاہیے اس کے علاوہ ہم کوئی بات نہیں جانتے۔

    اس طرزِ عمل کے بارے میں ایک قصہ اکثر سنایا کرتا ہوں، آج بھی عرض کر دیتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک خان صاحب (پٹھان بھائی ناراض نہ ہوں، میں خود بھی پٹھان ہوں) راستے میں جا رہے تھے کہ انہیں سامنے سے ایک ہندو لالہ آتا دکھائی دیا۔ خان صاحب ایک کافر کو دیکھ کر غصے میں آگئے، جی میں آیا کہ اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنا چاہیے۔ ہندو قریب آیا تو خان صاحب نے اسے گریبان سے پکڑا اور ایک ہاتھ سے خنجر نکال کر اس کے سامنے لہراتے ہوئے کہا ’’کاپر کا بچہ! کلمہ پڑھتے ہو یا نہیں؟‘‘ ہندو نے دیکھا کہ خان صاحب کے ہاتھ میں خنجر ہے اور آنکھوں میں خون اتر آیا ہے، وہ ڈر گیا او رکہا خان صاحب ٹھیک ہے مجھے کلمہ پڑھاؤ میں پڑھنے کے لیے تیار ہوں۔ اس پر خان صاحب پہلے سے زیادہ غضبناک لہجے میں بولے’’کاپر کا بچہ! خود کلمہ پڑھو، آتا مجھے بھی نہیں ہے۔‘‘

    اس وقت ہماری حالت بھی یہی ہے۔ ہم پوری دنیا سے کلمہ پڑھوانا چاہتے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام کے نفاذ و غلبہ کے لیے مضطرب ہیں لیکن جب ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ اچھا بتاؤ اسلام کیا ہے اور اس کا اجتماعی نظام کیا ہے تو ہمارے غیظ و غضب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ’’آتا مجھے بھی نہیں ہے‘‘ کی مجسم کیفیت کے ساتھ ’’اسلام اسلام‘‘ کا نعرہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں ہے اور ہمیں اس پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

    اسلام کی اجتماعی تعلیمات قرآن کریم میں جابجا موجود ہیں، حدیث اور فقہ کی کم و بیش سبھی کتابوں میں اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق الگ الگ ابواب موجود ہیں جن میں اس شعبہ زندگی کے بارے میں اسلامی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں پڑھا جائے، سمجھا جائے اور ان کا مطالعہ کر کے انہی شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں آج کے مروجہ قوانین و روایات سے ان کا تقابل کیا جائے۔ ان میں پائے جانے والے فرق اور تضادات کی نشاندہی کی جائے اور اسلامی تعلیمات و احکام کی افادیت اور فوقیت کو واضح کیا جائے۔ یہ کام علمائے کرام کے کرنے کا ہے اور وہی اسے صحیح طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ کام نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ آگے آئیں گے، خلا تو نہیں رہے گا کہ یہ فطرت اور تاریخ کے عمل کے خلاف ہے۔ لیکن جب دوسرے لوگ آگے آ کر اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے اور خود علمائے کرام کو شکایات ہوں گی۔ اس لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ دوسروں کے شکوے کرنے کی بجائے علمائے کرام خود اس کام کو سنبھالیں اور کوئی ایسا خلا ہی نہ رہنے دیں جسے پر کرنے کے لیے دوسروں کو آگے آنے کا موقع مل سکے۔

  2. دوسری بات اس ضمن میں علمائے اسلام سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کی دنیا کو اسلام سمجھنے کے لیے اپنی روایتی زبان پر نظر ثانی کریں۔ ہماری روایتی زبان مناظرہ، فتویٰ اور حکم کی زبان ہے جو آج کے دور میں متروک ہو چکی ہے، وہ کارآمد نہیں ہے بلکہ نقصان دہ ہے۔ آج کی زبان منطق و استدلال اور حکمت و فلسفہ کی زبان ہے۔ وہ زبان ہے جو لوگوں کو اسلام سمجھانے کے لیے امام غزالیؒ اور امام ولی اللہ دہلویؒ نے استعمال کی ہے۔ چند برس پہلے کی بات ہے کہ ہم نے لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام میڈیا پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں مہمان خصوصی ایک نومسلم نوجوان دانشور یحییٰ برٹ تھے۔ وہ ایک اونچے درجے کے انگریز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد ’’بی بی سی‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں اور والدہ ’’انڈی پینڈینٹ‘‘ کی ایڈیٹر ہیں۔ اس نوجوان نے آٹھ دس برس قبل اسلام قبول کیا اور جیسا کہ ان لوگوں کا مزاج ہے کہ اس نے اسلام کو سمجھنے کے لیے خوب مطالعہ کیا، مختلف اسلامی تحریکات پر اسٹڈی کی حتیٰ کہ برصغیر پاک و ہند میں کئی ماہ رہ کر یہاں کی اسلامی تحریکات کا جائزہ لیا۔ اس نے مذکورہ سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مغرب کو اسلام کی دعوت دینا چاہتے ہیں اور اس خطہ کے لوگوں کو اسلام سمجھانا چاہتے ہیں تو شاہ ولی اللہ کی زبان میں بات کریں، یہ صرف اسی زبان سے اسلام کو سمجھ سکیں گے۔ اگر اس کے علاوہ کسی اور زبان سے ان سے بات کی گئی تو یہ بات کو نہیں سمجھ پائیں گے۔

    شاہ ولی اللہؒ کی زبان کیا ہے؟ حکمت و دانش اور منطق و استدلال کی زبان ہے اور کوئی بات دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے کی بجائے انہیں سمجھا کر قائل کرنے کی زبان ہے۔ آج اسی زبان کی ضرورت ہے، ہمارے علماء کو یہ زبان سیکھنی چاہیے اور اس پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔ میں یہ بات ایک مثال سے واضح کرنا چاہوں گا۔ وہ یہ کہ ہم لاکھ مرتبہ یہ کہیں کہ انسانی معاشرہ میں جرائم پر قابو صرف اسلامی نظام و قوانین کے ذریعے ہی پایا جا سکتا ہے مگر کسی شخص کو ہماری یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی اور اسے صرف اسلام کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار سمجھا جائے گا۔ لیکن اسی بات کو اگر اس انداز سے پیش کیا جائے کہ انسانی اعمال کی سزا و جزا کے حوالہ سے اسلام کا فلسفہ ہی وہ واحد داخلی قوت ہے جو کسی انسان کو جرم سے روک سکتی ہے تو لوگوں کو یہ بات سمجھانا آسان ہوجائے گا۔ مثلاً یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ انبیائے کرام علیم السلام کی اولاد ہیں اور انسانی سوسائٹی میں وی آئی پی طبقہ کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے جہنم اور سزا کا معاملہ ان کے لیے نہیں ہے اور وہ بڑی نسبت کی وجہ سے ہر برے سے برے عمل کی سزا سے بچ جائیں گے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ عقیدہ کسی بھی شخص کو جرم کی سزا کے بارے میں بے خوف کر دے گا اور وہ بے تکلف ہر جرم کر گزرے گا۔ جبکہ عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے اس لیےوہ گناہ سے پاک ہو ہی نہیں سکتا، البتہ حضرت عیسٰیؑ نسلِ انسانی کے گناہوں کا کفارہ دے گئے ہیں، اس لیے جو شخص صلیب کے سائے میں آجائے گا وہ اس کفارہ کے دائرے میں شامل ہوگا اور گناہوں سے پاک ہو جائے گا اور جو شخص اپنے گلے میں صلیب نہیں لٹکائے گا وہ گنہگار پیدا ہوا اور گنہگار مر جائے گا اس کی نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ یہ عقیدہ بھی جرم کی حوصلہ افزائی کرنے والا ہے کہ جب ایک شخص کا یہ ذہن بن جائے گا کہ وہ جو عمل بھی کرے حضرت عیسٰی علیہ السلام اس کی طرف سے کفارہ دے گئے ہیں تو وہ کسی تکلف کے بغیر بڑے سے بڑے جرم کا مرتکب ہوگا اور صلیب گلے میں لٹکا کر مطمئن ہو جائے گا کہ اس کے گناہوں کا کفارہ صدیوں پہلے دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح خدا کو نہ ماننے والوں اور مذہب پر یقین نہ رکھنے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے او ریہی دنیا سب کچھ ہے، انسان کو جو اچھائی یا برائی حاصل کرنی ہے اسی دنیا میں کرنی ہے۔ یہ فلسفہ بھی جرم کی آبیاری کرتا ہے کیونکہ جب ذہن یہ بن جائے گا کہ مجھے آرام، سہولت اور عیش جو کچھ بھی حاصل کرنا ہے اسی دنیا میں اس کا موقع ہے اس کے بعد کوئی موقع نہیں ملے گا تو ظاہر بات ہے کہ وہ ان چیزوں کے حصول کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہوگا اس سے گریز نہیں کرے گا۔

    اس کے برعکس اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان سلیم الفطرت پیدا ہوتا ہے، کوئی انسان پیدائشی کافر یا گنہگار نہیں ہے اور ہر شخص کو اپنے ہرعمل کا بدلہ خود بھگتنا ہوگا، اچھے اعمال کا صلہ ملے گا اور برے اعمال پر سزا ہوگی، یہ سزا اس دنیا میں بھی ہو سکتی ہے اور اگر یہاں بچ گیا تو آخرت میں سزا مل کر رہے گی اور اسے اپنے تمام اچھے برے اعمال کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب دینا ہے، اس کے بعد اس کی اگلی ہمیشہ کی زندگی کا فیصلہ ہوگا۔ یہی وہ واحد عقیدہ ہے جو انسان کو جرم سے روکتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں بیٹھ کر اس کے اعمال کے حوالہ سے محتسب کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے اس دنیا میں بھی اگر انسانی سوسائٹی کو جرائم سے نجات مل سکتی ہے تو صرف اور صرف اسلامی نظام کے ذریعے مل سکتی ہے۔

الغرض علمائے اسلام سے میری گزارش یہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے اس چیلنج کو سمجھیں، اس کے تقاضوں کا ادراک حاصل کریں اور اسلام کے اجتماعی کردار اور اسلامی نظام کی افادیت و حکمت کے بارے میں امام ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ و تحقیق کر کے دنیا کے تمام لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یہی اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہی اس حوالہ سے علمائے اسلام کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حوالہ سے اپنے فرائض صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ ۱۶ مارچ ۱۹۹۹ء)
2016ء سے
Flag Counter