(ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعۃ العلوم الشرعیۃ کے ساتھ میرا بہت پرانا تعلق ہے، اس کے بانی حضرت مولانا حافظ محمد اسحاقؒ میرے دوستوں اور جماعتی ساتھیوں میں سے تھے۔ جبکہ ہمارے گوجرانوالہ کے مخدوم و محترم استاذ الاساتذہ حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ یہاں پڑھاتے رہے ہیں جو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے پہلے شیخ الحدیث تھے۔ میری ان سے مسلسل نیاز مندی رہی ہے اور زندگی بھر ان کی شفقتوں سے فیض یاب ہوتا رہا ہوں، وہ مولانا حافظ محمد اسحاقؒ کے خسر بزرگوار تھے اور اب حضرت قاضی صاحبؒ کے نواسے اس دینی ادارہ کی خدمت و انتظام میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور اس خاندان کی دینی خدمات میں ترقیات و برکات اور قبولیت و رضا عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
آج جن فضلاء نے دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی ہے اور اپنے استاذ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرؤف دامت برکاتہم سے بخاری شریف کا آخری سبق پڑھ کر درس نظامی کا نصاب مکمل کیا ہے انہیں ان کے والدین، اساتذہ اور دیگر تمام متعلقین سمیت مبارک باد دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اس علم کی حفاظت کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی مسلسل خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ آپ حضرات چونکہ مدارس کے جزیروں سے نکل کر معاشرے کے سمندر میں داخل ہو رہے ہیں اس لیے میں آپ کو انسانوں کے اس وسیع تر سمندر میں جو مسائل، مشکلات اور چیلنجز درپیش ہوں گے ان میں سے ایک دو سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ انہیں سامنے رکھتے ہوئے اپنے طرز عمل اور پروگرام کا تعین کر سکیں۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے فضلاء کو آج بھی کم و بیش اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حیات مبارکہ میں درپیش تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توحید کی دعوت دی، قرآن کریم پیش کیا اور معاشرتی برائیوں سے نجات حاصل کرنے کی بات کی تو مخاطبین و مخالفین کا پہلا ردعمل طنز و تشنیع، تحقیر و استہزاء اور طعن و اعتراض کا تھا کہ یہ جادوگر ہیں، کاہن ہیں، شاعر ہیں اور نعوذ باللہ کذاب ہیں۔ لیکن جب ان تمام تر اعتراضات و طعن و تشنیع سے دعوت دین کا راستہ نہ رکا تو پھر اذیتوں اور تکالیف کا دور شروع ہوا اور جناب رسول اکرمؐ اور ان کے ساتھیوں کو کم و بیش ایک عشرہ تک مسلسل کرب و اذیت اور تشدد و جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں بھی ناکامی ہوئی تو پھر سودے بازی اور بارگیننگ کا حربہ اختیار کیا گیا جس کا تذکرہ قرآن کریم نے ’’ودوا لو تدھن فیدھنون‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ چنانچہ مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے سرداروں نے جناب ابو طالب کی موجودگی میں جناب نبی کریمؐ سے مذاکرات کر کے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی پیش کش کی جس کا فارمولا دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک یہ کہ آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کی جتنی چاہیں تعریف کریں اور صفات بیان کریں مگر ہمارے خداؤں کی نفی نہ کریں اور ان کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔ یعنی مثبت بات کریں لیکن منفی نہ کریں، پازیٹو بات کریں مگر نیگیٹو نہ کریں۔ اور دوسرا پہلو یہ تھا کہ ہم آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ہونے کے لیے تیار ہیں مگر آپ بھی ہمارے خداؤں کے پاس آیا کریں۔
اس پیشکش اور مصالحتی فارمولے کا جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ الکافرون کی صورت میں دوٹوک انداز میں دلوا دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور عقیدۂ توحید پر کسی قسم کی مصالحت اور سودے بازی نہیں ہو سکتی۔
اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کے معاشرتی احکام کے حوالہ سے بھی متعدد بار یہ بات کہی گئی کہ ان میں لچک پیدا کی جائے جس کا ذکر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے مثلاً سورہ یونس کی آیت ۱۵ میں بتایا گیا ہے کہ جب ان لوگوں کے سامنے قرآن کریم کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو آخرت پر یقین نہ رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور کتاب لے آؤ یا اس میں ردوبدل کر دو۔ اس کا جواب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی آیت میں دلوا دیا گیا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے سرے سے قرآن کریم میں اپنی طرف سے ردوبدل کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے اور میں صرف وحی الٰہی کا پابند ہوں۔ اسی طرح سورہ بنی اسرائیل کی آیات ۷۳، ۷۴ اور ۷۵ میں نبی کریمؐ سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ لوگ آپ کو قرآن کریم کے احکام کے بارے میں آزمائش میں ڈالنے کا پورا پروگرام رکھتے تھے اور اگر ہم آپؐ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو یہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو جاتے، اور اگر ان کا پروگرام آپؐ قبول کر لیتے تو یہ آپؐ کو دوست بنا لیتے۔
تفسیر قرطبیؒ، خازن اور روح المعانی میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا ایک ارشاد ان آیات کے ضمن میں نقل کیا گیا ہے کہ یہ آیات طائف کے بنو ثقیف کی اس پیش کش کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں انہوں نے جناب رسول اکرمؐ سے کہا تھا کہ اگر وہ ان کی بعض شرائط قبول کر لیں تو وہ سب قبولِ اسلام کے لیے تیار ہیں۔ یہ شرائط ان آیات کریمہ کے حوالہ سے مختلف تفاسیر میں اور آنحضرتؐ کے ساتھ بنو ثقیف کے وفد کی ملاقات کے تذکرہ میں سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں جن میں یہ باتیں بطور خاص قابل ذکر ہیں:
- ان کا بت ’’لات‘‘ نہیں گرایا جائے گا۔
- انہیں ایک سال تک اپنے بت خانے کے نذرانے وصول کرنے کا وقت دیا جائے گا۔
- مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرح طائف کو بھی حرم قرار دیا جائے گا۔
- وہ نماز کی پابندی پر مجبور نہیں کیے جائیں گے۔
- شراب کا چھوڑنا ان کے لیے مشکل کام ہوگا۔
- سود کے بغیر دوسری قوموں کے ساتھ ان کا کاروبار ختم ہو جائے گا اس لیے وہ سود کا لین دین ترک نہیں کریں گے۔
- زنا کا یکلخت ترک کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہوگا، وغیر ذلک۔
بعض روایات میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت عملی کے تحت یہ سوچ کر کہ یہ اگر ایک دفعہ اسلام قبول کر لیں تو آہستہ آہستہ ساری پابندیاں قبول کر لیں گے، کچھ نرم جواب دینا چاہا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں ’’ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیہم شیئا قلیلا‘‘ کے ساتھ تنبیہ فرمائی۔ چنانچہ یہ ساری شرائط مسترد کر دی گئیں اور بنو ثقیف اپنی شرائط سے دست بردار ہو کر غیر مشروط طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
میں دینی مدارس کے فضلاء سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہی دو بڑے چیلنج آج کی گلوبل ہیومن سوسائٹی میں آپ کو بھی درپیش ہوں گے۔ عالمی سطح پر یہ کہ دوسرے مذاہب کی نفی نہ کریں اور صرف مثبت بات کرتے ہوئے ’’اتحاد بین المذاہب‘‘ کا ماحول پیدا کریں۔ جبکہ قومی معاشرہ میں یوں کہ دینی فرائض و واجبات کی پابندی کے لیے سختی نہ کریں اور شراب، سود، زنا، جوا، رقص و سرور، بت پرستی اور دیگر محرمات سے اجتناب کے بارے میں لچک پیدا کریں۔ اس لیے اس حوالہ سے قرآن کریم کی دو ٹوک تعلیمات اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور پورے حوصلہ و اعتماد کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ اور نفاذ کی محنت کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح بات سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔