اس سال برطانیہ کے سولہ روزہ سفر کے دوران بعض تقریبات میں جانے کا اتفاق ہوا اور کچھ نئی باتیں سامنے آئیں جن کا تذکرہ قارئین کے سامنے کرنا چاہتا ہوں۔ برطانیہ میں آکسفورڈ اور کیمبرج کو تعلیمی اور ثقافتی مراکز کے طور پر عالمگیر شہرت حاصل ہے اور انہیں مغرب کے فکر و فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے علمی سرچشمے سمجھا جاتا ہے۔ مجھے گزشتہ بیس سال کے دوران کم و بیش ہر سال برطانیہ جانے کا موقع ملا ہے اور آکسفورڈ میں کئی بار گیا ہوں مگر کیمبرج جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا حالانکہ وہ بھی آکسفورڈ ہی کی طرح مغرب کا بڑا علمی و تہذیبی مرکز ہے اور لندن سے گھنٹہ سوا گھنٹہ کی ڈرائیو پر واقع ہے۔
۱۸ جون کو لیسٹر کے مولانا محمد فاروق ملا کے ہمراہ چند جگہوں پر جانے کا پروگرام تھا اور واپسی پر رات کو لندن پہنچنا تھا، انہوں نے بتایا کہ ہم اپنے آخری اسٹاپ کینزلین سے لندن کی طرف جائیں گے تو راستہ میں کیمبرج بھی آئے گا۔ میں نے تقاضا کیا کہ پروگرام کی ترتیب ایسے طے کی جائے کہ تھوڑی دیر کے لیے کیمبرج میں گھومنے پھرنے کا موقع میسر آجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ہم کینزلین سے عصر کے بعد جلدی فارغ ہو کر چل پڑے اور مغرب سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل کیمبرج جا پہنچے۔ شام کا وقت تھا، کسی دوست کو تلاش کرنے اور یونیورسٹی سے متعلقہ اداروں کے اندر جانے کا موقع نہیں تھا اس لیے پروگرام یہ طے ہوا کہ مغرب کی نماز کیمبرج کی واحد مسجد ’’مسجد ابوبکر صدیق‘‘ میں پڑھی جائے اور اس سے قبل تھوڑا سا گھوم پھر کر یونیورسٹی کو باہر سے دیکھ لیا جائے۔ مولانا فاروق ملا کے ہمراہ گاڑی پر ہی دو چار سڑکوں کا چکر لگایا، طلبا اور طالبات کی ٹولیوں کو سڑکوں اور باغات میں چلتے پھرتے دیکھا، بازار کی رونق دیکھی اور مغرب کی نماز کے وقت مسجد میں پہنچ گئے۔ وہی آکسفورڈ کی طرز کا ماحول تھا البتہ مجھے کیمبرج میں رونق آکسفورڈ سے کم محسوس ہوئی۔
مسجد میں پہنچے تو مولانا فاروق ملا نے مسجد کے ذمہ دار حضرات سے میرا تعارف کرا دیا اور ان کا تقاضا ہوا کہ مغرب کے بعد نمازیوں سے میں تھوڑا بہت خطاب کروں۔ امام صاحب نے بتایا کہ ایک پروگرام پہلے سے بھی طے شدہ ہے اس لیے میں نے مختصرًا ایک بات پر اکتفا کیا۔ امام صاحب نے نماز مغرب کی پہلی رکعت میں سورۃ اللیل کی تلاوت کی تھی جس میں بخل کا ذکر ہے اور فرمان الٰہی ہے کہ ’’جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی ہم اس کے لیے تنگی کا راستہ ہموار کر دیتے ہیں‘‘۔ میں نے اس کا حوالہ دیا کہ بخل ایک مذموم صفت ہے جو مال میں بھی ہے اور علم میں بھی ہے۔ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت دی ہے لیکن وہ اسے اپنے تک محدود رکھتا ہے اور دوسروں کو اس نعمت میں شریک نہیں کرتا وہ بخیل ہے، اور ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت دی ہے اور وہ اسے خود تک محدود رکھتے ہوئے دوسرے لوگوں کو اس میں شریک کرنے سے گریز کرتا ہے تو وہ بھی بخیل ہے۔ اسی طرح ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اسے اپنی ذات تک محدود رکھنا بھی بخل ہے، ہر مسلمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ ایمان کی دعوت کو عام کرے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس نعمت خداوندی میں شریک کرنے کی کوشش کرے۔ اس حوالے سے میں کیمبرج کے مسلمانوں کو اس بات پر غور و فکر کی دعوت دینا چاہتا ہوں کہ اس شہر میں دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں سے لوگ آتے ہیں اور طلبہ و طالبات کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے، ہم انہیں اسلام کی دعوت دینے اور ایمان کی نعمت میں شریک کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ اگر ہم کچھ نہیں کر رہے اور ایمان کی دولت کو، قرآن و سنت کی دولت کو اور اسلام کی نعمت کو خود اپنی ذات اور ماحول کے دائرے تک محدود رکھے ہوئے ہیں تو ہم بخل سے کام لے رہے ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت کا مصداق ہم بھی قرار پاتے ہیں۔
نماز سے فارغ ہوئے تو مسجد کے قریب ہی ایک ریسٹورنٹ کے مالک محمد ارشد صاحب اصرار کر کے ہمیں شام کے کھانے کے لیے لے گئے۔ ان کا تعلق لاہور سے ہے، وہاں لاہور سے تعلق رکھنے والے چند دوست اور بھی تھے انہوں نے پرتکلف کھانا کھلایا۔ میں نے پاکستان شریعت کونسل کا نیوز لیٹر ’’نوائے شریعت‘‘ دیا تو دیکھتے ہی کہنے لگے کہ میرے ماموں بھی شریعت کے بارے میں بہت کچھ لکھتے رہتے تھے۔ پوچھا کون بزرگ تھے تو معروف فاضل اور دانشور مولانا ریاض الحسن نوری مرحوم کا نام لیا جو ہمارے محترم دوستوں میں سے تھے اور روزنامہ جنگ اور دیگر اخبارات میں اسلامی شریعت کے مختلف پہلوؤں پر تسلسل سے لکھا کرتے تھے۔ ہمارا ان سے تعلق تھا اور بہت سے کاموں میں ہمارے درمیان مشاورت رہتی تھی۔ وہ اسلامی شریعت کے دفاع اور اس کے مختلف احکام کی تشریح میں بہت اچھا لکھا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ درجات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ صاحبِ دعوت نے ان کا حوالہ دیا تو زیادہ خوشی ہوئی اور اس طرح مختصر سا وقت کیمبرج میں گزار کر ہم لندن کی طرف روانہ ہوگئے۔
اس روز ہم نے واٹن کا جیل خانہ بھی دیکھا۔ یہ برطانیہ کے چند بڑے جیل خانوں میں سے ہے اور نوٹنگھم سے دس بارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ مولانا فاروق ملا ہر ہفتے کے روز وہاں جاتے ہیں اور جیل کے مسلمان قیدیوں کے ساتھ ان کی نشست ہوتی ہے۔ وہ انہیں ہفتہ وار کلاس میں قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ ان کی فرمائش پر میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ ان سے پوچھا کہ مجھے جیل خانے کے اندر جانے کی اجازت مل جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ صرف پاسپورٹ چیک ہوگا اس کے سوا کوئی سوال و جواب نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ہم جیل کے مین گیٹ پر پہنچے تو مولانا فاروق ملا نے ایک پیٹی اپنی کمر کے گرد حمائل کر لی جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ جیل کے منظور شدہ استاذ ہیں، جبکہ میرا پاسپورٹ چیک کیا گیا البتہ موبائل فون اندر لے جانے کی اجازت نہ تھی وہ ہم نے باہر گاڑی میں رکھ دیا۔ جیل کے اندر گئے تو پندرہ سولہ مسلمان قیدی ایک کمرے میں ہمارے انتظار میں بیٹھے تھے اور ایک میز پر کافی، جوس اور پھل سجائے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے جیل کے حالات پوچھے اور انہوں نے جو کچھ بتایا وہ حیران کن تھا۔ اس لیے کہ میں نے بھی کئی بار پاکستان کی جیلوں میں وقت گزرا ہے، ہمارے ہاں ان باتوں اور سہولتوں کا عام قیدی کے لیے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ شام آٹھ بجے سے صبح آٹھ بجے تک انہیں کمرے میں بند کر کے لاک کر دیا جاتا ہے اور ہر قیدی کو الگ الگ کمرہ ملا ہوا ہے۔ صبح آٹھ بجے لاک اپ سے نکال کر ناشتہ دیا جاتا ہے جو دودھ اور توس وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے جس کے بعد وہ کام پر چلے جاتے ہیں۔ وہاں کام کی نوعیت یہ ہے کہ جیل کی خدمات سے متعلق بہت سے کام قیدیوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں جو ان کے لیے اختیاری بات ہوتی ہے۔ اگر کوئی قیدی کام نہ کرنا چاہے تو اس پر جبر نہیں کیا جاتا اور کام کرنے والوں کو باقاعدہ معاوضہ ملتا ہے۔ جھاڑو وغیرہ کا کام کرنے والے کا معاوضہ سب سے زیادہ ہوتا ہے، دس سے بارہ پاؤنڈ فی ہفتہ ہو سکتا ہے۔ اس سے کم کام کی نوعیت کے حساب سے پانچ سے آٹھ پاؤنڈ فی ہفتہ معاوضہ ملتا ہے۔ اور جو قیدی کام نہیں کرتا اسے بھی دو پاؤنڈ فی ہفتہ جیل خرچ مل جاتا ہے۔ آٹھ سے ساڑھے گیارہ بجے تک کام کرتے ہیں، پھر ڈیڑھ گھنٹہ کا وقفہ کھانے اور آرام کے لیے ہوتا ہے، پھر کھیل اور تفریح کا وقت ہوتا ہے جس کے لیے جیل میں مختلف سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، اور شام کو آٹھ بجے سے پہلے کھانا کھلا کر پھر لاک اپ میں بند ہو جاتے ہیں۔ میں نے ان سے کھانے اور ناشتے وغیرہ کی تفصیل پوچھی تو اندازہ ہوا کہ برطانیہ کی اس جیل میں ہمارے ہاں کے درمیانے درجے کے ہوٹل یا ریسٹ ہاؤس کے معیار کی سہولت قیدیوں کو ملی ہوئی ہے۔ خود ایک قیدی نے یہی کہا کہ صرف باہر جانے کی پابندی ہے ورنہ یہاں ہم اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ایک قیدی کی شادی بھی ہوئی جس کے لیے جیل حکام نے پوری سہولت فراہم کی ہے۔
ان مسلمان قیدیوں نے مجھ سے کچھ کہنے کے لیے کہا تو میں نے گزارش کی کہ آپ حضرات آزمائش اور ابتلا کی زندگی گزار رہے ہیں جس کے لیے میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت آپ کو جلد از جلد رہائی عطا فرمائیں۔ اور اس کے ساتھ ایک بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیل میں آپ کے پاس فرصت کا بہت وقت ہے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ فرصت اور فراغت کے وقت کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اسے ضائع کرنے کی بجائے کسی نہ کسی کام میں لانا چاہیے۔ آپ کو اپنی رہائی تک کا وقت بہرحال اس جیل میں گزارنا ہے اور یہ زیادہ تر وقت فراغت اور فرصت کا ہے، اسے ضائع مت کریں اور کسی نہ کسی کام میں لے آئیں۔ میں اس کے لیے آپ کو تین باتوں کا مشورہ دوں گا:
- ایک یہ کہ اپنی تعلیمی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور کوئی نہ کوئی کورس جس کی یہاں سہولت حاصل ہے ضرور کر لیں۔ اور اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کریں اور دینی ضروریات کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں تاکہ جیل سے باہر نکل کر ایک صحیح مسلمان کے طور پر زندگی بسر کر سکیں۔
- دوسری بات یہ ہے کہ یہاں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کی سہولت بھی ضرور ہوگی، اس سے فائدہ اٹھائیں اور کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھ لیں جو زندگی میں آپ کے کام آئے۔
- تیسری بات یہ ہے کہ خلوت، فرصت اور تنہائی کے ان اوقات میں اپنے مالک اور خالق کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ نماز کی پابندی کریں، قرآن کریم کی تلاوت کا معمول بنائیں، ذکر و اذکار کا اہتمام کریں، درود شریف پڑھیں اور اس طرح اس فرصت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانے کے لیے استعمال کریں۔
کیمبرج یونیورسٹی اور واٹن کے جیل خانے میں حاضری کے علاوہ اس سفر میں ایک نیا لطیفہ سننے اور دیکھنے کو ملا وہ بھی قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ ۱۹ جون کو شام کے وقت ایسٹ لندن میں رامفور روڈ پر گکھڑ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست میاں محمد اختر کے ہاں شام کے کھانے پر احباب جمع تھے۔ میاں صاحب محترم نے بتایا کہ ان کے پڑوس میں ایک ہندو رہتا ہے جس نے گھر میں ایک بڑا بت بھگوان کے نام سے رکھا ہوا ہے اور وہ اس کی عبادت کرتا ہے۔ دو روز قبل میں نے دیکھا کہ وہ ایک اور بڑا بت کھینچ کر لا رہا ہے اور مکان کے اندر لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو کہنے لگا کہ بھگوان ہے۔ میاں اختر نے کہا کہ ایک بھگوان تو تمہارے گھر میں پہلے سے موجود ہے، یہ دوسرا کس لیے لائے ہو؟ تو اس نے کہا کہ یہ بھگوان سیل پر بہت سستا مل گیا ہے اس لیے اسے بھی لے آیا ہوں۔ میاں صاحب نے کہا کہ مجھے بہت ہنسی آئی کہ اسے یہ سیل سے سستا خرید کر لایا ہے اور اسے گھر کے اندر لے جانے میں دشواری پیش آرہی ہے لیکن کل یہ اسی کے سامنے جھکا ہوگا اور اس سے مرادیں مانگ رہا ہوگا۔ میں نے گزارش کی کہ عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو اس نعمت سے محروم ہو وہ اسی طرح سیل پر سستے بھگوان ڈھونڈتا پھرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدۂ توحید پر ثبات و استقامت نصیب فرمائے، آمین۔