شعبان المعظم اور رمضان المبارک دینی مدارس میں درجہ کتب کے طلبہ کے لیے تعطیلات کے ہوتے ہیں اور شوال المکرم کے وسط میں عام طور پر نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دوران حفاظ اور قرا کا زیادہ وقت قرآن کریم کی منزل یاد کرنے اور رمضان المبارک کے دوران تراویح میں سننے سنانے میں گزرتا ہے۔ جبکہ عام طلبہ کو تعلیمی مصروفیات میں مشغول رکھنے اور ان کے وقت کو مفید بنانے کے لیے مختلف کورسز کے اہتمام کی روایت کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے۔ زیادہ تر قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دورے ہوتے ہیں جو شعبان کے آغاز سے شروع ہو کر رمضان المبارک کے وسط تک جاری رہتے ہیں۔ ان میں اساتذہ کرام اپنے اپنے ذوق کے مطابق طلبہ کو قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر مختصر دورانیہ میں پڑھاتے ہیں۔ ان میں حضرت مولانا حسین علیؒ ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا حماد اللہ ھالیجویؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلویؒ ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے دوروں نے بطور خاص شہرت حاصل کی، اور ہزاروں علماء و طلبہ نے ان سے استفادہ کیا۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے ۱۹۷۶ء سے ۲۰۰۰ء تک مسلسل پچیس سال دورہ تفسیر پڑھایا۔ اس کے علاوہ بھی ان کا ذوق یہ تھا کہ جامعہ نصرۃ العلوم میں درس نظامی کی آخری کلاسوں کو پابندی کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم پڑھاتے تھے جو دو سال میں مکمل ہوتا تھا۔ اور مدرسہ میں روزانہ تعلیم کا آغاز اسی سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ جبکہ عم محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا خصوصی ذوق یہ تھا کہ وہ دورۂ حدیث کے طلبہ کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ مکمل یا کچھ ابواب ضرور پڑھاتے تھے جو مدرسہ کے نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے۔ یہ دونوں کام اب بھی جاری ہیں اور دونوں بزرگوں کی یہ روایت جاری رکھنے کی سعادت بحمد اللہ تعالیٰ مجھے حاصل ہے۔ دورۂ تفسیر قرآن کریم کے علاوہ مختلف مقامات پر میراث، صرف و نحو، منطق، اصول فقہ اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین ان تعطیلات کے دوران اپنے اپنے فنون میں مختصر دورانیے کے کورسز کراتے ہیں جو بہت مفید اور ضروری ہیں۔
اب کچھ عرصہ سے عربی بول چال اور تحریر و تقریر کے کورسز کا اہتمام بھی ہونے لگا ہے، جس میں ہمارے فاضل دوست مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور کی شبانہ روز محنت کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ سب کورسز ہماری اجتماعی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں اور ان سے تعلیمی ذوق بڑھنے کے ساتھ ساتھ چھٹیوں کے اوقات کا صحیح مصرف بھی مل جاتا ہے اور تعلیمی ترقی بھی ہوتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیان اور فرق باطلہ سے طلبہ کو متعارف کرانے کے لیے بھی کورسز ہوتے ہیں جن میں چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور چنیوٹ میں ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے تربیتی دورے بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ قادیانیت کے دجل و فریب سے علماء و طلبہ کو واقف کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس قسم کے کورسز کا دائرہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے جو بہت خوش آئند ہے۔ لیکن ان میں نظم و ضبط اور باہمی رابطہ و تعاون کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات ایک طرز کی دینی ضرورت کی طرف تو سب کی توجہ ہوجاتی ہے اور ایک ایک شہر میں متعدد کلاسیں لگ جاتی ہیں، مگر دوسری طرز کی دینی ضرورت جو اسی درجہ کی اہمیت رکھتی ہے، نظر انداز ہو جاتی ہے اور اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ ہمارے خیال میں اگر کوئی بڑا دینی اور علمی ادارہ اس سال ملک بھر میں ایک سروے کا اہتمام کر سکے کہ کہاں کہاں کون کون سے مضامین میں یہ دورے ہوتے ہیں اور ملک کی عمومی دینی ضروریات کے حوالہ سے ان کا تناسب کیا ہے تو یہ بہت بڑی دینی خدمت ہوگی۔ یوں اگلے سال ان کاموں کی ترجیحات اور درجہ بندی کرنے میں آسانی رہے گی۔
گزشتہ دنوں ایک بڑے مدرسہ میں بخاری شریف کے آخری سبق کے موقع پر میں نے طلبہ سے عرض کیا کہ وہ فارغ ہونے کے بعد اور تعطیلات کے دوران اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اور کسی نہ کسی کورس میں اپنے ذوق کے مطابق ضرور شریک ہوں، یا کچھ وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا لیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ خود اپنے اوقات اور معمولات کی ترتیب قائم ہو جاتی ہے اور طرح طرح کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور گفتگو سے پبلک ڈیلنگ کا ذوق بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
ہمارے خیال میں دینی مدارس کے طلبہ کے ذوق، ضروریات اور نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے جس قسم کے کورسز کی ضرورت ہے، ان میں اہم عنوانات یہ ہو سکتے ہیں:
- ترجمہ قرآن کریم اور تفسیر۔ خاص طور پر انہیں عوام میں درس قرآن کی طرز اور ذوق سے بہرہ ور کرنا۔
- غیر اسلامی ادیان اور فرق باطلہ سے تعارف اور اس میں مسائل میں مناظرہ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان مذاہب کی تاریخ، مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت، متنازعہ معاملات اور ان کی موجودہ پوزیشن سے متعارف کرانا بھی ضروری ہے، تاکہ باہمی معاملات کی صحیح پوزیشن سامنے آئے۔
- صرف، نحو، میراث اور دیگر فنون کے مطالعاتی اور تعارفی دورے۔
- آج کے دور میں اسلام کی دعوت و تعارف کی ضروریات اور تقاضوں سے آگاہی۔
- عربی بول چال اور تحریر و تقریر کی مشق اور اس کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے عملی تربیت۔
- موجودہ فکری تحریکات کے فکری اور تاریخی پس منظر اور ان کے نقصانات سے آگاہی۔
- اصول فقہ، اصول تفسیر اور اصول حدیث کے تعارفی کورسز۔
- موجودہ بین الاقوامی ماحول، عالمی قوانین و نظام اور مسلمانوں پر ان کے اثرات سے آگاہی۔
- اسلام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مغربی مفکرین بالخصوص مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ۔
- شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین پر جدید اعتراضات و اشکالات کا جائزہ۔
- پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد اور اس کے تقاضوں سے آگاہی۔ وغیر ذالک۔
ان مقاصد کے لیے اصل میں تو درس نظامی سے فراغت کے بعد بڑے جامعات کو ایک ایک سال کے کورسز کا اہتمام کرنا چاہیے جو ان میں سے کسی ایک موضوع پر ہوں۔ لیکن تعارفی سطح پر سالانہ تعطیلات کے دوران مختصر کورسز بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں جامعۃ الرشید نے گزشتہ دنوں جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان اور مولانا سید عدنان کاکاخیل کی سربراہی میں جو تھنک ٹینک قائم کیا ہے وہ اس کی منصوبہ بندی میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔
ایک تجربہ محدود سطح پر ہم نے بھی الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں گزشتہ سال سے شروع کر رکھا ہے جو ’’دورہ تفسیر قرآن کریم و محاضرات قرآنی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس سال یہ کلاس ۳ شعبان سے ۲۸ شعبان تک ہوگی اور اس میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں، بین الاقوامی قوانین اور خلافت و شریعت سمیت مختلف عنوانات پر بیسیوں محاضرات ہوں گے۔ اس سلسلہ میں زیادہ تر خدمت راقم الحروف خود سر انجام دے گا جبکہ معاون اساتذہ میں مولانا فضل الہادی، مولانا حافظ محمد یوسف، مولانا ظفر فیاض، مولانا حافظ وقار احمد اور حافظ محمد عمار خان ناصر شامل ہوں گے، ان شاء اللہ العزیز۔