۲۱ فروری کو شاہ فیصل مسجد اسلام آباد میں دعوہ اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ سیرت کانفرنس میں کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعلِ راہ ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں سے ہر دور میں انسانی سوسائٹی نے استفادہ کیا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔ مگر میں آج سیرت طیبہ کے ایک پہلو کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کرنا چاہوں گا کہ جناب رسول اللہ نے نسل انسانی کو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور اس کی عبادت میں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرنے پر زور دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ جو لوگ اللہ کو بھول جاتے ہیں اللہ انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیتے ہیں۔ نسلِ انسانی میں ہر دور میں ایسے لوگوں کی اکثریت رہی ہے جو اپنے پیدا کرنے والے کو بھول کر اپنی خواہشات کے مطابق چلنا شروع کر دیتے ہیں اور خواہشات کو خدا بنا لیتے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ایسے لوگ بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے نام پر زندگی کی آسائشوں اور سوسائٹی کے تعلقات سے منہ موڑ لیتے ہیں، قرآن کریم نے رہبانیت کے عنوان سے اسی رویے کا ذکر کیا ہے اور اس کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے ساتھ تعلقات و معاملات کو متوازن بنانے کا حکم دیا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے ساری زندگی اسی کی تلقین فرمائی ہے، ایک طرف وہ لوگ جنہوں نے خالق و مالک کو بھلا رکھا ہے ان کو یہ دعوت دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف واپس آئیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور دوسری طرف سوسائٹی سے منقطع ہو جانے والوں کو تلقین فرمائی کہ وہ انسانی تمدن اور رشتوں کے تقاضوں اور سوسائٹی کے تعلقات سے کنارہ کشی نہ کریں بلکہ اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں کے حقوق پورے کریں۔
نسلِ انسانی کے نام جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام کو واضح کرنے کے لیے میں بخاری شریف کی ایک روایت پیش کرنا چاہوں گا کہ جب حضرت سلمان فارسیؓ مسلمان ہو کر آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش ہوئے تو ان کی حیثیت مہاجر کی تھی۔ جناب نبی کریمؐ نے ہجرت کے بعد کچھ عرصہ تک مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کرائی تھی، ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا تھا اور وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کو اسی ضابطے کے مطابق حضورؐ نے ایک انصاری صحابی حضرت ابوالدرداءؓ کا بھائی بنا دیا۔ حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں کہ وہ اپنے بھائی کو لے کر اپنے گھر گئے تو ان کا پہلا دن بڑے دلچسپ ماحول میں گزرا۔ حضرت سلمان فارسیؓ جہاندیدہ بزرگ تھے، گھر میں داخل ہوتے ہی بھانپ گئے کہ گھر میں میاں بیوی تو ہیں مگر میاں بیوی والا ماحول نہیں ہے۔ گھر میں میاں بیوی موجود ہوں اور دونوں میں انڈر اسٹینڈنگ بھی ہو تو گھر خود بتاتا ہے کہ میں گھر ہوں، مگر حضرت سلمان فارسیؓ کو ایسا ماحول نظر نہ آیا تو اپنی بھاوج سے یعنی حضرت ام الدرداءؓ سے خود ہی پوچھ لیا کہ گھر میں کوئی زیب و زینت نظر نہیں آرہی اور تم نے بھی کوئی ڈھب کے کپڑے نہیں پہن رکھے۔ سادہ زمانہ تھا، سادہ لوگ تھے۔ ام الدرداءؓ نے بھی بے تکلفی سے جواب دیا کہ آپ کے بھائی کو کسی بات سے دلچسپی ہی نہیں ہے، میں کس کے لیے زیب و زینت کا اہتمام کروں گی؟
دوپہر کا وقت ہوا تو حضرت ابوالدرداءؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے لیے دستر خوان بچھایا اور کھانے کی دعوت دی۔ انہوں نے ابوالدرداءؓ کو ساتھ بیٹھنے کے لیے کہا تو جواب دیا کہ میرا روزہ ہے اور میں بلاناغہ روزہ رکھا کرتا ہوں۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے اصرار کیا تو انہیں روزہ توڑنا پڑا اور وہ روزہ توڑ کر کھانے میں شریک ہو گئے۔ نفلی روزہ تھا اور نفلی روزے کا حکم آج بھی یہ ہے کہ اگر مہمان کا اصرار ہو تو روزہ توڑ دے مگر مہمان کا دل نہ توڑے۔ اس لیے کہ اصول یہ ہے کہ فرائض و واجبات میں حقوق اللہ کو فوقیت حاصل ہے مگر نوافل اور مستحبات میں حقوق العباد مقدم ہوتے ہیں، چنانچہ مسئلہ یہ ہے کہ مہمان کی دلداری ضروری ہو تو نفلی روزہ توڑ دے اور بعد میں اس کی قضا کر لے۔ رات عشاء کے بعد حضرت سلمان فارسی کے لیے بستر بچھایا گیا تو انہوں نے حضرت ابوالدرداءؓ سے پوچھا کہ آپ کا کیا پروگرام ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں رات کو نوافل پڑھا کرتا ہوں اور سونے کا معمول نہیں ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے ان سے کہا کہ بستر لائیں اور آرام کریں۔ ابوالدرداءؓ نے پھر کہا کہ میں عبادت کروں گا تو حضرت سلمان فارسیؓ نے زور دے کر کہا کہ بستر لاؤ اور آرام کرو۔ ابوالدرداءؓ کہتے ہیں کہ میں اس خیال سے بستر لے آیا کہ تھوڑی دیر میں جب یہ سو جائیں گے تو اٹھ کر عبادت میں مشغول ہو جاؤں گا مگر تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو حضرت سلمان فارسیؓ نے پھر ڈانٹ دیا اور کہا کہ سو جاؤ، عبادت کا وقت ہوا تو میں خود جگا دوں گا۔ وہ لیٹ گئے، جب سحری کا وقت ہوا تو حضرت سلمان فارسیؓ اٹھے اور حضرت ابوالدرداءؓ کو بھی جگایا۔ دونوں نے تہجد کے نوافل پڑھے اور پھر نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد نبویؐ کی طرف روانہ ہوگئے۔ مسجد نبویؐ جانے سے پہلے حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابوالدرداء کو ایک نصیحت کی جس میں فرمایا کہ:
’’ان لربک علیک حقًا، ولنفسک علیک حقًا، ولأھلک علیک حقًا، ولزورک علیک حقًا، فأعط کل ذی حق حقہ‘‘
تیرے رب کا تجھ پر حق ہے، تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے، پس ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت سلمان فارسیؓ کی یہ نصیحت ہی پورے دین کا خلاصہ ہے۔ اس کے بعد جب دونوں حضرات مسجد نبویؐ پہنچے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز فجر ادا کر کے حضرت ابوالدرداءؓ نے آنحضرتؐ کی خدمت میں گزشتہ روز و شب کی رپورٹ پیش کی اور حضرت سلمان فارسیؓ کی نصیحت کے بارے میں بتایا تو آپؐ نے فرمایا ’’صدق سلمان‘‘ سلمان نے جو کیا ٹھیک کیا اور جو کہا ہے سچ کہا ہے۔ ’’صدق‘‘ کا تعلق قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے، اس لیے حضورؐ نے یہ فرما کر حضرت سلمان فارسیؓ کے قول و عمل دونوں کی تصدیق و توثیق فرما دی جس کے بعد یہ نصیحت اور کاروائی حضرت سلمان فارسیؓ کی نہیں رہی بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بن گئی۔
اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ جناب رسول اکرمؐ کا نسلِ انسانی کے لیے سب سے بڑا پیغام یہ ہے، آپؐ کی سب سے بڑی تعلیم یہ ہے اور آپؐ کی سب سے بڑی ہدایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اس کی مخلوق، سوسائٹی اور تمدن کو نہ بھول جاؤ، اور سوسائٹی کے معاملات میں الجھ کر خدا کو نہ بھول جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وقت میں اس کی عبادت کرو، بیوی کا وقت اس کو دو، نفس کا حق اس کو ادا کرو، اور مہمان کا حق اس کے وقت پر پورا کرو۔ آج کے دور میں جبکہ نسل انسانی کی ایک بڑی اکثریت اپنے خالق و مالک کو بھول گئی ہے اور پیدا کرنے والے کے احکام کو بھول کر اپنی خواہشات پر آگئی ہے، اس فطری پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔