انسدادِ توہینِ رسالت کا قانون اور مسیحی راہنماؤں کا نقطۂ نظر

   
۷ جنوری ۲۰۱۱ء

سلمان تاثیر کے قتل پر ملک بھر میں جس ردعمل کا اظہار ہوا ہے اس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلم امہ اور خاص طور پر پاکستان کے غیور مسلمان خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو کسی قسم کی لچک اور نرمی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور اس مسئلہ پر مسلمانوں کا جذباتی ہونا جو مغرب کے نزدیک قابل اعتراض بات ہے مسلمانوں کی ایمانی جرأت اور دینی حمیت کے اظہار کی علامت بن گیا ہے۔

مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی ہر قوم کو اور ہر بات کو اپنے ماحول اور ذہنی دائروں میں پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالٰی نے انسانی سوسائٹی میں رنگ و نسل اور ذوق و مزاج کے فرق کے ساتھ ساتھ نفسیات، جذبات اور ذہنی دائروں میں بھی فرق رکھا ہے، جسے ختم کرنا اور ہر مسئلہ کو کسی ایک قوم یا طبقے کے مزاج و نفسیات کے معیار پر لانا ممکن ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اپنی ذہنی ساخت ہے، نفسیات ہیں، جذبات ہیں اور ذوق و مزاج ہے جسے علامہ اقبالؒ نے

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

سے تعبیر کیا ہے اور اس کا لحاظ رکھے بغیر اسے ڈیل کرنے والوں نے ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے۔ ایک چھوٹا سا واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ عباسی خلافت کے دور میں کسی مسیحی دانشور نے ایک مسلمان عالم سے کہا تھا کہ تمہارے پیغمبرؐ عجیب ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں حتٰی کہ پیشاب پاخانہ کے آداب بھی بتاتے ہیں۔ مسلمان عالم نے جواب دیا کہ جو بات تمہارے نزدیک اعتراض کی ہے وہی ہمارے نزدیک خوبی اور کمال کی ہے کہ ہمارے پیغمبرؐ کی تعلیمات میں اس قدر جامعیت ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات میں خود ہماری راہنمائی فرماتے ہیں اور راہنمائی کے کسی درجے میں بھی ہمیں دوسروں کا محتاج نہیں رہنے دیتے۔ اسی طرح مسلمان کا قرآن کریم کے ادب و احترام اور جناب نبی اکرمؐ کی حرمت کے حوالے سے حساس ہونا اور جذبات کا اظہار کرنا مغرب کے نزدیک اعتراض کی بات ہے، مگر ہمارے ہاں یہ خوبی اور کمال کی بات ہے کہ کوئی مسلمان آج بھی نہ قرآن کریم کی توہین برداشت کرتا ہے اور نہ ہی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں کسی درجہ کی توہین اسے گوارا ہوتی ہے۔

سلمان تاثیر کی دو باتیں پاکستان کی مسلم سوسائٹی کو ہضم نہیں ہو رہی تھیں جن پر ردعمل کا اظہار گورنر کے اپنے ہی ایک محافظ نے عملاً کیا ہے اور ملک کی رائے عامہ نے اس کا ہر سطح پر خیرمقدم کیا ہے جسے مغربی دنیا انتہائی حیرت اور صدمہ کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ ایک یہ کہ توہینِ رسالت کی ایک ملزمہ کے کیس میں جسے سیشن کورٹ نے مجرمہ قرار دے دیا تھا اور ابھی اس کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے مراحل باقی تھے، گورنر نے اس کیس کو درمیان میں ہی ہائی جیک کر لیا، دستوری و قانونی پراسیس کو کراس کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کے اس عمل کو مغربی دنیا نے تحسین کی نظر سے دیکھا اور اس کی برملا تحسین کی گئی۔ اور پھر (دوسرا یہ کہ) سلمان تاثیر نے توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو ہدفِ تنقید بنایا اور اسے ختم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اسے نعوذ باللہ ’’کالا قانون‘‘ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔

یہاں یہ بات خصوصی طور پر قابل توجہ ہے کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کے بارے مروجہ قانون سے اختلاف کرنے والوں کے دو طبقے ہیں:

  • ایک طبقے کا کہنا ہے کہ اسے قانون سے اختلاف نہیں ہے اور وہ توہینِ رسالت کو جرم سمجھتے ہوئے اس پر سزا کو ضروری سمجھتے ہیں، البتہ انہیں اس قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال پر اعتراض ہے اور وہ اس میں ایسی ترامیم چاہتے ہیں جن سے اس کا غلط استعمال رک جائے اور کسی بے گناہ کو اس کے ذریعے کسی بھی حوالے سے انتقام کا نشانہ نہ بنایا جا سکے۔
  • جبکہ دوسرا طبقہ وہ لوگ ہیں جو سرے سے توہینِ رسالت کو جرم ہی نہیں سمجھتے اور اس پر کسی سزا کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب کے منافی تصور کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے مغربی معیار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ سیکولر جمہوریت کو عدل و انصاف کا واحد معیار تصور کرتے ہوئے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات اور ریاست و حکومت کی پالیسیوں میں مذہب کا کوئی حوالہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور حکومتی و ریاستی امور میں دینی تعلیمات کا ہر حوالہ ختم کر دینے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔

گزشتہ دنوں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے جامعۃ الخیر لاہور میں مسیحی علماء اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کے درمیان اس مسئلہ پر مکالمہ کا اہتمام کیا جس میں بشپ الیگزینڈر جان ملک اور بشپ منور سمیت نصف درجن کے لگ بھگ مسیحی علماء نے شرکت کی اور دوسری طرف مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا عبد المالک خان، رانا شفیق پسروری، مولانا یاسین ظفر، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا قاری روح اللہ، جناب لیاقت بلوچ، مولانا محمد امجد خان، علامہ حسین اکبر نجفی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور راقم الحروف سمیت دیگر علماء شریک ہوئے۔

اس موقع پر اس مسئلہ پر تفصیلی بحث ہوئی جس میں دونوں فریق اس بات پر پوری طرح متفق تھے کہ توہینِ رسالت جرم ہے اور اس کی سنگین سزا پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، البتہ دونوں فریقوں کے اپنے اپنے تحفظات تھے جن کا ذکر کیا گیا اور باہمی وعدہ ہوا کہ دونوں فریق ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اگلی کسی ملاقات میں ان تحفظات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

ہماری طرف سے اس تحفظ کا اظہار کیا گیا کہ وہ سیکولر لابی جو پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہے اور ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون سمیت ہر اس قانون کو ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے جس میں دینی تعلیمات کا کوئی حوالہ موجود ہے۔ اور مسیحی مذہبی راہنماؤں کی طرف سے تحفظ ناموس رسالت کے قانون کو ختم کرنے کا مسلسل مطالبہ اس سیکولر لابی کی تقویت کا باعث بن رہا ہے جبکہ یہ بات خود مسیحی تعلیمات اور بائبل کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔

مسیحی راہنماؤں نے اس تحفظ کا اظہار کیا کہ ان کے بقول اس قانون کا سب سے زیادہ استعمال مسیحی کمیونٹی کے خلاف ہو رہا ہے اور ان کے خیال میں اسے مسیحی لوگوں کو مختلف حوالوں سے انتقام اور تذلیل کا نشانہ بنانے کے لیے بطور خاص استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر جب کسی واقعہ پر عوامی اشتعال کے اظہار کے موقع پر مسیحی آبادی اور بستیاں عمومی سطح پر قتل و غارت اور آتش زنی کا نشانہ بنتی ہیں تو مسلمان علماء مظلوموں کو بچانے کی بجائے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں، کچھ علماء کرام اس عوامی اشتعال کو بڑھانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ایک مسیحی راہنما نے اس موقع پر کہا کہ ہم توہینِ رسالت پر موت کی سزا کے خلاف نہیں ہیں لیکن جب ہم عوامی اشتعال کی زد میں ہوتے ہیں اور اس وقت ہماری دادرسی نہیں ہوتی اور کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہوتا تو پھر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا کہ ہم سرے سے اس قانون کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ کریں جو اس صورتحال کا ذریعہ بن رہا ہے۔

اس پر ہماری طرف سے عرض کیا گیا کہ قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کو روکنا الگ مسئلہ ہے اور نفسِ قانون کو ختم کرنا اس سے قطعی مختلف بات ہے جس کو مسیحی راہنماؤں کے بیانات میں ملحوظ نہیں رکھا جا رہا اور ان کے مطالبات اور سرگرمیاں سیکولر عناصر کی تائید سمجھی جا رہی ہیں۔

اس پس منظر کا ذکر ہم نے اس لیے کیا ہے کہ اس مہم کے اصل رخ کو سمجھا جائے جو گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح کیس میں قانون کو ہاتھ میں لے کر شروع کی تھی تاکہ اس پر عوامی ردعمل اور اشتعال کی اصل وجہ کو سمجھا جا سکے جو مغربی دنیا کے لیے حیرت اور پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ جہاں تک قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کو روکنے کی بات ہے، کوئی بھی ذی شعور شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے اس سے کبھی اختلاف کیا ہے۔ لیکن نفسِ قانون اور توہینِ رسالت پر موت کی شرعی سزا کی مخالفت، اسے ختم کرانے کی کوشش اور نعوذ باللہ اسے کالا قانون، ظالمانہ قانون یا انسانی حقوق کے منافی قرار دینا بہرحال توہین ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے اور اس پر پاکستانی رائے عامہ کے جذباتی ردعمل پر اعتراض کرنے والوں کو اس عمل کا بھی جائزہ لینا چاہیے جس کے ردعمل میں یہ سب کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن ایسا کہنے والوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب گورنر نے قانون کو ہاتھ میں لیا تھا اور پورے عدالتی پراسیس کو کراس کرتے ہوئے سیشن کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کا کھلے بندوں اعلان کیا تھا تو قانون کے احترام کا دعوٰی کرنے والوں نے اس ہاتھ کو روکنے کی کیا کوشش کی تھی؟ ہمارے خیال میں اگر گورنر کو قانون ہاتھ میں لینے پر ٹوک دیا جاتا اور قانون اور عدالتی پراسیس کا احترام باقی رکھنے کا اہتمام کیا جاتا تو ممتاز قادری کے قانون کو ہاتھ میں لینے کی نوبت ہی نہ آتی۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بات دونوں طرف سے ہوئی ہے، اگر قاتل نے قانون کو ہاتھ میں لیا تھا تو مقتول نے بھی قانون کو ہاتھ میں لیا تھا اور یہ عمل اس سارے قصے کا نقطۂ آغاز ہے۔

اس لیے ہماری گزارش ہے کہ قانون کے احترام کی بات ضرور کی جائے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی مخالفت بھی ضرور کی جائے لیکن اس سلسلے میں توازن کو قائم رکھا جائے اس لیے کہ توازن بگڑنے سے ہی معاملات میں بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter