پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد

   
۲۶ جنوری ۲۰۱۲ء

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان ۲۷ جنوری جمعۃ المبارک کو کراچی میں اور ۲۹ جنوری اتوار کو گوجرانوالہ میں عوامی جلسوں کا اہتمام کر رہی ہے۔ کراچی کا جلسہ ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ کے عنوان سے اور گوجرانوالہ کا جلسہ ’’تحفظ اسلام و پاکستان کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہو رہا ہے۔ یہ جلسے جمعیۃ علماء اسلام کی اس ’’رابطۂ عوام مہم‘‘ کا حصہ ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح اگلے الیکشن سے قبل عوامی بیداری اور اپنے کارکنوں کو الرٹ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ان جلسوں سے مولانا فضل الرحمان اور دیگر جماعتی قائدین خطاب کریں گے جبکہ جماعتی کارکنوں کی کھیپ ان جلسوں کو کامیاب بنانے کے لیے شب و روز مصروف عمل ہے۔ اس موقع پر پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ اس جدوجہد کا تسلسل ایک بار سامنے آجائے جو پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک نفاذ اسلام کے سلسلہ میں ہوئی ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں یہ سوال بلاوجہ کھڑا کر دیا گیا تھا کہ ملک کا دستور اسلامی بنیادوں پر ہوگا یا سیکولر ہوگا؟ اس لیے کہ متحدہ ہندوستان سے پاکستان کو الگ کرنے اور ایک نئی مسلم ریاست کی تشکیل کی وجہ صرف یہ بیان کی گئی تھی کہ مسلمان اپنے اکثریتی علاقوں میں اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ایک الگ ریاست ضروری ہے تاکہ وہ اپنے دینی احکام و قوانین اور ثقافتی روایات کے مطابق معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے ان باتوں کا کھلم کھلا اعلان کیا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد ان اعلانات کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ بحث چھیڑ دی گئی کہ ملک کا دستور اسلامی ہونا چاہیے یا سیکولر ہونا چاہیے۔ اس وقت ملک کے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم تھے جو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد مسلم لیگ کے سب سے بڑے اور مسلّمہ قائد تھے۔ جبکہ دستور ساز اسمبلی میں تحریک پاکستان کے نامور رہنما شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ موجود تھے جو مشرقی پاکستان سے منتخب ہو کر دستور ساز اسمبلی میں آئے تھے اور مسلم لیگ کے سرکردہ راہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ دستور ساز اسمبلی میں اس صورتحال کا سامنا مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پوری جرأت و استقلال کے ساتھ کیا جو اس وقت اس جمعیۃ علماء اسلام کے سربراہ تھے جس نے جماعتی طور پر تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی محنت اور جدوجہد سے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان مرحوم نے دستور ساز اسمبلی میں ’’قرارداد مقاصد‘‘ پیش کی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی اور جس میں ہمیشہ کے لیے طے پا گیا کہ پاکستان میں حاکمیت اعلٰی اللہ تعالٰی کی ہوگی اور اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر نظام مملکت چلایا جائے گا۔ اور اس طرح پاکستان کو باقاعدہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست کی حیثیت دے دی گئی جس پر عالمی سیکولر لابیاں اب تک پیچ و تاب کھا رہی ہیں۔

ملک کا موجودہ آئین جو ۱۹۷۳ء کا دستور کہلاتا ہے جب ۱۹۷۳ء میں ملک کی منتخب دستور ساز اسمبلی میں منظور کیا گیا تو اس وقت دستور ساز اسمبلی میں جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمودؒ نہ صرف جمعیۃ علماء اسلام کے پارلیمانی گروپ کی قیادت کر رہے تھے بلکہ حزب اختلاف کے بھی قائد تھے اور ان کی قیادت میں حزب اختلاف نے دستور میں اسلامی دفعات شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں انہیں دیگر علماء کرام اور حزب اختلاف میں شامل دیگر جماعتوں کا تعاون بھی حاصل تھا مگر یہ معرکہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں سر ہوا جس کے تحت:

  • ملک کا سرکاری مذہب اسلام قرار پایا۔
  • قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کو پارلیمنٹ کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔
  • اور قرآن و سنت کے منافی قانون سازی سے پارلیمنٹ کو دستوری طور پر روک دیا گیا ،وغیر ذٰلک۔

اس کے بعد ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو اس وقت بھی جمعیۃ علماء اسلام کے راہنماؤں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبد الحقؒ اور دیگر حضرات نے بنیادی کردار ادا کیا اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں اور علماء کرام کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کو اس بات کے لیے تیار کیا۔ جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے دیا اور یہ پرانا مسئلہ اسلامی احکام اور عوامی جذبات کے مطابق حل ہوا۔

۱۹۷۷ء میں ملک بھر میں نظام مصطفٰی کے نفاذ کی تحریک ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے پلیٹ فارم سے چلائی گئی جس کے سربراہ جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمودؒ تھے اور اس زبردست عوامی تحریک کے بعد جنرل ضیاء الحق مرحوم کی حکومت نے جب ’’تحریک نظام مصطفٰیؐ‘‘ کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کیا تو قومی اتحاد نے اس مقصد کے لیے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ حکومت میں شامل ہو کر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں شریعت ایپلٹ بینچ جیسے اہم ادارے قائم کرائے، حدود آرڈیننس کا نفاذ عمل میں لایا گیا، قرارداد مقاصد دستور کا واجب العمل حصہ قرار پائی اور نفاذ اسلام کے دیگر عملی اقدامات کیے گئے۔

۱۹۸۴ء میں حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی قیادت میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام تحریک ختم نبوت کے نئے دور کا آغاز ہوا تو اس وقت جمعیۃ علماء اسلام دو گروپوں یعنی درخواستی گروپ اور فضل الرحمان گروپ میں تقسیم تھی۔ دونوں گروپوں نے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر سرگرم کردار ادا کیا اور تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام پر مشتمل کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی عوامی جدوجہد کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ ہوا، جس کے تحت قادیانیوں کو اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے اور اسلام کی مخصوص اصطلاحات کے استعمال سے قانوناً روک دیا گیا۔

۱۹۸۵ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سینٹ کے جمعیۃ علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے دو ارکان مولانا قاضی عبد اللطیف اور مولانا سمیع الحق نے ’’شریعت بل‘‘ پیش کیا جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قرآن و سنت کو دستوری طور پر ملک کا سپریم لاء قرار دیا جائے۔ اس کے لیے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام پر مشتمل ’’متحدہ شریعت محاذ‘‘ جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ راہنما حضرت مولانا عبد الحق آف اکوڑہ خٹک کی سربراہی میں بنا جس کی طرف سے ملک گیر عوامی مہم چلائی گئی اور طویل جدوجہد کے بعد سینٹ آف پاکستان نے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے کا بل منظور کر لیا جس پر ملک بھر میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔ لیکن یہ بل جب قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے اسے اس شرط کے ساتھ منظور کرایا کہ ’’قرآن و سنت ملک کا سپریم لاء ہوں گے بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہ ہو‘‘ اور اس طرح قرآن و سنت کی بالادستی کو مشروط کر کے بل کو غیر مؤثر کر دیا گیا۔

گزشتہ عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں دستور پاکستان پر نظرثانی کے لیے کمیٹی بنائی گئی تو بین الاقوامی اور ملکی سطح پر بہت سی لابیاں متحرک ہوگئیں کہ نظرثانی کے نام پر اسلامی دفعات کو دستور سے خارج کر دیا جائے یا کم از کم غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ یہ ملک کی دینی قوتوں کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا جس کا جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے دستوری کمیٹی میں پوری جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلامی دفعات کے خلاف پیش کی جانے والی ہر ترمیم پر دلائل کے ساتھ بحث کر کے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ مولانا سمیع الحق جب تک سینٹ میں رہے پارلیمنٹ میں ان کا تعاون بھی مولانا فضل الرحمان کو حاصل رہا مگر باقاعدہ چیلنج کے طور پر اس کا مقابلہ پارلیمنٹ میں اور دستوری کمیٹی میں مولانا فضل الرحمان نے کیا۔ اور یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عالم اسباب میں دستوری ترامیم کی زد میں آنے والی اسلامی دفعات کو بچانے میں مولانا فضل الرحمان کا کردار فیصلہ کن رہا جسے تاریخ میں جمعیۃ علماء اسلام کے اہم کارنامہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

دستور سازی، دستور میں اسلامی دفعات کے تحفظ اور نفاذ شریعت کے سلسلہ میں جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد کے یہ چند مراحل ہم نے ذکر کیے ہیں۔ ورنہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک نفاذ شریعت کی دستوری و قانونی جدوجہد کی باقاعدہ تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تاریخ مرتب ہونے پر ہی جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد اور کردار کا اس حوالہ سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکے گا۔

آج جبکہ جمعیۃ علماء اسلام رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، ایک طرف مولانا فضل الرحمان ملک بھر میں جمعیۃ علماء اسلام کو عوامی محاذ پر ازسرنو متحرک کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور دوسری طرف مولانا سمیع الحق ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ کے عنوان سے امریکہ کی جارحیت کے خلاف عوامی محاذ کو منظم کر رہے ہیں، اس موقع پر میں پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کی مذموم جدوجہد کے ایک نئے پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ روزنامہ جنگ لاہور میں یکم جنوری ۲۰۱۲ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے پاکستان کے دستور میں اسلامی دفعات کو ختم کرنے کے لیے نئی مہم کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت اس نے دستور پاکستان میں ترامیم کا مسودہ تیار کر لیا ہے اور اس کے لیے لابنگ شروع کر دی ہے۔ اسلام اور پاکستان کی نظریاتی شناخت کے خلاف اس مکروہ مہم کو دینی جماعتیں، مذہبی مکاتب فکر اور خاص طور پر جمعیۃ علماء اسلام ہی ناکام بنا سکتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام جمعیۃ علماء اسلام کا بھرپور ساتھ دیں اور ان کانفرنسوں کو بھرپور طریقے سے کامیاب بنا کر نفاذ اسلام اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter