پاک چین دوستی اور سی پیک کے معاملات

   
مجلس ارشاد المسلمین، لاہور
۲۱ اکتوبر ۲۰۱۸ء

گزشتہ اتوار کو جامعہ محمدیہ (پرانا کاہنہ، لاہور) میں مجلس ارشاد المسلمین لاہور نے سی پیک (CPEC) کے حوالہ سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ مجلس ارشاد المسلمین لاہور کے امیر مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ایک اہم قومی مسئلہ پر اس سیمینار کا اہتمام کیا اور مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی۔ اس قسم کے قومی و ملی مسائل پر اظہار خیال، مذاکرہ اور مباحثہ ہمارے ہاں جس قدر ضروری ہے اسی اعتبار سے اس کی طرف توجہ کم ہوتی ہے، اس لیے اس نشست کے انعقاد پر مجھے خوشی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جمعیۃ علماء اسلام لاہور کے راہنما حافظ ابوبکر شیخ کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے سی پیک کے تاریخی اور معروضی پس منظر کے بارے میں ایک معلوماتی رپورٹ پیش کی جو انتہائی ضروری ہے، میں خود بھی اس طرح کی بریفنگ کی ضرورت محسوس کر رہا تھا اور اس سے مجھے مفید معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ کسی بھی مسئلہ پر غوروفکر کے لیے اس کے بارے میں واقعاتی اور معروضی حقائق سے واقفیت ضروری ہوتی ہے ورنہ محض ہوائی معلومات سے مسئلہ صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آتا۔

سی پیک کے بارے میں اس خیال کا اظہار کرتا آرہا ہوں کہ اس کے مختلف پہلوؤں پر متعلقہ حلقوں میں تبادلۂ خیالات ضروری ہے اور اس کے حوالہ سے جن خدشات کا اظہار وقتاً فوقتاً ہو رہا ہے ان میں سے جو خدشات فی الواقع درست محسوس ہوتے ہیں ان کے بارے میں عوامی جمہوریہ چین کے ارباب اقتدار اور اہل دانش کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفتگو کی ضرورت ہے۔ چنانچہ آج کی محفل میں اس گزارش کو چند نکات کی صورت میں پیش کرنا چاہتا ہوں:

  1. پہلی بات یہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین ہمارا دوست ملک ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے ساتھ دوستی کا یہ ہاتھ تھام رکھا ہے اور اس کی دوستی ہر آزمائش میں پوری اتری ہے۔ ہماری سات عشروں پر محیط قومی تاریخ گواہ ہے کہ ہر مشکل مرحلہ میں چین نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ ہم چین کے حوالے سے کوئی بھی معاملہ کرتے ہوئے اسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے، ہم اس دوستی کی قدر کرتے ہیں اور اسے ہر ممکن طور پر نباہنا اپنا قومی و اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ سی پیک ایک تجارتی معاہدہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کا معاشی مستقبل وابستہ ہے، کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کی صورت میں پاکستان کو بے پناہ معاشی اور اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے اور وہ نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا بلکہ عالمی ماحول میں ایک مضبوط معاشی قوت کے طور پر ابھرے گا۔ ہم اپنے بہتر معاشی مستقبل کے حوالہ سے اس کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور کوئی بھی قوم یا طبقہ اپنے بہتر مستقبل کے امکانات اور مواقع کو ضائع کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔
  3. تیسری گزارش یہ ہے کہ ہم ماضی میں اس قسم کے تجارتی معاہدات کا حصہ رہے ہیں اور اس وقت بھی بہت سے معاہدات میں شریک ہیں۔ کسی بھی نئے تجارتی معاہدہ میں کوئی کردار اختیار کرنے سے پہلے فطری طور پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ماضی کے ان تجربات اور ان کے مثبت اور منفی نتائج سے ہونے والے نفع و نقصان کا جائزہ لیں۔ مثلاً ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ جب برصغیر میں آئی تو اس کا بنیادی دائرہ تجارت ہی تھا، اس کی پہلی لڑائی ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ سے تجارتی معاملات پر ہوئی تھی جس کے نتیجے میں سراج الدولہ شہیدؒ کو شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضہ کر لیا اور اس خطہ میں اپنی حکومت و اقتدار کا آغاز کیا۔ پھر انیسویں صدی کے تیسرے عشرہ میں دہلی کے مغل حکمران شاہ عالم ثانی مرحوم کے ساتھ جس معاہدہ کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی اور اس کے ساتھ پوری مغل سلطنت کا انتظام سنبھال لیا تھا وہ معاہدہ تجارت و محصولات کے حوالہ سے تھا اور اسی کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۸۵۷ء تک پورے برصغیر پر حکومت کی تھی جس کے بعد تاج برطانیہ نے براہ راست برصغیر کا انتظام سنبھال لیا تھا۔

    پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یلغار کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور ان کے پیدا کردہ مسائل سے ہم مسلسل نمٹ رہے ہیں، ان کا تفصیلی جائزہ لینا بھی بہرحال ضروری ہے۔ ابھی چند سال قبل یورپی یونین نے ’’جی پلس‘‘ کے جس معاہدہ میں پاکستان کی شرکت کو کنفرم کرنے کے لیے انسانی حقوق کے ۲۷ عالمی معاہدات کی پابندی اور خاص طور پر پاکستان کے قانون میں سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کر دینے کی شرط لگائی ہے، وہ معاہدہ بھی تجارتی ہی ہے۔ اس لیے پاکستان کے ارباب حل و عقد اور اصحاب فکر و دانش سے گزارش ہے کہ وہ ماضی اور حال کے ان تجارتی معاہدات کے نفع و نقصان کا جائزہ لے کر سی پیک کے معاہدہ و معاملہ میں ان تجربات سے استفادہ کریں۔

  4. چوتھی گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ نہ تو کھلے جلسوں میں ان معاملات کا تذکرہ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی بند کمروں میں گفتگو کافی ہے، بلکہ ہر متعلقہ فورم پر یہ مباحثہ و مکالمہ ہونا چاہیے۔ مثلاً تہذیبی و معاشرتی امور پر ملک کی یونیورسٹیوں اور بڑے دینی مدارس و مراکز کو اس مباحثہ کا اہتمام کرنا چاہیے، تجارتی و معاشی امور کا جائزہ چیمبرز آف کامرس طرز کے فورموں پر لیا جانا چاہیے، سیاسی اثرات پر سیاسی جماعتوں اور حلقوں کو اظہار خیال کرنا چاہیے، اور مجموعی طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کا حق بلکہ فریضہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ان امور پر کھلے دل سے بحث کریں اور ملک و قوم کے نفع و نقصان کا جائزہ لیں۔
  5. پانچویں گزارش یہ ہے کہ ان سب امور کو کسی مورچہ بندی اور محاذ آرائی کا موضوع نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی بین الاقوامی لابیوں کو کسی بھی سطح پر ان میں شریک ہونے کا موقع دینا چاہیے۔ کیونکہ ہم ’’سی پیک‘‘ کو خدانخواستہ ناکام بنانے یا سبوتاژ کرنے کے حق میں ہرگز نہیں ہیں بلکہ اسے چین اور پاکستان دونوں کے لیے بہتر سے بہتر بنانے کا موقف اور خواہش رکھتے ہیں۔ اس لیے باہمی خدشات و تحفظات پر عوامی جمہوریہ چین کی قیادت اور دانشوروں سے دوستانہ ماحول میں گفت و شنید ہونی چاہیے اور دونوں طرف کے متعلقہ اداروں اور حلقوں کو اس میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
  6. اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ میں تاریخ، سیاست اور سماجیات کے ایک طالب علم کے طور پر سی پیک میں سرمایہ کاری کے لیے مختلف اطراف سے سامنے آنے والی پیشرفت کو بھی فہم و تدبر اور حکمت و دانش کی چھلنی سے گزارنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ صرف تجارتی معاہدہ نہیں ہے بلکہ عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان دونوں کے مستقبل کے بہت سے امور اور اہداف اس سے وابستہ ہیں جنہیں تجارتی فوائد اور معاشی منافع کی بھینٹ چڑھا دینا کسی طرح بھی حکمت و تدبر کا تقاضا نہیں ہوگا۔ بین الاقوامی تجربہ کار شکاریوں کے ہم رنگ زمین جالوں سے سی پیک کو محفوظ رکھنا اور اس اس کے اصل اہداف کی طرف لے جانا بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان اور چین کے قومی اور بین الاقوامی اہداف و مقاصد میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کی جائے اور کسی شاطر طالع آزما کو اس میں گھسنے کے لیے کوئی خلا فراہم نہ کیا جائے۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۸ء)
2016ء سے
Flag Counter