گیارہ اور بارہ ربیع الاول کو اسلام آباد میں وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے موصول ہوگیا تھا اور میں نے شرکت کا فیصلہ کر کے اپنی عادت کے مطابق اس سے پہلے اور بعد اس علاقہ میں چند مزید پروگرام بھی سفر کی ترتیب میں شامل کر لیے تھے، مگر دو روز قبل ایک واقعہ ہوا جس کے باعث میں نے کانفرنس میں شرکت کا ارادہ منسوخ کر دیا البتہ دیگر سب پروگراموں میں حاضری دی اور دو تین دن مسلسل اسلام آباد میں ہی رہا۔
کچھ عرصہ سے بار بار ایسا ہو رہا ہے کہ بعض حساس اداروں کے اہل کار رابطہ کرتے ہیں اور کچھ معلومات لینے کے عنوان سے سوالات کا پورا پنڈورا باکس کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ متعدد مرتبہ میں نے متعلقہ حضرات سے قدرے سختی سے بھی کہا کہ میرا مکمل ریکارڈ آپ کے پاس تفصیل کے ساتھ موجود ہے، میں ۱۹۶۲ء سے اس شہر میں مقیم اور دینی و سیاسی جدوجہد میں متحرک ہوں جبکہ ۱۹۶۹ء سے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔ کسی بات میں کوئی سوال طلب مسئلہ ہو تو پوچھ لیں مگر ہر بار یہ سوالات ٹھیک نہیں ہیں کہ باپ کا نام کیا ہے، ماں کون تھی، بھائیوں اور بہنوں کے نام کیا ہیں، بہنوئی کہاں ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں، بیٹوں بیٹیوں کے نام اور مشاغل کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چند ماہ قبل میں نے ایک اہل کار کو پاس بٹھا کر ایسے بیسیوں سوالات کے جوابات لکھوائے اور بہت سے کوائف خود لکھ کر بھی دیے اور کہا کہ جو کچھ پوچھنا ہو ایک بار پوچھ کر فائل مکمل کر لو اور بار بار تنگ نہ کرو۔
اس پس منظر میں ’’قومی سیرت کانفرنس‘‘ سے دو روز قبل ایک ادارے کے اہل کار نے فون کیا کہ کیا آپ انٹرنیشنل سیرت کانفرنس اسلام آباد میں شریک ہوں گے؟ میں نے کہا کہ شرکت کا ارادہ تو ہے۔ اس نے کہا کہ کچھ معلومات چاہئیں، میں نے کہا پوچھیں۔ سوال کیا کہ آپ کے والد صاحب کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا کہ وہی جو کئی بار آپ لوگوں کو لکھوا چکا ہوں، کہنے لگا کہ پھر بتا دیں۔ میں نے کہا ہم لوگ باپ تبدیل نہیں کیا کرتے اس لیے وہی نام درست ہے جو آپ کے پاس پہلے لکھا ہوا ہے۔ اس نے کہا میں نیا آیا ہوں مجھے نہیں معلوم۔ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کے دفتر کا ریکارڈ گم ہوگیا ہے یا پہلا اہل کار سارا ریکارڈ اپنے گھر لے گیا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ مجھے بتائیں، میں نے غصے سے جواب دیا کہ نہیں بتاؤں گا، ریکارڈ نکال کر دیکھ لو اور پھر میں نے فون بند کر دیا۔
یہ اگر پہلی بار ہوتا یا صرف میرے ساتھ ہوا ہوتا تو شاید اس کا کبھی کسی کے سامنے تذکرہ بھی نہ کرتا مگر مجھے معلوم ہے کہ یہ ملک بھر میں بہت سے علماء کرام کے ساتھ ہو رہا ہے اور بار بار ہو رہا ہے۔ اس لیے میں نے اس کیفیت میں اسلام آباد کی انٹرنیشنل سیرت کانفرنس میں شرکت کا ارادہ ترک کر دیا، اس لیے کہ یہ انکوائری اور تحقیق نہیں بلکہ تذلیل اور تحقیر ہے جو ایک پالیسی کے تحت ملک بھر میں دینی اداروں، شخصیات اور حلقوں کے ساتھ مسلسل روا رکھی جا رہی ہے اور گزشتہ چند روز سے اس کی تازہ لہر قارئین کے مشاہدہ میں ہے۔ دینی اداروں، شخصیات اور حلقوں کے ساتھ تحقیر اور تذلیل کا یہ رویہ ہمارے بعض اداروں کو ورثہ میں ملا ہے اور وہ اس میں خود کو ایک دوسرے سے بڑھ کر ’’بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کا وفادار‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ بلیک واٹر کا پاکستانی ایڈیشن اس دوڑ میں سب سے پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب وفاقی وزارت مذہبی امور نے ملک کے ایک معروف شہری کو کانفرنس میں شرکت کے لیے باقاعدہ دعوت نامہ جاری کیا ہے اور وہ اس سے قبل بھی اس قسم کے اجتماعات میں شریک ہوتا رہا ہے تو پھر ہر کانفرنس کے موقع پر اس کے بارے میں سوالات کا پشتارہ نئے سرے سے کھولنے کی ضرورت یا جواز کیا ہے؟ اور کیا یہ اس شخص کے بارے میں شکوک و شبہات کا ماحول قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزارت مذہبی امور پر بھی بے اعتمادی کا اظہار نہیں ہے؟ پھر اس رویے کا یہ دوغلاپن چھپانے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو رہی کہ اسی ملک کے شہریوں کے مختلف طبقات کے ساتھ الگ الگ طرز عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی حالیہ لہر ابھی سامنے آئی ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے علماء اور کارکنوں کے خلاف جن الزامات میں کریک ڈاؤن چل رہا ہے وہ سب کے سب کام انہی سڑکوں، بازاروں اور چوکوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بہت سے دیگر عناصر بھی کھلم کھلا کرتے رہے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ ایک کام غیر مذہبی لوگ کریں اور زیادہ شدت کے ساتھ کریں تو وہ ان کا شہری اور سیاسی حق شمار ہوتا ہے، مگر وہی کام مذہبی لوگ کرنے لگیں تو حکومت کی رٹ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ہمیں تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے طریق کار اور زبان و لہجہ سے کبھی اتفاق نہیں رہا البتہ تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے ان کے موقف و مطالبات کو ہم درست سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کی جن سرگرمیوں کو حکومتی رٹ کے لیے چیلنج قرار دیا جا رہا ہے کیا انہی سڑکوں اور چوکوں میں ابھی ایک برس قبل وہی سرگرمیاں ان سے زیادہ شدت کے ساتھ بہت سے لوگ نہیں کرتے رہے؟
ریاستی اداروں کے طرز عمل میں یہ فرق نہ صرف ’’انصاف‘‘ کے تقاضوں کے خلاف ہے بلکہ اس رویہ کے پیچھے بین الاقوامی سیکولر حلقوں کی جو بے ساختہ مسکراہٹیں جھلک رہی ہیں وہ نہ صرف جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں بلکہ ان سے قومی خودمختاری کے حوالہ سے موجود سوالیہ نشان اور زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں، کیا ذمہ دار حلقے اس پر سوچنے کی زحمت بھی فرما سکیں گے؟