وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز پر جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمود نے قوم کو خبردار کیا تھا کہ اس سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کو نقصان پہنچے گا اور یہ تجویز عملاً مسئلہ کشمیر کو دفن کر دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ بھٹو صاحب نے آزادکشمیر کو صوبہ بنانے سے تو اجتناب کیا لیکن آزاد کشمیر میں پارلیمانی نظام اور ’’بالاتر کشمیر کونسل‘‘ پر مشتمل نیا آئینی فارمولا پیش کر کے مذکورہ مقاصد کے لیے نئی راہ اختیار کر لی۔ اس فارمولے کے نتائج و ثمرات رفتہ رفتہ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتوں مثلاً مسلم کانفرنس اور جمعیۃ علماء آزاد کشمیر نے اسے مسترد کر دیا ہے اور سردار محمد عبد القیوم خان بھی اس پر دستخط کرنے کے بعد ’’سجدہ سہو‘‘ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں ’’کشمیر کونسل‘‘ کے اس فارمولے کے بہانے بعض حلقوں نے بھارت کے ساتھ کشمیر کے باقاعدہ الحاق کی تحریک کو تیز تر کر دیا ہے۔ اور اس طرح کشمیریوں کا حق خود ارادیت دونوں طرف سے بعض افراد کی سیاسی اغراض کا شکار ہوا چاہتا ہے۔
ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نئے آئینی فارمولے کو واپس لے کر آزاد کشمیر کی سابقہ آزاد حیثیت کو بحال رکھا جائے اور پوری ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو آزادانہ رائے کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا انسانی و جمہوری حق دلوانے کے لیے اپنی جدوجہد کو مؤثر اور تیزتر کر دیا جائے۔