۱۳ اپریل ۲۰۰۶ء کو شیر گڑھ مردان میں تحریک آزادی کے عظیم راہنما حضرت مولانا عزیر گل ؒ کی یاد میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں متحدہ مجلس عمل کے راہنماؤں مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کے علاوہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اکرم درانی اور دیگر اہم شخصیات نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار میں حضرت مولانا عزیر گل ؒ کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور تحریک آزادی میں ان کے کردار کو سراہتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کیا گیا۔
حضرت مولانا عزیر گل ؒ کا تعلق مالاکنڈ ایجنسی سے تھا، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کے تلامذہ اور خدام میں سے تھے اور ان کے خادم خاص کے طور پر مالٹا جزیرے کی اسارت میں بھی ان کے ساتھ رہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ تحریک آزادی کے نامور قائدین میں سے ہیں اور انہوں نے اپنے عظیم اسلاف حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ،حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ ، حضرت سید احمد شہیدؒ ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی جدوجہد اور روایات کا پرچم سربلند رکھتے ہوئے اپنے دور میں مجاہدین آزادی کی نہ صرف راہنمائی کی بلکہ برطانوی استعمار کے تسلط سے وطن عزیز کو آزاد کرانے کی عملی جدوجہد کی قیادت بھی فرمائی اور اس کے صلے میں بڑھاپے میں مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصہ تک نظر بند رہے۔حضرت شیخ الہندؒ کو تاریخ میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جب مسلمانوں کا نظام تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا ، ایک طرف علی گڑھ یونیورسٹی اور دوسری طرف دارالعلوم دیوبند کی تعلیمی جدوجہد سے ملک کے تعلیم یافتہ حضرات الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آنے لگتے تھے تو حضرت شیخ الہندؒ کی ذات گرامی ان دونوں طبقوں کے درمیان نکتہ اتحاد کے طور پر ابھری اور ان کی محنت سے تحریک آزادی کے پلیٹ فارم پر بہت سے جدید تعلیم یافتہ حضرات علماء حق کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے جن میں ڈاکٹر انصاریؒ ، حکیم اجمل خانؒ ، مولانا محمد علی جوہرؒ ، مولانا ظفر علی خانؒ، مولانا شوکت علیؒ اور دیگر اکابر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
حضرت مولانا عزیر گلؒ اس مشن میں حضرت شیخ الہندؒ کے خادم اور معاون خصوصی تھے اور انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے شیخ کے اس مشن کو آگے بڑھانے میں صرف کر دیا۔ راقم الحروف کو کئی بار حضرت مولانا عزیر گلؒ کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے، وہ شہرت اور تعارف سے دور رہنے والے خاموش طبع بزرگ تھے اور تحریک آزادی میں اپنی خدمات کے تذکرہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔وہ شیخ الہندؒ کے عاشق زار اور فنا فی الشیخ تھے، ان سے جب بھی بات ہوتی وہ فرماتے کہ بھئی میں کچھ بھی نہیں ہوں جو کچھ بھی تھے حضرت شیخ الہندؒ تھے، میں ان کا صرف خادم تھا اور ان کے احکام کی تعمیل کیا کرتا تھا۔ ایسے بے نفس اور خدا ترس بزرگ ہی ہماری تاریخ کا اصل سرمایہ ہیں اور ان کی خدمات اور ان کے کارناموں سے نئی نسل کو متعارف کرانا آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے۔
’’اسیر مالٹا سیمینار‘‘ کے منتظمین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک اچھے سلسلے کا آغاز کیا ہے۔ ہماری نئی پود اپنے بزرگوں اور ان کی خدمات سے بالکل ناواقف ہے اور نئی نسل میں تیزی سے پھیلنے والے فکری انتشار اور ذہنی پراگندگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ تک جن بزرگوں نے برطانوی استعمار کے تسلط اور مغربی فکر و فلسفہ کی یلغار کے مقابلہ میں خدمات سرانجام دی ہیں اور ہمہ جہت جدوجہد کا تسلسل جاری رکھا ہے ان کی خدمات کو اجاگر کیا جائے اور نئی نسل کو ان سے روشناس کرایا جائے، کیونکہ مغربی استعمار کے تسلط اور مغربی تہذیب و ثقافت اور فکر و فلسفہ کی یلغار کے جس نئے دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اس میں فکر و عمل کی راہنمائی انہی بزرگوں کی جدوجہد اور خدمات سے حاصل ہوگی اور انہی کے نقش قدم پر چل کر ہم اپنی دینی و ملی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر سرخرو ہو سکتے ہیں۔