۲۰ نومبر کو شام چھ بجے جناح ہال میونسپل کارپوریشن لاہور میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی یاد میں ’’حافظ الحدیث سیمینار‘‘ منعقد ہو رہا ہے جس میں سرکردہ علماء کرام اور دانشور ان کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کریں گے۔
مولانا درخواستیؒ کا انتقال گذشتہ برس اگست میں کم و بیش ایک سو برس کی عمر میں ہوا تھا، ان کا تعلق ضلع رحیم یار خان کے شہر خانپور سے تھا جہاں ان کا قائم کردہ دینی ادارہ ’’جامعہ مخزن العلوم و الفيوض‘‘ گذشتہ نصف صدی سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ وہ اپنے وقت کے بڑے عالم دین، محدث اور مفسرِ قرآن تھے۔ ان سے ہزاروں علماء کرام نے دینی تعلیمات کا فیض حاصل کیا، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور ارشادات نبویؐ کے ساتھ انہیں جنون کی حد تک عشق تھا، ان کی کوئی مجلس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی احادیثِ مبارکہ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی تھی اور جب بھی رسول اکرمؐ کا ذکر ہوتا ان کی آنکھیں تر ہو جاتیں اور جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ انہیں احادیثِ نبویؐ یاد کرنے کا شوق تھا اور اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ احادیث نبویؐ یاد ہونے کی وجہ سے ’’حافظ الحدیث‘‘ کا خطاب ان کے نام کا جزو بن گیا تھا۔ وہ عام مقررین کی طرح خطیب نہیں تھے، لیکن جب کسی اجتماع سے خطاب کرتے تو ان کی گفتگو گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی اور گفتگو کا بیشتر احادیث نبویؐ پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ ان کے جذب اور عشق نبیؐ کا فیض تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں سامعین بسا اوقات فجر کی اذان تک ان کے خطاب میں محو رہتے۔
مولانا درخواستیؒ نے دینی اور روحانی تعلیم و تربیت دین پور شریف میں حاصل کی اور حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ کا فیض صحبت پایا۔ یہ خانقاہ دینی درسگاہ اور روحانی تربیت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ برصغیر کی جدوجہد ِآزادی کا بھی بڑا مرکز تھی، چنانچہ اسیرِ مالٹا شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ نے جرمنی، ترکی اور افغانستان کے ساتھ مل کر آزادئ ہند کا جو منصوبہ بنایا تھا اس میں دین پور شریف تحریک کے بڑے مراکز میں سے تھا۔ یہ تحریک جو ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے، ناکام ہو گئی تھی اور اس کی پاداش میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کو اپنے دیگر رفقاء سمیت مالٹا جزیرے میں کم و بیش ساڑھے تین سال تک نظر بند رہنا پڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا درخواستیؒ پر تعلیم، تصوف اور سیاسی جدوجہد کے اثرات ساری زندگی نمایاں رہے اور انہوں نے انہی میدانوں میں کم و بیش پون صدی تک متحرک کردار ادا کیا۔
مولانا درخواستیؒ ایک طرف قرآن و حدیث اور دینی علم کے ایک مایہ ناز استاد تھے جن کے سامنے ہزاروں علماء نے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ملک بھر میں دینی مدارس کے قیام میں انہوں نے ذاتی دلچسپی لی۔ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش میں سینکڑوں دینی مدارس ایسے ہیں جو مولانا درخواستیؒ کی توجہ اور محنت سے قائم ہوئے اور وہ مدت العمران مدارس کی سرپرستی کرتے رہے، وہ قال اللہ اور قال الرسولؐ کی مسند سجانے کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت و تلقین کے میدان کے بھی شہسوار تھے، وہ سلوک سے زیادہ جذب سے آشنا تھے اور ہزاروں افراد نے ان سے روحانی فیض حاصل کیا اور اسی سب کچھ کے ساتھ وہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر بھی تھے۔ انہیں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی جگہ جمعیت علماء اسلام کا امیر منتخب کیا گیا اور آخر دم تک وہ اس منصب پر فائز رہے۔ انہوں نے تحفظ ختم نبوت، تحریک نفاذِ شریعت، جہادِ افغانستان اور جہادِ کشمیر کے لیے بے شمار لوگوں کو تیار کیا اور خود ان تحریکوں کی راہنمائی کی۔
ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن یہ تھا کہ ملک میں اسلامی نظام کا عملی نفاذ ہو اور وہ آخر وقت تک اس مشن کے لیے سرگرم عمل رہے۔ مولانا درخواستیؒ کے بارے میں ان کے مزاج پر جذب و عشق کے غلبہ کی وجہ سے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ سیاست کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اور انہیں محض تبرک کی وجہ جمعیت کا امیر منتخب کیا گیا تھا، یہ بات درست نہیں ہے۔ مجھے ان کی قیادت میں تیس سال اور ان کی ٹیم کے ایک رکن (سیکرٹری اطلاعات) کے طور پر سترہ سال کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ مجلس شوریٰ میں قومی مسائل پر بحث و گفتگو کے دوران ان کی واضح رائے ہوتی تھی، جس پر بسا اوقات وہ اس حد تک اڑ جاتے تھے کہ مجلس شوریٰ کو اپنی رائے تبدیل کرنا پڑتی تھی۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی کابینہ میں پاکستان قومی اتحاد کی شمولیت کے مسئلہ پر جمعیت کی مجلس شوریٰ کا اجلاس راولپنڈی میں ہوا تو مولانا درخواستیؒ راستہ کی رکاوٹ کی وجہ سے بروقت نہ پہنچ سکے اور شوریٰ نے کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا تو مولانا درخواستیؒ نے نہ صرف اس سے اختلاف کیا، بلکہ شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا نقصان بہت جلد تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کابینہ سے علیحدگی کے بعد ایک موقع پر مولانا مفتی محمودؒ نے کہا کہ ’’بھئی وزارتوں کے معاملہ میں تو مولانا درخواستیؒ کی رائے ہی صحیح ثابت ہوئی۔‘‘
زندگی کے آخری چند سالوں میں علالت اور ضعف کے باعث جماعتی معاملات پر ان کی گرفت مضبوط نہیں رہی تھی، تاہم وہ ہر ملنے والے کو نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بات اہتمام کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ علماء کرام کو پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کا سہارا بننے کی بجائے اپنا اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ وہ علماء کرام کی آزادانہ اور باوقار سیاسی جدوجہد کے علمبردار تھے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی سیاست سے شدید اختلاف کا اظہار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔