حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود ان دنوں پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں اور جامعہ اشرفیہ لاہور میں دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کو بخاری شریف کے اسباق پڑھانے کے علاوہ مختلف علماء کرام سے ملاقاتوں اور دینی و قومی معاملات میں گفتگو اور راہنمائی کے کاموں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ شب مولانا عبد الرؤف فاروقی، قاری محمد عثمان رمضان اور اپنے دو پوتوں ہلال خان اور ابدال خان کے ہمراہ جامعہ اشرفیہ حاضر ہوا تو بہت خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا۔
۳ فروری اتوار کو امامیہ کالونی لاہور میں علامہ صاحب کے قائم کردہ تعلیمی و تربیتی ادارہ جامعہ ملیہ کی سالانہ تقریب تھی، اس میں حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ علامہ صاحب محترم کا یہ خصوصی ذوق ہے کہ وہ ہر سال یہ تقریب اپنے بزرگوں میں سے کسی اہم شخصیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اس سال یہ تقریب شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی خدمات کے تذکرہ کے لیے مخصوص تھی، چنانچہ تحریک پاکستان کے اس عظیم راہنما کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع مل گیا جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ہمارے اکابر میں سے تھے اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے اس قافلہ کے اہم فرد تھے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی دینی، علمی، فکری، سیاسی اور روحانی تربیت اور راہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا اور شیخ الہند کے مشن کی تکمیل کے لیے مسلسل پیشرفت کی۔
علامہ عثمانیؒ کا یہ امتیاز ہے کہ شیخ الہندؒ نے قرآن کریم کے ترجمہ و حواشی کا جو کام مالٹا کی اسارت کے دوران شروع کیا تھا اس کی تکمیل مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اس ذوق اور عمدگی کے ساتھ کی کہ وہ علمی حلقوں میں انہی کے نام کے ساتھ موسوم ہوگیا اور میرے جیسے طالب علموں کو استاذ اور شاگرد کے ذوق و معیار میں کوئی واضح فرق بھی محسوس نہیں ہوتا۔ مسلم شریف کی شرح فتح الملہم حضرت علامہ عثمانیؒ کی محدثانہ شان ظاہر کرتی ہے جبکہ میری طالب علمانہ رائے میں ہمارے مسلکی حلقہ کے متکلمین میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے بعد سب سے بڑے متکلم کے طور پر حضرت علامہ عثمانیؒ کا نام سامنے آتا ہے۔
اس دور کے اعتقادی اور فکری فتنوں کے تناظر میں اہل سنت کے عقائد و افکار کی تشریح میں حضرت نانوتویؒ کے بعد حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے دو بڑے نام تاریخ کا حصہ ہیں، مگر اس فرق کے ساتھ کہ حضرت علامہ کشمیریؒ کی علمی و تحقیقی کاوشوں سے استفادہ زیادہ تر روایتی علمی حلقوں کے حصہ میں آیا جبکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے علامہ عثمانیؒ کا اسلوب میرے خیال میں زیادہ مؤثر ثابت ہوا۔ اس حوالہ سے ان کے رسالہ ’’الشہاب‘‘ کا بطور خاص حوالہ دینا چاہوں گا جو ارتداد کی شرعی سزا کے بارے میں انہوں نے اس دور میں تحریر فرمایا جب ارتداد کی شرعی حد پر بعض علمی حلقوں میں اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور حضرت علامہ عثمانیؒ نے یہ مختصر مگر وقیع رسالہ تحریر فرما کر اس سلسلہ میں جمہور اہل علم کے موقف کی علمی بنیادوں کو واضح فرمایا تھا۔
شیخ الہندؒ کے مشن کے ایک اور پہلو سے بھی حضرت علامہ عثمانیؒ کی خدمات نمایاں نظر آتی ہیں کہ مالٹا کی اسارت سے واپسی پر شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے جہاں دینی مدارس اور کالج و یونیورسٹی کے تعلیمی نظام و ماحول میں اجنبیت کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں مسلم نیشنل یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کا قیام عمل میں آیا، اس کے ساتھ انہوں نے دینی مدارس اور عصری کالجوں کے فارغ التحصیل فضلاء کو قومی جدوجہد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا اور مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، حکیم محمد اجمل خانؒ، مولانا شوکت علیؒ، اور ڈاکٹر انصاریؒ جیسی قدآور شخصیات پر مشتمل قیادت کو قومی جدوجہد کی صف اول کی زینت بنا دیا۔ اس مہم میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو حضرت شیخ الہندؒ کے نمائندہ اور دست راست کی حیثیت حاصل تھی اور یہ اسی کا ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا کہ وہ تحریک پاکستان کی قیادت میں علی گڑھ کے تعلیم یافتہ حضرات کے ساتھ اپنے رفقاء سمیت ہراول دستہ کی حیثیت اختیار کر گئے۔
حضرت علامہ عثمانیؒ کو اسلامی عقائد و افکار کی عصری تعبیر و تشریح کے ساتھ ساتھ اسلامی شریعت کے احکام و قوانین اور ان کی موجودہ دور میں تنفیذ و فروغ کی اہمیت و ضرورت کی وضاحت و تعبیر کے محاذ پر بھی اہل علم کی قیادت کا مقام حاصل ہوا۔ چنانچہ انہی کی علمی و فکری راہنمائی کے ماحول میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ منظور کی جو ہمیشہ کے لیے پاکستان کے نظریاتی امتیاز اور تہذیبی تشخص کی بنیاد بن گئی۔ اگر دستور ساز اسمبلی میں حضرت علامہ عثمانیؒ کے خطابات کو جمع کیا جا سکے تو یہ اسلامائزیشن کی تحریک کا ایک بہت بڑا علمی اثاثہ ثابت ہوں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ شیخ الہندؒ نے تعلیم کے دینی و عصری تقاضوں کو یکجا کرنے اور ان کے ماحول کو مشترک کرنے کا جو تصور پیش کیا تھا اس پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا مرتب کردہ مشترکہ اٹھارہ سالہ تعلیمی نصاب اور علی گڑھ کی تیار کردہ کھیپ کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان کے لیے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی مسلسل جدوجہد ہمارے لیے دو اہم سنگ میل ہیں جو امت کے روشن مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم اپنے ان بزرگوں کی ان کاوشوں کو اپنے اور نسل نو کے بہتر مستقبل کی بنیاد بنا سکیں، آمین یا رب العالمین۔