انسانوں کی تجارت اور اقوام متحدہ

   
جولائی ۲۰۱۰ء

روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ۱۶ جون ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ انسانوں کی تجارت جدید دور میں غلامی کی ایک شکل ہے اور یہ لعنت دنیا کے ہر علاقے میں موجود ہے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محنت، مشقت اور جنسی استحصال کے لیے مردوں عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ اور ان کی خرید و فروخت، مجرموں کے منظم گروہوں کے لیے پیسہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے، انسانی تجارت کا شکار ہونے والی اکثر لڑکیوں کو مکروہ دہندے میں ڈال دیا جاتا ہے انسانوں کی تجارت جتنی عام ہے اتنی ہی اس کے بارے میں معلومات کم ہیں، یہ گھناؤنا کاروبار اتنا چوری چھپے کیا جاتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں لیکن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ سات سے چالیس لاکھ تک انسان ہر سال بین الاقوامی سر حدوں کے آرپار پہنچائے جاتے ہیں۔

انسانوں کی خرید و فروخت کا یہ مکروہ کاروبار بہت پرانا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھا، حضرت سلمان فارسی ؒاور حضرت زید بن حارثہؓ جیسے بزرگ اسی کے نتیجے میں غلامی کے مراحل سے گزرے تھے۔ مگر جناب نبی اکرمؐ نے ’’بیع الحر حرام‘‘ کے اعلان کے ساتھ آزاد انسانوں کی تجارت کو ممنوع قرار دے دیا اور یہ قیامت تک حرام ہے۔ البتہ جنگی قیدیوں کے حوالہ سے (۱) انہیں آزاد کر دینے (۲) فدیہ وصول کرنے یا (۳) غلام بنا لینے کی مختلف صورتوں میں، حکم کے طور پر نہیں، بلکہ ایک آپشن کے طور پر باقی رکھا۔ اور اس کے لیے بھی غلاموں کے حقوق اور ان کے آزادی کے حق سے متعلقہ ایسے قوانین و احکام اسلامی شریعت کا با ضابطہ حصہ ہیں جن کے ذریعے غلامی کی مضرت کو کم سے کم کرنے کی مربوط حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور اس کے خاتمہ کی بتدریج راہ ہموار کی گئی ہے۔

مغرب کو غلامی کی اس محدود اور اختیاری شکل پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے اور اسے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر ہر دور میں استعمال کیا گیا ہے لیکن آزاد انسانوں کی تجارت خود مغرب میں ایک صدی قبل تک کھلم کھلا ہوتی رہی ہے اور اس بردہ فروشی کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کو ایک طویل خانہ جنگی سے گزرنا پڑا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام انسانوں کی ایک بڑی تعداد ہر علاقہ میں موجود ہے جن کے باپ دادا غلام تھے، انہیں افریقہ سے پکڑ کر غلام بنایا گیا تھا، انہیں جانوروں سے زیادہ بدتر ماحول میں زندگی گزرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، جانوروں کی طرح ان کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں اور اب سے پون صدی قبل تک انہیں رائے اور ووٹ تک کا حق حاصل نہیں تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دنیا کو غلامی سے نجات دلائی اور آزاد انسانوں کی تجارت کا خاتمہ کیا حالانکہ آزاد انسانوں کی تجارت کا خاتمہ چودہ سو سال قبل جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا تھا اور اسلامی معاشرے میں اس کے بعد غلامی کی یہ شکل معدوم ہو گئی تھی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں غلامی کی ہر شکل کو ممنوع قرار دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود انسانوں کی تجارت کا یہ مکروہ دھندہ جاری ہے اور اقوام متحدہ کے اداروں کو اس کے سدباب بلکہ اس کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی رپورٹوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانی حقوق کے چارٹر میں جن حقوق کا اعلان کیا گیا ہے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں صورتحال اسی طرح کی ہے اور اس چارٹر کے داعی مغرب ممالک اور معاشروں میں بھی ان حقوق کی خلاف ورزی اور پامالی کی شکایات کثرت سے پائی جاتی ہیں۔

ہمارے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے عالمی قوانین، مغربی ممالک کے نظاموں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کی بنیاد مادہ پرستانہ فلسفہ حیات پر ہے جسے عقیدہ و ایمان، اخلاقیات اور روحانیات کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔ جبکہ مغرب نظام و قانون کو عقیدہ، اخلاقیات اور روحانیت کی اساس فراہم کرنے سے نہ صرف خود انکاری ہے بلکہ مسلم ممالک اور اسلامی معاشروں میں بھی قانون و نظام کو اس فطری اساس سے محروم کر دینے پر تلا ہوا ہے اور بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل اس کے خلاف صرف کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماحولیات کے حوالہ سے قرآن کریم کے قوانین سے استفادہ کے بارے میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کی سوچ کو انسانی سوسائٹی کے دیگر شعبوں کے قوانین و نظام میں بھی راہنما بنایا جا سکتا ہے اور یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ اقوام متحدہ کے ارباب حل و عقد سے ہم یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ سالانہ رپورٹوں کے ذریعے اپنے قوانین کی ناکامی کا رونا روتے چلے جانے کی بجائے اس ناکامی کے حقیقی اسباب کا جائزہ لیں اور نسل انسانی کو وجدانیات و اخلاقیات کی بنیادوں پر فطری نظام کی فراہمی میں رکاوٹ بننے کی بجائے اس کی حمایت کا راستہ اختیار کریں کہ انسانی سوسائٹی کا بھلا بہرحال اسی میں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter