(۲۹ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’اقبالؒ کا تصور اجتہاد‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار کے چوتھے اجلاس میں پڑھا گیا۔)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ’’اقبال کا تصور اجتہاد‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام یہ تین روزہ سیمینار ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ پوری دنیائے اسلام میں اجتہاد کے بارے میں نہ صرف یہ کہ بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے مختلف اور متنوع پہلو ارباب علم و دانش کی گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں، بلکہ مختلف سطحوں پر اجتہاد کا عملی کام بھی پہلے سے زیادہ اہمیت اور سنجیدگی کے ساتھ پیشرفت کر رہا ہے اور امت مسلمہ میں اجتہاد کی ضرورت و اہمیت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ آنے والے دور کی ضرورت کا قبل از وقت اندازہ کرتے ہوئے انہوں نے اجتہاد کی جدید ضروریات اور تقاضوں پر علمی انداز میں بحث کی اور اپنے معروف خطبہ اجتہاد میں اہل علم کو ان ضروریات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بحث و تمحیص کا ایک عملی ایجنڈا بھی ان کے سامنے رکھ دیا۔ قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے ایک طالب علم کے طور پر علامہ اقبال کے خطبہ اجتہاد کے بارے میں دوسرے بہت سے حضرات کی طرح میرے بھی بعض تحفظات ہیں، لیکن مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود اقبال کا یہ خطبہ اجتہاد آنے والے دور کی ضروریات اور تقاضوں کے پیش نظر اجتہاد پر بحث و مباحثہ کے لیے ایک قابل توجہ اور لائق غور علمی اور عملی ایجنڈا ہے، اسی لیے اس کے بعد سے اجتہاد کے جدید تقاضوں کے حوالہ سے جب بھی گفتگو ہوئی ہے، اسے کسی بھی مرحلہ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکا۔ اس سے قبل سر سید احمد خان مرحوم نے بھی اس رخ پر کام کیا تھا مگر میری طالب علمانہ رائے میں سر سید احمد خان اور علامہ اقبال کے کام میں ایک واضح فرق ہے جس نے دونوں کے نتائج کو مختلف بنا دیا ہے۔
سر سید احمد خان نے جس دور میں بات کی وہ ۱۸۵۷ء کے بعد ہمارے علمی اور معاشرتی ڈھانچوں کی ٹوٹ پھوٹ کا زمانہ تھا۔ اس وقت صرف اور صرف تحفظ ہی ہر صاحبِ فکر مسلمان کے ذہن میں تھا اور ہر طرف ایک ہی سوچ تھی کہ جو کچھ بچایا جا سکتا ہو، بچا لیا جائے۔ اس کے لیے روایتی علمی و دینی حلقوں نے اپنے انداز میں اور سر سید احمد خان نے اپنے انداز میں محنت کی۔ ظاہر بات ہے کہ تحفظات کے دور میں حساسیت بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے سر سید احمد خان کے اصل کام کی بجائے ان کے تفردات زیادہ تر موضوع بحث بنے اور روایتی دینی حلقوں میں سر سید احمد خان کے اصل کام کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ جبکہ علامہ اقبال نے اس دور میں بات کی جب ہم غلامی کا ایک دور گزار کر آزادی کی طرف بڑھ رہے تھے، امید کی کرنیں روشن ہونے لگی تھیں اور بہتر مستقبل کے کچھ آثار دکھائی دینا شروع ہو گئے تھے، اس لیے علامہ اقبال کے تفردات کی بجائے ان کے کام کی مقصدیت کی طرف نظریں زیادہ اٹھنے لگیں۔ اور جہاں ان کا ’’خطبۂ اجتہاد‘‘ جدید علمی حلقوں کی توجہات کا مرکز بنا، وہاں روایتی دینی حلقوں کے لیے بھی اسے یکسر نظر انداز کرنا مشکل ہو گیا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ دینی حلقوں نے علامہ اقبال کے خطبۂ اجتہاد کو من و عن قبول کر لیا، اس لیے کہ جب خود اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا ذکر کر رہا ہوں تو یہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جس شدت کے ساتھ سر سید احمد خان کے تفردات کو مسترد کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس دور کا مخصوص ماحول تھا، علامہ اقبال کو اس طرح کے شدید ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ میں آگے چل کر عرض کروں گا کہ خود روایتی دینی حلقوں نے اس کے بعد جب اجتہاد کی طرف عملی قدم بڑھایا تو علامہ اقبال کے بیان کردہ دائرے ہی ان کے کام آئے۔
اس تمہید کے ساتھ ’’اقبالؒ کا تصور اجتہاد‘‘ کے مرکزی عنوان کے سائے میں ’’جدید سیاسی نظام اور اجتہاد‘‘ کے موضوع پر اس سیمینار میں ارباب علم و دانش کے سامنے کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
جدید سیاسی نظام میں اجتہاد کے حوالہ سے گفتگو کرنے سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں کچھ عرض کروں، اس لیے کہ اس کا کوئی خاکہ سامنے رکھے بغیر جدید سیاسی نظام کے اجتہادی تقاضوں پر گفتگو کرنا ایک ایسی یکطرفہ بات ہوگی جس سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکے گا۔ اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کے چند بنیادی اصول تو بیان کیے گئے ہیں، جن سے ایک اسلامی حکومت کے دائرۂ کار اور حدود کا تعین ہو جاتا ہے، لیکن سیاسی نظام کا کوئی متعین ڈھانچہ قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ اسے امت کی صوابدید پر ہر دور کے حالات کے تناظر اور ضروریات کے لیے اوپن چھوڑ دیا گیا ہے جو بہت بڑی حکمت کی بات ہے۔ اس کا مطلب اس اہم کام کو نظر انداز کر دینا نہیں ہے بلکہ ایسا کر کے حالات کے اتار چڑھاؤ، نسل انسانی کے معاشرتی ارتقا، زمانہ کے تغیرات اور مختلف علاقوں اور زمانوں کے لوگوں کے مزاج و نفسیات میں پائے جانے والے فطری تنوع کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر قسم کے جائز امکانات کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے، جو مسلسل تغیر پذیر انسانی سوسائٹی کے فطری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ البتہ بنیادی اصول اور حدود قرآن و سنت میں بیان کر دیے گئے ہیں تاکہ کسی دور میں کوئی اسلامی حکومت ان بنیادی مقاصد اور دائرۂ کار سے تجاوز نہ کرنے پائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ المائدۃ کی آیت ۴۳ سے آیت ۵۰ تک بنی اسرائیل کے سیاسی نظام کا ذکر کیا ہے اور اس کی حدود بیان فرمائی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے توراۃ اتاری جس میں ہدایت اور نور ہے۔ انبیائے کرام، علمائے کرام اور خدا پرست لوگ اس کے مطابق حکم کرتے تھے۔ پھر ہم نے انجیل نازل کی جو توراۃ کے احکام کی تصدیق کرنے والی ہے اور پھر قرآن کریم کا نزول ہوا۔ انہی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہیں کرتے، وہ ظالم، فاسق اور کافر ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ان آیات میں جناب نبی اکرمؐ کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ لوگوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے کریں اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ اور یہ فرمان خداوندی بھی انہی آیات میں موجود ہے کہ لوگوں کی خواہشات کو فیصلوں کی بنیاد بنانا جاہلیت اور گمراہی کا ذریعہ ہے۔ پھر یہیں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ لوگوں کی خواہشات کی مطلقاً نفی نہیں ہے بلکہ ’’ولا تتبع اھواءھم عما جاءک من الحق‘‘ کا جملہ واضح کرتا ہے کہ لوگوں کی ان خواہشات کی پیروی سے منع کیا گیا ہے جو حق یعنی وحی الٰہی سے متصادم ہوں۔ اس کے ساتھ جناب نبی اکرمؐ کا یہ ارشاد گرامی سامنے رکھ لیں جو بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہوا ہے کہ: ’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرام علیہم السلام کرتے تھے، ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اس لیے میرے بعد خلفاء ہوں گے۔ ‘‘
گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں وحی الٰہی کی بنیاد پر انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے چلنے والے حکومتی نظام کا تسلسل اب بھی قائم ہے، البتہ اب چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے یہ تسلسل اب خلفاء کے ذریعے آگے بڑھے گا اور یہی اسلام کا نظام خلافت ہے۔
نظام خلافت کے حوالے سے ایک اہم بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جس کی طرف علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ میں اشارہ کیا ہے کہ اہل سنت کے نزدیک یہ نظام ’’خلافت‘‘ کے عنوان سے ہے جبکہ اہل تشیع اسے ’’امامت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور میرے خیال میں ان دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ:
- ’’خلافت‘‘ کی بنیاد نامزدگی پر نہیں بلکہ امت کی صوابدید اور اختیار پر ہے، جبکہ ’’امامت‘‘ منصوص ہے اور نامزدگی کے ذریعے اس کا تعین ہوتا ہے۔
- ’’خلافت‘‘ کسی خاندان اور نسل میں محدود نہیں، جبکہ ’’امامت‘‘ صرف ایک خاندان میں محدود ہے۔
- ’’خلیفہ‘‘ کا دینی درجہ مجتہد کا ہے جس کے فیصلوں اور احکام میں صواب اور خطا دونوں کا احتمال موجود رہتا ہے، جبکہ ’’امام‘‘ معصوم ہے، اس کی رائے میں خطا کا احتمال نہیں اس لیے کسی بھی معاملہ اس کی رائے حتمی ہوتی ہے۔
- ’’خلیفہ‘‘ اپنی خلافت میں خدا کی نمائندگی نہیں کرتا، جبکہ ’’امام‘‘ خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو ’’خلیفۃ الرسول‘‘ کہا جاتا تھا۔ قاضی ابو یعلیؒ نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں روایت نقل کی ہے کہ ایک بار کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ کو ’’یا خلیفۃ اللہ‘‘ کہہ کر پکارا تو خلیفہ اول نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں بلکہ رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میں خدا کی نمائندگی کے نام پر کوئی پاپائی اختیارات نہیں رکھتا بلکہ رسول اللہ کے نمائندہ کے طور پر ان کی ہدایات اور تعلیمات کا پابند ہوں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلے خطبہ میں صاف طور پر فرما دیا کہ میں اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، اور اگر ایسا نہ کروں تو میری اطاعت تمہارے لیے ضروری نہیں ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ یہ تھیاکریسی کی نفی تھی اور شخصیت کی بجائے دلیل کی حکومت کے قیام کا اعلان تھا جس سے اسلام کے نظام خلافت آغاز ہوا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اہل سنت کے موقف اور روایات کے مطابق) اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تھا بلکہ خلیفہ کے انتخاب کو امت کی صوابدید اور اختیار پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے ایک موقع پر خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن پھر یہ کہہ کر ارادہ ترک کر دیا کہ ’’یابی اللہ و المومنون الا ابابکر‘‘ ابوبکر کے سوا کسی اور کو خلیفہ بنانے سے اللہ تعالیٰ بھی انکار کرتا ہے اور مومنین بھی اس پر راضی نہیں ہوں گے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ جناب نبی اکرمؐ کی طرف سے امت کی اجتماعی صوابدید پر اعتماد کا اظہار تھا اور حکمت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ کسی کو نامزد کر کے نامزدگی کو ہمیشہ کے لیے قانون نہ بنا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر کی خلافت کا فیصلہ عوامی رائے بلکہ اچھے خاصے عوامی بحث و مباحثہ کے بعد ہوا اور اس طرح امت کو یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ اپنے حکمران کا خود انتخاب کرے۔
اس کے ساتھ اگر مسلم شریف کی ایک اور روایت کو بھی پیش نظر رکھ لیا جائے تو بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو، اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جو تم سے نفرت کریں اور تم ان سے نفرت کرو‘‘۔ اس میں بھی اشارہ ہے کہ حاکم اور رعیت کے درمیان اعتماد کا رشتہ ضروری ہے، البتہ اس اعتماد کے اظہار کی عملی صورت ہر زمانہ کے حوالہ سے مختلف ہو سکتی ہے۔
اس لیے قرآن پاک اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و عمل کے حوالہ سے اسلامی حکومت کی تین بنیادیں نظر آتی ہیں:
- حکومت کا قیام عوام کی مرضی سے ہوگا۔
- خلیفہ کو استبدادی اختیارات حاصل نہیں ہوں گے بلکہ وہ قرآن و سنت کے احکام کا پابند ہوگا۔
- قرآن و سنت کے صریح احکام کے مقابلہ میں عوامی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
اس کے ساتھ اگر حضرت ابوبکرؓ کے پہلے خطبہ کا یہ جملہ شامل کر لیا جائے کہ ’’اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو’’ تو اس سے ایک اور اصول بھی اخذ ہوتا ہے کہ:
- حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے، اور عوام کو حکومت کے احتساب کا حق حاصل ہے۔
ان اصولوں کی وضاحت کے بعد اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خلیفہ کے انتخاب کے طریق کار، حکومتی ڈھانچہ اور عوام کے حق احتساب کو عملی شکل دینے کے تمام امور حالات پر چھوڑ دیے گئے ہیں اور اس کے لیے ہر دور میں اس وقت کے حالات اور ضروریات کے مطابق کوئی بھی طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے چودہ سو سالہ تعامل میں مختلف طرز ہائے حکومت کو عوامی اور علمی حلقوں کی طرف سے جواز کا درجہ اور سند حاصل ہوتی رہی ہے۔
اس کے بعد میں آج کے جدید سیاسی نظام کی طرف آتا ہوں جس کی بنیاد چار اہم اصولوں پر ہے:
- مذہب اور ریاست کی علیحدگی،
- عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل،
- پارلیمنٹ کی مطلق خودمختاری،
- انسانی حقوق کی پاسداری۔
جہاں تک مذہب اور سیاست میں علیحدگی کی بات ہے، اسلام اس کو تسلیم نہیں کرتا اور قرآن کریم صراحت کے ساتھ یہ بات کہتا ہے کہ اللہ تعالی کے اتارے ہوئے فرامین کو بنیاد بنائے بغیر احکام دیے جائیں گے تو وہ گمراہی کا باعث اور جاہلیت کے مترادف ہوں گے۔ البتہ حکومت کے قیام کے لیے عوام کی رائے کا حق اسلام نے تسلیم کیا ہے، بلکہ آج کے جدید سیاسی نظام کے وجود میں آنے سے ایک ہزار سال قبل عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت تشکیل دے کر اس کو بطور اصول اختیار کیا ہے۔ پارلیمنٹ کا وجود بھی اسلام کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ جناب نبی اکرمؐ اور خلفائے راشدین کے دور میں نقابہ اور عرافہ کا تصور اور عریف اور نقیب کا منصب اسی عوامی نمائندگی کی علامت تھے، اور وہ اسلام کے سیاسی نظام کا ایک ناگزیر حصہ تصور ہوتے تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق خود جناب نبی اکرمؐ نے غزوۂ حنین کے بعد قیدیوں کی واپسی کا فیصلہ متعلقہ لوگوں کی مرضی سے کیا تھا اور ان کی مرضی معلوم کرنے کے لیے ان کے نمائندوں کو ذریعہ بنایا تھا جنہیں ’’عریف‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد روایات کے مطابق جناب نبی اکرم نے عرفاء اور نقباء کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے آج کے بلدیاتی نظام اور پارلیمنٹری سسٹم کو اس کا متبادل یا اس کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ پارلیمنٹ کی مطلق خودمختاری جسے ’’ساورنٹی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ محل نظر ہے۔ کیونکہ اسلامی نظام میں پارلیمنٹ قرآن و سنت کی حدود میں ہی قانون سازی کی مجاز ہوتی ہے، چنانچہ اسے قرآن و سنت کے کسی صریح حکم کو منسوخ یا تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہوگا، اور اس کی خودمختاری مطلقاً نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ کی ہدایات کے دائرے میں تسلیم کی جائے گی۔
اسی طرح انسانی حقوق کی پاسداری کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے، اس لیے کہ اسلام صرف انسانی حقوق کی بات نہیں کرتا بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری کا ایک مربوط نظام پیش کرتا ہے، اور انسانوں کے باہمی حقوق کی عملداری اور نگرانی کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی ادائیگی کے اہتمام کو بھی ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ چنانچہ سورۃ الحج کی آیت نمبر ۴۱ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان حکمرانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب ہم انہیں اقتدار عطا کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، امر بالمعروف کرتے ہیں اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے ضمن میں تفسیر ابن کثیر میں امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ایک خطبہ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم حقوق اللہ کے بارے میں بھی تم سے مواخذہ کریں گے اور تمہارے باہمی حقوق کے حوالے سے بھی مواخذہ کریں گے۔ اس لیے ایک مسلم ریاست میں جب حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کا اہتمام اور نگرانی حکومت کی ذمہ داری قرار پائے گی تو انسانی حقوق کے موجودہ فلسفہ و نظام پر، جس کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہے، نظرثانی ناگزیر ہو جائے گی۔ کیونکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بنیاد صرف حقوق العباد پر ہے اور اس کے بہت سے قوانین اور ضابطے حقوق اللہ اور وحی الٰہی سے متصادم ہیں۔ اس بنیاد پر اصولی طور پر انسانی حقوق کی پاسداری تو ایک اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، لیکن ایسا حقوق اللہ کے ساتھ توازن کے ساتھ ہوگا اور حقوق اللہ کو نظر انداز کر کے صرف حقوق العباد کی پاسداری یکطرفہ اور نامکمل بات ہوگی۔
اس پس منظر میں جب ہم اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے جدید سیاسی تقاضوں کو اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے لیے اجتہادی ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں اور پاکستان کے علماء کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو اطمینان ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے صرف نظر نہیں کیا۔ کیونکہ پاکستان کے قیام کے بعد جب علمائے کرام کے سامنے ایک نئی اسلامی ریاست کی بنیاد طے کرنے کا مرحلہ آیا تو یہ اجتہادی عمل اور اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع تھا۔ علماء کے سامنے خلافت عثمانیہ کا صرف ربع صدی قبل ختم ہونے والا ڈھانچہ بھی تھا اور سعودی عرب میں اس کے متبادل کے طور پر وجود میں آنے والا حکومتی نظام بھی ان کے پیش نظر تھا، لیکن یہ دونوں جدید دور کے سیاسی تقاضوں اور ضروریات کو پورا کرنے والے نہیں تھے۔ اس لیے علمائے پاکستان نے اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونی والی اس نئی مملکت میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی کی شرط کے ساتھ عوام کے ووٹوں سے حکومت کے قیام کا اصول اختیار کیا جائے، عوام کے منتخب نمائندوں کے لیے اقتدار کا حق تسلیم کیا جائے، اور یہ بھی حتمی طور پر طے کر لیا کہ تمام تر قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگی۔ یہی وہ اصول ہیں جن کی طرف علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے خطبۂ اجتہاد میں توجہ دلائی تھی، چنانچہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علمائے کرام کے ۲۲ دستوری نکات اسی اجتہادی پیشرفت کا ثمرہ ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے علمائے کرام نے نظام حکومت کے بارے میں اجتہادی ضروریات کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور علامہ اقبال کے تصور اجتہاد کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔
پھر قومی تاریخ کے ایک اور مرحلہ کو بھی اس سلسلے میں سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جب ۱۹۷۳ء کا دستور تشکیل پا رہا تھا، اس وقت دستور ساز اسمبلی میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ اور معتمد علماء عوام کے منتخب نمائندوں کی صورت میں موجود تھے جن کی مشاورت و اشتراک کے ساتھ دستور تشکیل پایا۔ اس دستور کی نظریاتی حیثیت کا تعین، حکومتی ڈھانچے کی نوعیت کا فیصلہ، آج کے عالمی نظام اور جدید سیاسی تقاضوں کے ساتھ اس کی ایڈجسٹمنٹ کے راستے تلاش کرنا، اور ان سب کے ساتھ قرآن و سنت کی بالادستی کے اصول کو برقرار رکھنا بہت بڑا اجتہادی عمل تھا۔ جس میں ہمارے علمائے کرام پوری طرح سرخرو ہوئے اور ایک ایسا دستور قوم کو فراہم کیا جس پر ملک کے تمام طبقوں کے ساتھ ساتھ روایتی دینی حلقوں کا بھی اتفاق ہے اور جدید سیاسی نظاموں کے ناگزیر تقاضوں کی بھی نفی نہیں ہوتی۔ اسی طرح قادیانیت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بھی ملک کے روایتی دینی حلقوں نے اجتہاد سے کام لیا اور اپنے قدیم روایتی موقف پر اصرار کرنے کی بجائے علامہ اقبال کی تجویز کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے پر اکتفا کر لیا، اس لیے کہ جدید سیاسی نظام کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کا تقاضا یہی تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں حکومتی ڈھانچے اور دستوری نظام کی تشکیل اور قادیانیوں کی حیثیت طے کرنے کے بارے میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے متفقہ طور پر جو فیصلے کیے، وہ اسی رخ پر ہوئے ہیں جن کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا تھا، بلکہ ہم نے تو افغانستان میں طالبان کی امارت اسلامیہ قائم ہونے کے بعد وہاں بھی اس بات کے لیے کوشش کی ہے کہ کسی طرح وہاں دستوری حکومت کا کوئی راستہ نکل آئے۔ میں خود ایک دور میں قندھار گیا ہوں، امیر المومنین ملا محمد عمر سے ان کے دور اقتدار میں ملاقات کی ہے اور اگرچہ ان سے براہ راست اس مسئلہ پر بات نہیں ہو سکی، لیکن ان کی شوریٰ کے ذمہ دار حضرات سے میں نے بات کی۔ میں اپنے ساتھ قرارداد مقاصد، علماء کے ۲۲ دستوری نکات اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا ۱۹۷۰ء کا انتخابی منشور لے کر گیا تھا اور میں نے انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ علمائے پاکستان کی طرح قرآن و سنت کی بالادستی کی شرط کے ساتھ عوامی نمائندگی اور دستوری حکومت کا اہتمام کریں، کیونکہ آج کے دور میں کسی حکومت کے جواز کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے یہ ناگزیر تقاضے ہیں۔ اور چونکہ اس کا تعلق اجتہادی امور سے ہے اور حالات کے مطابق ایسے معاملات میں کوئی بھی مناسب فیصلہ کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے، اس لیے انہیں اس مشورہ پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی تھی یا حالات کا جبر تھا کہ معاملات کو اس رخ پر لانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس ہمارے ایک اور پڑوسی ملک ایران میں جب مذہبی قیادت برسراقتدار آئی اور ابھی تک برسر اقتدار ہے، اس نے اپنے روایتی موقف کو جدید سیاسی تقاضوں کے سانچے میں ڈھالا، دستوری حکومت اور عوامی نمائندگی کا اہتمام کیا اور باوجودیکہ اہل تشیع کا امامت کا سسٹم اہل سنت کے خلافت کے سسٹم کی بہ نسبت زیادہ سخت اور تھیاکریسی کے زیادہ قریب ہے، انہوں نے اسے بھی ’’ولایت فقیہ‘‘ کے عنوان سے دستوری نظام کا حصہ بنا دیا، اس لیے وہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
دستور کی حد تک پاکستان میں ہم نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اگر پاکستان اور ایران کے دساتیر کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو ایک اسلامی حکومت کے بارے میں اہل سنت کے نقطۂ نظر اور اہل تشیع کے نقطۂ نظر کا فرق جدید دستوری زبان اور آج کی سیاسی اصطلاحات میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ البتہ ایران میں چونکہ حکومتی طبقات اور حکومتی نظام چلانے والے افراد اس کے مطابق تعلیم و تربیت بھی رکھتے ہیں، اس لیے انہیں اس کے مطابق ملک کا نظام چلانے میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی، مگر ہمارے ہاں مقتدر طبقات اور اسٹیبلشمنٹ پاکستان اور اس کے دستور کی نظریاتی بنیاد کے حوالے سے ابھی تک تذبذب اور گومگو کا شکار ہیں، بلکہ عوامی دباؤ کے تحت قبول کیے جانے والے اس دستور اور اس کی اسلامی دفعات سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں، اس لیے پاکستان کا دستور اور اس کی اسلامی دفعات قومی زندگی میں عملی پیشرفت کے مواقع سے ابھی تک محروم ہیں۔
گفتگو کے اختتام سے قبل میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ جہاں تک جدید سیاسی نظام کے ناگزیر تقاضوں اور آج کے ورلڈ سسٹم کے تناظر کو سمجھنے اور اس سے ممکنہ طور پر ہم آہنگ ہونے کا تعلق ہے، اس کی اہمیت و ضرورت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی باشعور اہل علم نے کبھی اس سے گریز کیا ہے، لیکن اس کا مطلب اسلام کے اصولوں سے دستبرداری اور قرآن و سنت کی حدود سے تجاوز نہیں ہے۔ اس لیے اجتہاد کا جو تقاضا ہماری ملی اور قومی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے اور قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اس میں اجتہاد کی گنجائش پائی جاتی ہے، اس کے لیے ضرور کام ہونا چاہیے اور احکام و قوانین کے حوالے سے اس کا وسیع دائرہ موجود ہے۔ مجھے اس سلسلہ میں روایتی دینی حلقوں اور مراکز کی سست روی کا احساس ہے اور میں انہیں ان تقاضوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے گزشتہ ربع صدی سے بساط بھر کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن اجتہاد کے نام پر مغرب کی پیروی اور اس کے فلسفہ و فکر کو قبول کرنے سے ہمیں قطعی طور پر انکار ہے، اس لیے کہ سیاسی نظام کے حوالے سے ان کی آخری منزل بہرحال ریاست اور مذہب کی علیحدگی ہے جس کے لیے مغرب ہم پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے، مگر ہمارے لیے وہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور اقبالؒ نے بھی یہ کہہ کر ہمیں اسی بات کی تلقین کی ہے کہ: