۵ مارچ جمعرات کو جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تیسری سالانہ بین الاقوامی سیرت کانفرنس کی آخری نشست میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ سیرت کانفرنس پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن لاہور کے تعاون سے انعقاد پذیر ہوئی اور ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کی وائس چانسلر محترمہ پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ کوثر کی سربراہی میں یونیورسٹی کے شعبہ عربی و علوم اسلامیہ نے اس کا اہتمام کیا۔ کانفرنس مسلسل تین روز جاری رہی اور ملک کی معروف علمی شخصیات ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر سید عزیز الرحمان، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی اور دیگر ممتاز اصحاب دانش کے علاوہ جنوبی افریقہ سے پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی اور بھارت سے ڈاکٹر پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی اور ڈاکٹر عبید اللہ فہد نظامی نے بھی مختلف نشستوں سے خطاب کیا۔
راقم الحروف کو آخری روز ایک نشست کی صدارت کا اعزاز بخشا گیا جس کا موضوع ’’دینی مدارس میں سیرۃ النبیؐ کی تدریس و تعلیم کا جائزہ‘‘ تھا۔ اور محترم ڈاکٹر سید سلمان ندوی اس نشست کے مہمان خصوصی تھے، جبکہ خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر اکرام الحق یاسین، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، ڈاکٹر محمد سعید شیخ، ڈاکٹر سعید احمد سعیدی، محترمہ ڈاکٹر سیدہ سعدیہ، ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی، ڈاکٹر طالب حسین سیال اور علامہ سید سبطین سبزواری بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
دینی مدارس میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدریس و تعلیم کے حوالہ سے جن امور کی طرف توجہ دلائی گئی ان میں خصوصی طور پر اس کا اکثر مقررین نے ذکر کیا کہ دینی مدارس کے مروجہ نصاب میں جناب نبی اکرمؐ کی سیرت طیبہ اور سوانح مبارکہ باقاعدہ مضمون کے طور پر شامل نہیں ہے، البتہ اب مختلف وفاقوں اور تعلیمی اداروں کی طرف سے اس کا اہتمام شروع ہوگیا ہے اور سیرت طیبہ ایک مضمون کے طور پر متعدد اداروں میں پڑھائی جانے لگی ہے۔ یہ بات بادی النظر میں درست معلوم ہوتی ہے جس کی ایک وجہ میرے خیال میں یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ قرآن کریم کی تفسیر اور عقائد و احکام کی احادیث مبارکہ میں آنحضرتؐ کے ارشادات و تعلیمات کے ساتھ کم و بیش ہر نوع کے واقعات بھی طالب علم کے سامنے آ جاتے ہیں اس لیے سیرت کو الگ مضمون کے طور پر پڑھانے کی عمومی طور پر ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ مگر یہ بات محل نظر ہے اس لیے کہ سیرت طیبہ کی واقعاتی ترتیب کے علاوہ اس کے سماجی اسباب و عوامل اور نتائج و ثمرات بھی اساتذہ اور طلبہ کو ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے۔
دوسری بات جس کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی یہ ہے کہ سب سے پہلے اساتذہ کی تربیت کی ضرورت ہے اس لیے تدریس ایک مستقل فن اور علم ہے جس کا مقصد صرف علم منتقل کرنا نہیں بلکہ نئی نسل کی ذہن سازی اور کردار کی تشکیل و تعمیر بھی تدریس کا اہم مقصد ہے جس کے بغیر کوئی بھی تعلیمی نصاب و نظام اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔
تیسری قابل توجہ بات یہ سامنے آئی کہ سیرت نبویؐ کے ساتھ خلفاء راشدینؓ کی سیرت و سوانح اور تاریخ اسلام کی باضابطہ تعلیم ضروری ہے اور اس کی طرف کماحقہ توجہ دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
اس نشست کے مقررین نے دینی مدارس میں تدریس سیرت طیبہ کی موجودہ صورتحال کا تنوع کے جن دائروں میں تجزیہ کیا وہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور دینی مدارس کے وفاقوں کو بہرحال اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ راقم الحروف کو صدارتی خطبہ کے لیے کہا گیا تو میں نے بھی چند پہلوؤں کا ذکر کیا، جن کا خلاصہ قارئین کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
آج کی عالمی صورتحال اور مستقبل کی سماجی و معاشرتی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے تین چار اہم ضروریات کی طرف اصحاب فکر و دانش کو توجہ دلانا چاہوں گا:
- انسانی سوسائٹی کو مجموعی طور پر اسلام کی دعوت دینا اور دنیا کے سب انسانوں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانا ہماری اجتماعی دینی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی اسلوب کو آج کی ضروریات کے تناظر میں پیش کرنا ضروری ہے تاکہ ہم ملی طور پر اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکیں۔
- جناب نبی کریمؐ نے صفا پہاڑی پر اپنی پہلی دعوت میں ’’ایہا الناس‘‘ کہہ کر پوری نسل انسانی کو اپنا مخاطب بنایا تھا، اور حجۃ الوداع کے خطبہ میں ’’گلوبل سوسائٹی‘‘ کے خدوخال واضح کیے تھے جو ہمارا زیرو پوائنٹ تھا جبکہ دنیا اب اس کی طرف رخ کر رہی ہے۔ اس لیے گلوبلائزیشن کے علمی، فکری اور تہذیبی تقاضوں کے پیش نظر جناب رسول اکرمؐ کی تعلیمات و ارشادات کو عصری ترتیب اور اسلوب میں ازسرنو پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
- آج عالمی سطح پر سولائزیشن وار اور تہذیبی کشمکش کا دور ہے۔ جناب نبی اکرمؐ کو بھی تہذیبی کشمکش کا سامنا تھا اور آپؐ نے بہت سی سماجی اصلاحات کے ذریعے معاشرہ کی تشکیل نو کی تھی اس لیے نبی کریمؐ کی سماجی اصلاحات کو پھر سے وضاحت کے ساتھ پیش کرنا موجودہ تہذیبی کشمکش کا ناگزیر تقاضا ہے۔
- اسلامی تعلیمات کی بہت سی باتیں دوسری اقوام نے اختیار کی ہیں، مثلاً ہیومن رائٹس، ویلفیئر سوسائٹی، ویمن رائٹس، فریڈم آف اسپیچ، اور مختلف طبقات کے حقوق کو بہت سی اقوام نے ضمنی طور پر اختیار کر رکھا ہے، اسے سامنے رکھ کر اسلامی تعلیمات کو مکمل تناظر میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اگر دیگر قومیں اسلام کی کچھ باتیں ادھورے طور پر اپنا کر اس کے نتائج حاصل کر سکتی ہیں تو ہم اسلامی اصول و احکام کو مکمل تناظر میں پیش کر کے اور اس کی ترویج کا اہتمام کر کے انسانی سوسائٹی کو اس کے فوائد سے بہرہ ور کیوں نہیں کر سکتے؟
جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کی اس بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں پروفیسر حافظ محمد رشید، حافظ نصر الدین خان عمر، اور حافظ محمد شاہد الرحمان میرے ساتھ شریک ہوئے اور ہم نے ایک علمی و فکری ماحول میں کچھ وقت گزار کر مسرت اور اطمینان کے احساسات کے ساتھ واپسی کا سفر کیا۔