خطبائے کرام سے چند گزارشات

   
۱۲ ستمبر ۲۰۱۱ء

چند ہفتے قبل میں نے اس کالم میں قرائے کرام اور نعت خواں حضرات کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کیں تو ایک معروف نعت خواں دوست نے فون پر شکوہ کیا کہ آپ نے ہمارے بارے میں تو بہت کچھ لکھ دیا ہے مگر خطباء اور مقررین کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ میں نے عرض کیا کہ اسی کالم میں یہ عرض کر دیا تھا کہ ابھی کہنے کی بہت سی باتیں باقی ہیں جو موقع و محل کی مناسبت سے ان شاء اللہ تعالٰی لکھی جاتی رہیں گی۔ چنانچہ آج خطبائے کرام اور مقررین کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں مگر پہلے مرحلے میں تمہید کے طور پر کچھ واقعات پیش کروں گا جو سنے سنائے نہیں بلکہ میرے ذاتی مشاہدات ہیں اور ہم سب کے لیے سبق اور نصیحت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

والدِ محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا معمول یہ تھا کہ جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ مختلف مدارس کے سالانہ جلسوں میں وعظ و بیان کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ میرا جامعہ نصرۃ العلوم میں طالب علمی کا دور تھا، ایک روز جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے سالانہ جلسے میں رات کو تقریر کے بعد سفر کر کے حضرت والد محترمؒ صبح اسباق کے وقت گوجرانوالہ پہنچے۔ ان دنوں جامعہ رشیدیہ کے مہتمم حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی اور ناظم مولانا مفتی مقبول احمد تھے۔ حضرت والد صاحب نے صبح حسب معمول ترجمہ قرآن کریم کا سبق پڑھایا اور پھر مجھے بلا کر کہا کہ رات میں جامعہ رشیدیہ کے جلسے میں شریک تھا، وہاں سے رخصت ہوتے وقت ناظم صاحب (مولانا مقبول احمد) نے مجھے کرایہ وغیرہ کے لیے کچھ رقم دی ہے جو اندھیرے کی وجہ سے اس وقت دیکھ نہیں سکا، وہ رقم بہت زیادہ ہے، میرا خیال ہے کہ وہ مجھے چالیس روپے دینا چاہتے تھے مگر غلطی سے سو سو روپے کے چار نوٹ مصافحہ کرتے ہوئے مجھے پکڑا دیے ہیں، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تین سو ساٹھ روپے بذریعہ منی آرڈر واپس بھجوا دوں۔ اس زمانے میں گوجرانوالہ سے ساہیوال تک بس کا کرایہ دونوں طرف کا ملا کر پندرہ بیس روپے کے درمیان تھا اس لیے حضرت والد محترمؒ کا یہ اندازہ درست محسوس ہوتا تھا کہ غلطی سے دس دس کی بجائے سو سو کے چار نوٹ دے دیے گئے ہیں۔ چنانچہ تین سو ساٹھ روپے بذریعہ منی آرڈر اسی روز واپس کر دیے گئے۔ بعد میں کافی عرصہ گزر جانے پر مولانا مفتی مقبول احمد نے جبکہ وہ گلاسگو (برطانیہ) کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب تھے، وہیں کسی محفل میں میری موجودگی میں اس واقعے کا تذکرہ کیا تو مجھے وہ بات یاد آگئی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ حضرت رحمہ اللہ تعالٰی کا اندازہ بالکل درست تھا اور ایسا ہی ہوا تھا، مگر دوسرے روز صورتحال معلوم ہونے پر جامعہ رشیدیہ کے ذمہ دار حضرات نے مشورہ کیا کہ زائد رقم واپس طلب کرنے کی بجائے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو ہبہ کر دی جائے اور اس کی انہیں باضابطہ اطلاع کر دی جائے، مگر ہم ابھی صلاح و مشورہ میں ہی تھے کہ منی آرڈر کے ذریعے وہ رقم واپس آگئی۔

دوسرا واقعہ بھی اسی دور کا ہے، جامعہ نصرۃ العلوم کے طلبہ نے تقریری اور ادبی سرگرمیوں کے لیے ایک تنظیم بنائی جس کے تحت جمعرات کی شب کو تقریری مشق کے لیے طلبہ کی ہفتہ وار محفل ہوتی تھی اور ہم لوگ اس عنوان سے اخبارات میں چھوٹے موٹے بیانات بھی دیا کرتے تھے۔ حضرت والد صاحبؒ کے ابتدائی اساتذہ میں ان کے پھوپھی زاد بھائی مولانا سید فتح علی شاہؒ بھی تھے، ان کے فرزند مولانا سید عطاء اللہ شاہ شیرازی مدرسہ میں پڑھتے تھے، انہیں طلبہ کی اس تنظیم کا صدر اور مجھے سیکرٹری بنایا گیا۔ مدرسہ میں تقسیم اسناد اور دستار بندی کے سالانہ جلسے کا معمول نہیں تھا، ہم طلبہ نے مشورہ کیا کہ ہمیں ایک جلسہ کرنا چاہیے۔ ہم نے آپس میں آٹھ آنے فی طالب علم چندہ جمع کیا اور کچھ شہری دوستوں کا تعاون حاصل کر کے جلسے کا اہتمام کیا۔ سادہ زمانہ تھا، تکلفات اور پروٹوکول ابھی ہمارے مزاجوں کا حصہ نہیں بن پائے تھے، میں نے حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو ایک جوابی پوسٹ کارڈ لکھ کر ان سے وقت مانگا، انہوں نے وقت مرحمت فرما دیا اور اپنے وعدے کے مطابق تشریف لے آئے۔ بہت شاندار جلسہ ہوا اور اس سال فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام کی دستار بندی بھی ہوئی۔ واپسی پر میں نے حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی خدمت میں بطور کرایہ پندرہ روپے پیش کیے۔ اس زمانے میں گوجرانوالہ سے لاہور کا بس کرایہ ایک روپیہ چھ آنے اور لاہور سے ملتان کا کرایہ سوا پانچ روپے ہوتا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ جلسہ ہم طلبہ نے آپس میں چندہ جمع کر کے کیا ہے اس لیے صرف کرایہ پیش کر رہا ہوں۔ حضرت جالندھریؒ نے فرمایا کہ بیٹا! اس کی ضرورت نہیں تھی، میں نے عرض کیا کہ حضرت صرف کرایہ ہے، اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اچھا تبرک رکھ لیتا ہوں اور وہ پندرہ روپے جیب میں ڈال لیے۔

تیسرا واقعہ بھی اسی دور کا ہے۔ فاتحِ قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ قادیانیت کے محاذ پر مسلمانوں کے اپنے دور کے سب سے بڑے مناظر بلکہ استاذ المناظرین سمجھے جاتے تھے، ہزاروں علمائے کرام کے استاذ تھے اور مجھے بھی ان سے تلمذ کا شرف حاصل ہے۔ ایک دفعہ گکھڑ کی جامع مسجد میں بیان کے لیے تشریف لائے، شام کا کھانا ہمارے گھر میں تھا، میں نے ان کے سامنے دستر خوان بچھا کر کھانا لگایا تو دو قسم کے سالن دستر خوان پر تھے اور شاید کوئی چٹنی یا اچار کی پلیٹ بھی تھی۔ حضرت مولانا محمد حیاتؒ نے دیکھتے ہی فرمایا کہ مولوی صاحب اتنی فضول خرچی؟ مولویوں کے گھر میں دو سالن! ایک سالن اٹھا لو ورنہ میں خود اٹھا دوں گا۔ میں نے یہ سن کر فورًا دال یا سبزی والی پلیٹ دستر خوان سے اٹھا لی کہ حضرت کہیں گوشت والی پلیٹ اٹھا کر باہر نہ رکھ دیں۔

چوتھا واقعہ اس دور کا ہے جب میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی معاونت میں نائب خطیب کے طور پر خدمات سرانجام دیتا تھا۔ میری رہائش گکھڑ میں تھی اور وہیں سے آیا جایا کرتا تھا۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ سے میں نے جامع مسجد میں بیان کے لیے بذریعہ پوسٹ کارڈ وقت مانگا جو انہوں نے جوابی خط میں دے دیا۔ جلسہ رات کو عشاء کے بعد تھا اور میں نے کسی دوست سے کہہ کر شام کے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ کسی سفر میں تھے، وہ دوپہر سے پہلے ہی آگئے۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ دوپہر کا وقت ہے اور میں نے اس وقت کے کھانے کا انتظام نہیں کیا ہوا، انتظام کرنے میں دیر ہو جائے گی اور بازار کا کھانا شاید مولانا پسند نہ کریں۔ مولانا چنیوٹیؒ نے غالباً میری الجھن کو بھانپ لیا، فرمانے لگے کہ یار میں بازار سے گزر کر آرہا ہوں وہاں ایک صاحب پکوڑے تل رہے ہیں، آج پکوڑے کھانے کو جی چاہ رہا ہے، تھوڑے سے پکوڑے اور دو روٹیاں منگوا لو مزے کے ساتھ روٹی کھائیں گے۔ میں نے اس فرمائش کو غنیمت سمجھتے ہوئے پکوڑے اور روٹیاں منگوائیں، ہم دونوں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور مولانا چنیوٹیؒ بڑے مزے سے بستر پر دراز ہو کر گہری نیند سو گئے۔

یہ واقعات زیادہ دیر کے نہیں ہیں ابھی صرف ایک نسل تبدیل ہوئی ہے اور اس وقت موجود علمائے کرام، خطباء اور مقررین نے کم و بیش ان سب بزرگوں کو دیکھ رکھا ہے۔ مگر صورتحال کس قدر بدل گئی ہے اور مزاجوں میں کتنی تبدیلی آگئی ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بالکل ان جیسے ہو جائیں کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے مگر اتنی گزارش ضرور کروں گا کہ کم از کم ان بزرگوں کے قریب قریب تو رہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter