میں یہ بات ابھی تک نہیں سمجھ پایا کہ اگر محترم محمد مسکین عباسی کو بالآخر یہی تسلیم کرنا تھا کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی ترکوں کی حکومت کو ’’شرعی خلافت‘‘ تسلیم نہیں کرتے تھے تو انہیں اتنی لمبی چوڑی بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ میں نے ایک مضمون میں یہ تذکرہ کر دیا کہ مولانا احمد رضا خانؒ ترکوں کی خلافت کو نہیں مانتے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے تحریک خلافت سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس پر محمد مسکین عباسی صاحب نے مجھ سے اس کا حوالہ طلب کیا جس کے جواب میں ان کی خدمت میں راقم الحروف نے تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کی کتاب ’’شاہراہ پاکستان‘‘ کا حوالہ پیش کیا کہ یہ بات انہوں نے تحریر کی ہے کہ مولانا احمد رضا خانؒ ترکوں کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس پر محمد مسکین صاحب نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے بیک وقت دو متضاد موقف اختیار کر لیے:
- ایک طرف انہوں نے فرمایا کہ مولانا احمد رضا خانؒ ترکوں کی حکومت کے خلاف نہیں تھے اور وہ اس کی حمایت و امداد کے کاموں کی سرپرستی فرماتے تھے،
- اور دوسری طرف عباسی صاحب نے خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط کو لازمی قرار دیتے ہوئے اس پر مناظرانہ بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع کر دیا۔
راقم الحروف نے ان سے گزارش کی کہ یہ دونوں موقف ایک وقت میں نہیں چل سکتے، اس لیے اگر حضرت مولانا احمد رضا خانؒ کے نزدیک خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط ضروری تھی تو ترکوں کی خلافت کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا، اس لیے کہ ترک خلفاء قریشی نہیں تھے۔ اور اگر ان کی خلافت درست تھی تو خلیفہ کے قریشی ہونے کی شرط ضروری نہیں رہتی۔ اس پر جناب محمد مسکین عباسی نے اپنے موقف کی بالآخر یوں وضاحت کی ہے کہ مولانا احمد رضا خانؒ کے نزدیک خلافت کے لیے قریشی ہونے کی شرط لازمی ہے اس لیے وہ ترکی سلاطین کی حکومت کو ’’شرعی خلافت‘‘ نہیں سمجھتے تھے اور ترکوں کی خلافت کے کا دور اُن کے نزدیک ’’اضطرار‘‘ کا دور تھا جو امت پر مسلط رہا۔
اس کے ساتھ ہی عباسی صاحب نے مختلف حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ خلیفہ کے لیے قریشیت کی شرط لازمی ہونے پر اب تک امت کا اجماع ہے اور آج بھی کوئی غیر قریشی خلیفۃ المسلمین نہیں بن سکتا۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اگر عباسی صاحب صرف یہ فرماتے کہ خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط پر کسی دور میں امت کا اجماع تھا تو کسی درجہ یہ بات قابل قبول تھی کیونکہ بہت سے اصحاب علم نے اس اجماع کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ان کا یہ ارشاد بھی قبول کیا جا سکتا ہے کہ مولانا احمد رضا خانؒ کے نزدیک خلافت کے لیے قریشیت کی شرط لازمی تھی اس لیے وہ ترکوں کی سلطنت کو ’’شرعی خلافت‘‘ تسلیم نہیں کرتے تھے، اس لیے کہ بعض دیگر اہل علم بھی یہ موقف رکھتے تھے۔ لیکن ان کا یہ ارشاد کسی صورت بھی درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کا زمانہ ایک اضطراری دور تھا اور خلافت کے لیے اب بھی امت کے جمہور علماء کے نزدیک قریشیت کی شرط لازمی ہے۔
پہلے تو یہی بات محل نظر ہے کہ اضطرار کی کوئی ایسی قسم بھی ہے جو پوری امت کا احاطہ کر لے اور مسلسل پانچ سو برس تک جاری رہے، کیونکہ اضطرار ایک وقتی کیفیت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے شرعی طور پر بعض ناگوار امور کو بھی برداشت کرنا پڑ جاتا ہے، لیکن اس کا دورانیہ انتہائی مجبوری اور ضرورت کی حد تک محدود رہتا ہے۔ اس لیے اگر امت مسلمہ کی غالب اکثریت پر پانچ صدیوں تک مسلسل طاری رہنے والی کیفیت کو ’’اضطرار‘‘ قرار دیا جائے تو اضطرار کی کوئی نئی تعریف تلاش کرنا پڑے گی، اس سے قبل فقہاء نے اضطرار کی جو تعریف بیان کی ہے وہ اتنے لمبے عرصے اور امت کے اتنے وسیع دائرے کو اپنے اندر سمونے کی سکت نہیں رکھتی۔
دوسرے نمبر پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی ’’الائمۃ من قریش‘‘ کو امت کے بہت سے اہل علم نے حکم کی بجائے خیر اور پیشگوئی کے معنٰی میں لیا ہے، یعنی ان اہل علم کے نزدیک رسول اکرمؐ نے یہ فرما کر کہ ’’خلیفہ قریش میں سے ہوں گے‘‘، امت کو اس بات کا حکم نہیں دیا کہ خلیفہ ضرور قریش میں سے منتخب کیے جائیں بلکہ یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ میرے بعد خلفاء قریش میں سے ہوں گے، اور یہ پیشگوئی خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ اور خلافت بنو عباس کی صورت میں پوری ہو چکی ہے، اس لیے اب اس کا بطور شرط اہتمام کرنا ضروری نہیں رہا۔
جو اہل علم اس ارشاد نبویؐ کو حکم کی بجائے پیشگوئی اور خبر قرار دیتے ہیں ان کی ایک دلیل بخاری شریف کی یہ روایت بھی ہے جس کے مطابق جناب نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ خلافت قریش میں اس وقت تک رہے گی ’’ما اقاموا الدین‘‘ جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اقامت دین کے فریضہ سے ہٹ جانے کی صورت میں خلافت پر قریش کا استحقاق باقی نہیں رہے گا۔ اس سلسلہ میں برصغیر کے معروف محقق مولانا حامد الانصاری غازیؒ کی کتاب ’’اسلام کا نظام حکومت‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کی ہے، یہ کتاب ساڑھے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اسلامی نظام حکومت کے ضروری مباحث کا اس میں علمی انداز سے احاطہ کیا گیا ہے۔ مولانا حامد الانصاریؒ تحریک آزادی کے ممتاز راہنما مولانا منصور انصاریؒ کے فرزند اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے داماد تھے، اور ان کی یہ کتاب ادارہ اسلامیات پرانی انارکلی لاہور سے طلب کی جا سکتی ہے۔ اس میں انہوں نے خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط لازمی نہ ہونے پر امت کے جن اکابر کے ارشادات نقل کیے ہیں، سردست صرف ان کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ:
- بغداد کی تاتاریوں کے ہاتھوں بربادی کے بعد خلافت عباسیہ مصر میں منتقل ہو گئی تھی لیکن آخری عباسی خلیفہ نے ۶۵۶ھ (۱۲۵۸ء) میں ترکی کے سلطان سلیم کے ہاتھ پر بیعت کر کے خلافت اسے منتقل کر دی تھی اور اس کے بعد ترکی سلاطین ہی امت مسلمہ میں خلیفہ کی حیثیت سے ۱۹۲۴ء تک تسلیم کیے جاتے رہے ہیں۔
- امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی ’’الفقہ الاکبر‘‘ اور اس کی شرح میں نامور حنفی فقیہ محدث حضرت ملا علی قاریؒ کی ’’شرح فقہ اکبر‘‘ میں خلافت کی شرائط میں قریشی ہونے کی شرط مذکور نہیں ہے، اس لیے حضرت امام اعظمؒ کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ شرط ضروری نہیں ہے۔
- قرآن کریم کی معروف تفسیر ’’مواہب الرحمان‘‘ کے مصنف نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ خلیفہ کے لیے قریشی ہونا ہمارے امام صاحب یعنی امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک شرط نہیں ہے۔
- علامہ سید شریف ’’شرح المواقف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’فی اشتراطہا خلاف‘‘ خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط میں اختلاف ہے۔
اور یہ بات ہم اپنے سابقہ مضامین میں ذکر کر چکے ہیں کہ مسلسل پانچ سو برس تک حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ بیت المقدس میں بھی عثمانی خلفاء کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا رہا ہے اور کبھی ان مراکز میں کسی جگہ اس بنیاد پر ترکی خلفاء سے اختلاف نہیں کیا گیا کہ چونکہ وہ قریشی نہیں ہیں اس لیے ہم ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ یہ امر واقعہ ہے کہ ترکی حکمران خلافت عثمانیہ کے عنوان سے باقاعدہ خلافت کے علمبردار رہے ہیں، ان کی خلافت کو مسلسل پانچ صدیوں تک تسلیم کیا جاتا رہا ہے، اسلام دشمن یورپی قوتوں نے اسے اسلامی خلافت سمجھ کر ہی اس کے خاتمہ کے لیے سازش کی تھی، اور برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش کے جمہور علماء نے اسے خلافت قرار دیتے ہوئے ہی اس کی حمایت میں عظیم الشان تحریک خلافت بپا کی تھی جس میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؒ کی والدہ مرحومہ سے منسوب یہ ترانہ گلی گلی گونجتا رہا ہے کہ:
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
اس لیے اگر مولانا احمد رضا خانؒ خلافت کے لیے قریشیت کی شرط کو ضروری سمجھتے ہوئے خلافت عثمانیہ کو شرعی خلافت تسلیم نہیں کرتے تھے تو ان کے اس موقف کو ایک صاحب علم کی رائے کے طور پر تو قبول کیا جا سکتا ہے، مگر اسے جمہور امت کا موقف قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی امت کے جمہور اہل علم اب یہ موقف رکھتے ہیں۔