معاشرے میں شرعی احکام پر عملداری کا رجحان فروغ دینے کے لیے محنت و کاوش کے مختلف دائرے ہیں جن میں بعض تو حکومت و ریاست سے تعلق رکھتے ہیں مگر زیادہ تر کام وہ ہیں جو حکومت و ریاست کے عمل دخل کے بغیر آزادانہ طور پر بھی کیے جا سکتے ہیں، مگر ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ سارے کام حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اپنے حصے کا کام بھول جاتے ہیں اور سوسائٹی میں دینی ماحول کے کمزور ہوتے چلے جانے کی ساری ذمہ داری سرکار پر ڈال دیتے ہیں۔
مثلاً ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ، ان پر عملداری کا انتظام و اہتمام، اور ان کے لیے ضرورت و معیار کے مطابق انتظامی و عدالتی ڈھانچہ کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، اور کسی بھی مسلمان حکومت کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں قرآن و سنت کے احکام کو قوانین کی صورت میں نافذ کرے اور حکومت کے انتظامی و عدالتی نظام کو اس کے مطابق تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجال کار فراہم کرے۔ جو مسلمان حکومت بھی دنیا کے کسی حصے میں اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر رہی وہ عند اللہ اور عند الناس اس کوتاہی کی ذمہ دار اور مسئول ہے، اور مختلف مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کا بنیادی ہدف یہی ہے۔ لیکن اس دائرے سے ہٹ کر بھی کچھ دائرے موجود ہیں جو پرائیویٹ سطح پر حکومتی مداخلت کے بغیر کیے جا سکتے ہیں اور جن کی طرف عام طور پر ہماری توجہ نہیں ہے، مثلاً:
- معاشرتی ماحول میں خیر و شر کی صورتحال کو دیکھتے رہنا، خیر کی حوصلہ افزائی اور شر کی حوصلہ شکنی کرتے رہنا، جسے قرآن کریم نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایک آزادانہ ذمہ داری ہے جس کا کوئی بھی شخص، گروہ، طبقہ، یا جماعت اہتمام کر سکتی ہے۔ جہاں قانون کی بات ہو گی وہاں ریاستی اداروں سے رجوع کرنا ہوگا لیکن جہاں قانون و انتظام کا معاملہ درپیش نہیں ہے وہاں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
- اسی سلسلہ کا ایک شعبہ مسائل و معاملات میں لوگوں کو دینی راہنمائی و معاونت فراہم کرنا ہے جس کے لیے زیادہ تر ہمارے ہاں ’’فتوٰی‘‘ کا عنوان چلتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی نیٹ ورک ہے جو لوگوں کو ضرورت کے وقت قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں راہنمائی فراہم کرتا ہے، ابتدائے اسلام سے اب تک ہر دور میں ہزاروں مفتیان کرام امت مسلمہ کے ماحول میں یہ خدمت سرانجام دیتے آ رہے ہیں۔ ہمارے دور میں بھی کم و بیش ہر مقام پر دارالافتاء موجود ہیں اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد فتوٰی کے عنوان کے ساتھ لوگوں کو ان کے مسائل و معاملات میں شرعی راہنمائی و معاونت مہیا کرنے میں ہر وقت مصروف رہتی ہے، جس کی برکت سے عوام میں دینی وابستگی کا ماحول بہت حد تک قائم ہے۔
مگر ہم اس سلسلہ میں مروجہ معمول سے ہٹ کر کچھ تجاویز رکھتے ہیں جن کا وقتاً فوقتاً اظہار کرتا رہتا ہوں اور آج بھی ان کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ چنانچہ اس حوالہ سے مفتیان کرام سے گزارش کیا کرتا ہوں کہ فتوٰی صادر کرنے کے علاوہ بھی ایک دو صورتیں ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں جو ہمارے استعمال میں ہونی چاہئیں:
- ایک یہ کہ اگر فتوٰی صادر کرنے سے پہلے اس کام کے لیے آنے والے مبتلا بہ شخص کی مشورہ کے طور پر راہنمائی کر دی جائے تو اس میں میری طالب علمانہ رائے میں زیادہ وسعت اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس لیے کہ فتوٰی میں تو آپ جچی تلی بات کریں گے اور اصول و قواعد سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کر سکیں گے، مگر مشورہ میں اس مخمصہ سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ دے سکتے ہیں کہ وہ جس مشکل میں پھنس گیا ہے اس سے نکل سکے۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ بھی موجود ہے کہ حضرت بلالؓ عمدہ کھجوریں لے کر آئے اور بتایا کہ اچھی کھجوریں ایک صاع میں نے عام قسم کی دو صاع کھجوروں کے عوض خریدی ہیں۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ یہ تو سود ہے، ایسا نہیں کرو۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ اگر ایسا کرنا مجبوری ہو تو کیا کریں، اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ پیسوں کے عوض عام کھجوریں بیچ کر انہی پیسوں سے اچھی کھجوریں خرید لو۔ یعنی یہ کام ایک سودے میں نہیں بلکہ دو سودوں کی صورت میں کر لو تو یہ سود نہیں رہے گا۔ میری طالب علمانہ رائے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے ارشاد فتوٰی تھا جو وہی بنتا تھا، جبکہ دوسرا ارشاد مشورہ تھا جو اس مخمصے سے نکلنے کی راہ بتاتا ہے۔ موجودہ حالات میں میرے خیال میں عوام کو مشورہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اکثر لوگوں کو مسائل کا علم نہیں ہوتا اور جب وہ کسی نہ کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو انہیں اس مشکل سے نکلنے کا راستہ بتانا اور اس کا مشورہ دینا بھی شرعی طریقہ ہی ہے۔
- اس کے ساتھ ہی ہمارے دارالافتاء اگر تحکیم یعنی ثالثی اور کونسلنگ کو بھی اپنے دائرہ کار میں باضابطہ شامل کر لیں تو لوگوں کے بہت سے الجھے ہوئے مسائل عدالتوں کا چکر لگائے بغیر اور بے پناہ اخراجات کا بوجھ اٹھائے بغیر حل ہو سکتے ہیں، جس کی اس وقت معاشرتی طور پر بہت زیادہ ضرورت ہے بلکہ عدالتوں پر مقدمات کا ناقابل برداشت بوجھ بھی اس سے کم ہو سکتا ہے۔ یہاں بھی صورتحال اسی طرح کی ہے جسے مفتیان کرام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قضا کی بہ نسبت تحکیم اور ثالثی میں مسائل کو سلجھانے اور کسی ایک بات پر فریقین کو لا کر فیصلہ کرنے میں سہولتیں اور گنجائشیں زیادہ ہوتی ہیں، جو شاید موجودہ دور کی سب سے زیادہ سماجی ضرورت ہے۔ جبکہ قضا اور فیصلے کی تنفیذ بہرحال حکومتی اداروں کا کام ہے، اس میں دخل اندازی قانوناً اور شرعاً کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ مگر اس سے نیچے رہتے ہوئے باقی سارے کام دارالافتاء کی سطح پر منظم کیے جا سکتے ہیں۔
مفتیان کرام عام طور پر ان سب دائروں میں خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں مگر ہماری گزارش ہے کہ اگر مشورہ اور تحکیم دونوں کو دارالافتاء کے نظام و عنوان میں باضابطہ شامل کر لیا جائے تو اس کی افادیت زیادہ ہو جائے گی۔
ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور ان کے بعد حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ یہ ذمہ داری نبھاتے رہے ہیں، اب دارالافتاء کا شعبہ دوبارہ منظم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے جس میں مولانا داؤد احمد میواتی بطور مفتی، اور مولانا حافظ فضل الہادی بطور معاون مفتی خدمات سرانجام دیں گے، جبکہ میرے مشورہ سے اسے ’’دارالافتاء والمشورۃ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔