گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کی برطانوی روایت

   
۲ مارچ ۲۰۰۲ء

کیبنٹ ڈویژن کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اپریل کے پہلے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کو ملک بھر میں گھڑیوں کا وقت ایک گھنٹہ آگے کر دیا جائے گا، اور اکتوبر کے پہلے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کو گھڑیوں کا وقت پھر ایک گھنٹہ پیچھے کر لیا جائے گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ اقدام آزمائشی طور پر ایک سال کے لیے کیا گیا ہے۔

برطانیہ میں بھی ایسا ہوتا ہے جہاں مارچ کے آخری ہفتہ میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کر کے اکتوبر کے آخری ہفتہ میں پھر ایک گھنٹہ پیچھے کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پہلے بھی ایک بار اس قسم کا فیصلہ ہوا تھا لیکن عوامی سطح پر ہونے والی مخالفت کی وجہ سے اسے واپس لے لیا گیا تھا۔ مگر اب پھر اس مسئلہ کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے اور کیبنٹ ڈویژن کے اعلان کے مطابق اس طریق کار کو ایک سال کے لیے آزمائشی طور پر اپنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

برطانیہ میں وقت کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہاں سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات میں سال کے دوران بہت بڑا فرق پڑ جاتا ہے اور سردیوں کے موسم میں جب سورج بہت دیر سے طلوع ہونے لگتا ہے تو دفتروں اور سکولوں کے آغاز کا وقت بالکل رات کے آخری حصہ میں چلا جاتا ہے، کیونکہ وہاں عام طور پر دفتری اور تعلیمی اوقات کا آغاز آٹھ بجے ہوتا ہے اس لیے گھڑیوں کو ایک گھنٹہ پیچھے کر لیا جاتا ہے تاکہ آٹھ ایک گھنٹہ تاخیر سے بجیں اور سکولوں اور دفتروں کے اوقات کار میں تبدیلی نہ کرنا پڑے۔ گویا سردیوں میں وہاں آٹھ اپنے پرانے وقت کی بجائے نو بجے بجتے ہیں اور گرمیوں میں پھر واپس جا کر پرانے وقت پر بجنے لگتے ہیں۔

لندن کے ٹائم ٹیبل کے مطابق وہاں سورج کے طلوع و غروب کا نظام الاوقات یہ ہے کہ:

  • یکم جنوری کو سورج صبح آٹھ بج کر چھ منٹ پر طلوع ہوتا ہے جو اس کا آخری وقت ہے، اس کے بعد چھ جنوری سے یہ پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے، اور پیچھے ہٹتے ہٹتے جون کی بارہ تاریخ تک یہ چار بج کر تینتالیس منٹ پر چال جاتا ہے، اور تئیس جون کو پھر آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح موسم سرما اور موسم گرما میں سورج نکلنے کے اوقات میں سوا تین گھنٹے سے زیادہ فرق پڑتا ہے۔
  • دوسری طرف سورج کے غروب ہونے کی صورت یوں ہے کہ موسم سرما میں دسمبر کی سات تاریخ کو سورج تین بج کر تریپن منٹ پر غروب ہوتا ہے جو اس کا آخری وقت ہے، اس کے بعد انیس دسمبر سے یہ پھر آگے بڑھنے لگتا ہے اور بڑھتے بڑھتے جون کی اکیس تاریخ کو نو بج کر تئیس منٹ تک چلا جاتا ہے۔ جس کے بعد تئیس جون کو پھر اس کی واپسی شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح موسم سرما اور موسم گرما میں سورج کے غروب کے وقت میں ساڑھے پانچ گھنٹے کا فرق ہو جاتا ہے۔
  • یکم جنوری کو سورج آٹھ بج کر چھ منٹ پر طلوع ہو کر چار بج کر تین منٹ پر غروب ہوتا ہے۔ جبکہ تیس جون کو سورج کے طلوع کا وقت چار بج کر سینتالیس منٹ اور غروب کا وقت نو بج کر بائیس منٹ ہے۔ گویا سال کے آغاز میں یکم جنوری کو لندن میں دن آٹھ گھنٹے کا اور رات سولہ گھنٹے کی ہوتی ہے، اور سال کے وسط میں تیس جون کو دن تقریباً ساڑھے سولہ گھنٹے کا ہوتا ہے اور رات سمٹ کر ساڑھے سات گھنٹے کی رہ جاتی ہے۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو برطانیہ میں موسم سرما میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر اسکول اور دفتر کے وقت کو آٹھ بجے ہی رکھنا ہے اور اس کو آگے پیچھے کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ ہے تو موسم سرما میں صبح اندھیرے میں دفتر اور اسکول جانے کی بجائے سورج کی روشنی میں جانے میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے، اور ایک نفسیاتی سا سکون ہو جاتا ہے کہ ہم رات کی بجائے دن کے وقت اسکول اور دفتر جا رہے ہیں۔ لیکن فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ دفتر اور اسکول کے وقات کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کی بجائے گھڑی کو آگے پیچھے کر لیا جاتا ہے۔ ورنہ وہی تبدیلی جو گھڑیوں میں کی جا رہی ہے، اسکول اور دفتر کے اوقات میں کر لی جائے تو بھی مقصد حاصل ہو جاتا ہے، اور اسکول و دفتر سے تعلق نہ رکھنے والے شہریوں کو بلاوجہ سال میں دو دفعہ گھڑیوں کا وقت بدلنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی۔

اب اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال کا تھوڑا سا جائزہ لے لیا جائے، اس وقت گوجرانوالہ کا نظام الاوقات ہمارے سامنے ہے جس کا لاہور کے ساتھ صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دو منٹ کا فرق ہے، اس کے مطابق:

  • جنوری کی پانچ تاریخ کو طلوع آفتاب کا وقت سات بج کر چار منٹ ہے، جو آخری وقت ہے، اس کے بعد وہ پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے، اور جون کی دس تاریخ کو چار بج کر انسٹھ منٹ تک جا کر پندرہ جون سے پھر آگے بڑھنے لگتا ہے۔
  • دوسری طرف غروب آفتاب دسمبر کی گیارہ تاریخ کو چار بج کر انسٹھ منٹ تک جا کر آگے بڑھنے لگتا ہے، اور یکم جولائی تک سات بج کر تیرہ منٹ تک پہنچ کر نو جولائی کو پھر پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے۔
  • ہمارے ہاں یکم جنوری کو طلوع آفتاب سات بج کر تین منٹ پر اور غروب پانچ بج کر گیارہ منٹ پر ہے۔ جبکہ یکم جولائی کو طلوع پانچ بج کر پانچ منٹ پر اور غروب سات بج کر تیرہ منٹ پر ہے۔ اس طرح موسم سرما میں ہمارے ہاں دن تقریباً دس گھنٹے کا اور رات چودہ گھنٹے کی ہوتی ہے، اور موسم گرما میں دن چودہ گھنٹے کا اور رات دس گھنٹے کی ہو جاتی ہے۔ گویا ہمارے ہاں دن اور رات کے دورانیہ میں پورے سال میں کم و بیش چار گھنٹے کا فرق پڑتا ہے، جبکہ برطانیہ میں یہ فرق کم و بیش نو پونے نو گھنٹے تک چلا جاتا ہے۔

سورج کے طلوع و غروب کے اوقات میں اس قدر زیادہ فرق کی وجہ سے برطانیہ اور اس کے دیگر پڑوسی مغربی ممالک میں شرعی نقطہ نظر سے بھی کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے ایک آدھ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے یعنی سورج نکلنے سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے افق پر مشرق کی جانب روشنی کی سفید لکیر چوڑائی میں نمودار ہوتی ہے جسے فجر صادق کہتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، جو طلوع شمس تک جاری رہتا ہے۔ اسی طرح نماز عشاء کا وقت سورج غروب ہونے کے بعد افق پر مغرب کی جانب شفق سرخ، جبکہ احناف کے مذہب کے مطابق اس کے بعد سفید شفق غروب ہو جانے کے بعد شروع ہو تا ہے، لیکن برطانیہ اور دیگر بعض متعلقہ ممالک میں موسم گرما میں چند ماہ ایسے آتے ہیں کہ رات کا دورانیہ انتہائی کم ہونے کی وجہ سے غروب آفتاب کے بعد شفق سرخ ہی سرے سے غروب نہیں ہوتی، اور اسی سرخی میں سورج غروب ہو کر پھر اسی سرخی کے دوران طلوع ہو جاتا ہے۔ جس سے ان مہینوں میں مغرب کے بعد شفق سرخ کے غروب ہونے، اس کے بعد شفق سفید کے نمودار ہونے اور غروب ہونے اور فجر کاذب اور پھر فجر صادق کے طلوع ہونے کے مراحل ہی نہیں آتے۔ اس لیے ان ایام میں نماز عشاء اور نماز فجر کے اوقات کے تعین کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اگر انہی دنوں میں رمضان المبارک آ جائے تو سحری کے اختتام کا وقت بھی مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہ اجتہادی مسئلہ ہے جس پر برطانیہ کے علماء کرام دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور دونوں اپنی مساجد میں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرتے ہیں:

  1. ایک گروہ نے یہ طے کیا ہے کہ ان مہینوں میں جب سورج سرخی میں غروب ہو کر اسی سرخی میں دوبارہ طلوع ہو جاتا ہے اور شفق سرخ کے غروب اور طلوع فجر کی نوبت نہیں آتی، مغرب کے ایک گھنٹہ بعد عشاء کا وقت اور صبح طلوع شمس سے ایک گھنٹہ قبل نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور اسی کے مطابق ان کی مساجد میں نمازوں کے اوقات ترتیب دیے جاتے ہیں۔
  2. جبکہ علماء کرام کے دوسرے گروہ کے نزدیک غروب آفتاب کے ایک گھنٹہ بعد عشاء کا وقت شروع ہو کر نصف شب تک رہتا ہے، اور نصف شب حد فاصل قرار دے کر وہ اس کے بعد نماز فجر کا وقت شروع کر لیتے ہیں۔

دونوں طرف علماء کرام ہیں اور ذمہ دار مفتیان حضرات ہیں اس لیے مجھے برطانیہ میں حاضری کے دوران ان دنوں میں جس مسجد میں نماز پڑھنے کا موقع ملتا ہے وہیں کے نظام الاوقات کے مطابق پڑھتا ہوں۔ بیسیوں بار ایسا ہوا ہے کہ گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد میں، جہاں ایک عرصہ تک ساہیوال سے تعلق رکھنے والے حضرت مولانا مفتی مقبول احمد خطیب رہے ہیں اور اب ان کی بیماری اور معذوری کے بعد جہلم سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک عزیز اور فاضل دوست مولانا حبیب الرحمان صاحب خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، موسم گرما کے مذکورہ ایام میں عشاء کی نماز گیارہ سوا گیارہ بجے پڑھی ہے اور اس کے بعد ڈیڑھ بجے فجر کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھ کر سو گئے ہیں۔ مولانا مفتی مقبول احمد نے مجھے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ برطانیہ آئے تو ان کی موجودگی میں دونوں طرف کے علماء کرام کا ایک مشترکہ اجتماع ہوا جس میں مفتی صاحب سے اس مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا گیا اور انہیں برطانیہ کے علماء کرام کی اس اختلافی رائے سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے اور دونوں فارمولے درست ہیں، اس لیے جس عالم اور مفتی کا جدھر رجحان ہو وہ اس کے مطابق فتوٰی دے اور اسی پر عمل کرے۔

خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی، اصل گفتگو گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے پر ہو رہی تھی اور یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ برطانیہ میں موسم سرما کے دوران رات بہت زیادہ لمبی ہوتی ہے اور سورج بہت دیر سے طلوع ہوتا ہے۔ برطانوی قوم روایت پسند قوم ہے، ان کے ہاں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ موسم سرما میں صبح دفتر اور اسکول اندھیرے میں جانے کی الجھن کو کم کرنے کے لیے وہ دفتر اور اسکول کے اوقات کو آگے پیچھے کرنے کی بجائے گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کر لیتے ہیں، اور وہ اپنی اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں سرے سے اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں رات کا دورانیہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا اور سورج زیادہ سے زیادہ تاخیر کرے تو بھی سات بجے تک نکل آتا ہے اس لیے سال میں ایک دن بھی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہوتاکہ اسکول یا دفتر صبح اندھیرے میں جانا پڑے۔ پھر ہمارے ہاں موسم سرما اور موسم گرما کے لیے دفتر اور اسکول کے اوقات کار کے الگ الگ نظام کی روایت چلی آ رہی ہے اور ابھی تک ہمارے خیال میں کوئی ایسی الجھن پیش نہیں آئی کہ اس طریقہ کار میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس ہو۔

برطانوی قوم وضعدار اور روایت پسند قوم ہے اور یہ بات بہت اچھی ہے جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ لیکن برطانوی قوم کی روایت پسندی کی پیروی کا مطلب برطانیہ کی روایات پر چلنا نہیں بلکہ اپنی روایات کو باقی رکھنا اور ان پر چلنا ہے۔ بعض دوستوں نے روایت پسندی اور وضعداری کا شاید غلط مطلب سمجھ لیا ہے اور ان کے ذہن میں یہ بات در آئی ہے کہ برطانوی قوم کی کسی روایت کو اپنا کر ہم بھی روایت پسند قوم کہلانے لگیں گے۔ حالانکہ کسی دوسری قوم کی روایت اپنا کر اپنی روایت کو چھوڑ دینا روایت پسندی نہیں بلکہ روایت شکنی کہلاتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور فرق بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے، ہمارے ہاں چونکہ نماز، روزہ اور دیگر بہت سی عبادات اور مذہبی معمولات کا تعلق سورج کے طلوع و غروب سے ہے اور اس حوالہ سے اپنے معمولات کی ترتیب ہمارے لاشعور میں رچی بسی ہوئی ہے، چنانچہ ہمارے روزمرہ معمولات اور شب و روز کی مصروفیات اکثر و بیشتر اسی لحاظ سے طے ہوتی ہیں۔ جبکہ برطانوی قوم کی عمومی زندگی کا سورج کے طلوع و غروب سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ انہیں سال کا اکثر حصہ سرے سے سورج نظر ہی نہیں آتا، اس لیے ان کے روزمرہ معمولات و مصروفیات کی بنیاد سورج کے طلوع و غروب کا نظام نہیں بلکہ گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے ان کے معمولات طے پاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں عام طور پر گھڑی پروگرام طے کرنے کے لیے بنیاد نہیں بلکہ صرف معاون کی خدمت سرانجام دیتی ہے، مثلاً ایک کام ہم نے مغرب کے بعد کرنا ہے تو مغرب کے وقت کا تعین تو سورج کی گردش کے حساب سے ہوگا، گھڑی صرف یہ بتائے گی کہ وہ وقت ہو گیا ہے، اس کے علاوہ اس پروگرام کے تعین میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔

اس لیے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ گھڑی کے وقت کو سال میں دو دفعہ آگے پیچھے کرنے کا نفسیاتی پس منظر کیا ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سورج کے طلوع و غروب اور شب و روز کی گردش کے ساتھ ترتیب پانے والے مذہبی معاملات سے ہماری دیگر معاشرتی مصروفیات کو الگ کرنا مقصود ہو، اور ایک سال کا آزمائشی تجربہ اسی لیے کیا جا رہا ہو کہ اس فرق سے عام لوگوں کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لے لیا جائے۔ مگر ہمارے خیال میں یہ سعی لاحاصل ہو گی کیونکہ صبح، دوپہر، سہ پہر اور شام کا تصور اور نماز روزہ کے اوقات ہمارے معاشرتی مزاج اور کلچر میں اس قدر رچ بس چکے ہیں کہ گھڑی کی سوئیوں کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کر لینے سے ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

البتہ کیبنٹ ڈویژن کے اس نوٹیفکیشن پر عملدرآمد سے صرف ایک فرق عملاً رونما ہو گا کہ ملک بھر کی لاکھوں مساجد میں نمازوں اور رمضان المبارک کی سحری اور افطاری کے جو نظام الاوقات چلے آرہے ہیں انہیں تبدیل کرنا اور ازسرنو مرتب کر کے چھپوانا پڑے گا۔ گویا مغرب کی ایک اور روایت کی پیروی کے اس شوق کی مار بھی غریب مولوی پر ہی پڑے گی۔ اس پس منظر میں اپریل میں گھڑی کی سوئیوں کو ایک گھنٹہ آگے اور اکتوبر میں پھر ایک گھنٹہ پیچھے کرنے کا فیصلہ صادر کرنے والے بزرجمہروں سے گزارش ہے کہ مولوی بے چارہ آپ کا یہ وار بھی ان شاء اللہ تعالٰی سہہ لے گا کیونکہ ایسی باتوں کو برداشت کرنے کا عادی ہو گیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter