نسل انسانی کا امتیاز و اعزاز اور اس کی شکر گزاری

   
مدرسہ طیبہ، کوروٹانہ، گوجرانوالہ
۱۷ اگست ۲۰۲۰ء

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اعلامیہ کے مطابق ملک بھر میں دینی مدارس کے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو گیا ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔ کرونا بحران کی وجہ سے اس سال تعلیمی سلسلہ شروع ہونے میں کم و بیش دو ماہ کی تاخیر ہوئی ہے جس کی تلافی اساتذہ اور طلبہ کو مل جل کر محنت و توجہ کے ساتھ کرنا ہو گی اور دینی مدارس کے عمومی ماحول کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ ایسا ہو جائے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔

جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں بھی گزشتہ روز تعلیمی سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہفتہ وار نقشبندی محفل کا بھی آغاز ہوا ہے جو مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر پچھلے پانچ ماہ سے معطل تھی۔ یہ محفل الشریعہ اکادمی کے زیرانتظام مدرسہ طیبہ کوروٹانہ میں ہر پیر کو عصر کی نماز کے بعد ہوتی ہے جس میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نقشبندی مجددیؒ کے متوسلین اور مدرسہ کے اساتذہ و طلبہ شریک ہوتے ہیں۔ اس میں خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے نظم کے مطابق ختم خواجگان ہوتا ہے اور میں کچھ معروضات پیش کرتا ہوں، جبکہ دعا پر یہ محفل اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ۱۷ اگست کو ہفتہ وار نقشبندی محفل کے دوبارہ آغاز پر جو معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو باقی مخلوقات پر جو امتیاز بخشا ہے، قرآن کریم میں اس کا مختلف مقامات پر مختلف حوالوں سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا کہ ہم نے انسان کو ’’احسن تقویم‘‘ میں پیدا کیا ہے یعنی سب سے اچھے سانچے میں ڈھالا ہے۔ یہ احسن تقویم جسمانی ساخت کے حوالہ سے بھی ہے اور صلاحیتوں اور استعداد کے دائرے میں بھی ہے، جس کا مشاہدہ ہم روزمرہ کرتے رہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ ہم اسے ’’اسفل سافلین‘‘ کے درجے میں بھی اتار دیتے ہیں، یعنی وہ سب سے نچلے درجے میں چلا جاتا ہے، جسے قرآن کریم میں ایک جگہ ’’کالانعام بل ھم اضل‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ چوپایوں سے بھی بدتر درجے میں جا پہنچتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ جو لوگ ایمان اور اعمال صالحہ کے تقاضے پورے کرتے ہیں وہ تو اپنا اسٹیٹس برقرار رکھتے ہیں اور جو خود کو ایمان اور اعمال صالحہ کے دائرے میں نہیں لاتے وہ نچلے درجوں میں لڑھک جاتے ہیں۔

باقی مخلوقات سے انسان کے امتیاز کا ایک پہلو یہ بیان فرمایا کہ ’’علمہ البیان‘‘ اللہ تعالٰی نے انسان کو بیان اور گفتگو کا سلیقہ اور صلاحیت دی ہے۔ چنانچہ دیکھ لیں کہ بیان کے جتنے اسلوب، ذرائع اور صلاحیتیں انسان استعمال کرتا ہے وہ اور کسی جاندار کے حصے میں نہیں ہیں۔ حتٰی کہ منطقیوں کے ہاں انسان کی تعریف یہ ہی کی جاتی ہے کہ ’’حیوان ناطق‘‘ یعنی بولنے والا جانور ہے، جیسا کہ بولنے کی صلاحیتیں اور اس کی بے شمار صورتیں ہر وقت انسان کے استعمال میں رہتی ہیں۔

ایک جگہ فرمایا کہ ہم نے انسان کو عزت و تکریم بخشی ہے، جس کی صورتیں اس کے ساتھ یہ بیان فرمائیں کہ ’’وحملناھم فی البر والبحر‘‘ ہم نے انسانوں کو خشکی اور سمندر میں سوار کیا ہے، یعنی زمین اور سمندر دونوں کے ماحول میں تصرف کی صلاحیتیں اور مواقع عطا کیے ہیں۔ اب دیکھ لیجئے کہ زمین کے اوپر، زمین کے اندر اور اس کی فضا میں سب سے زیادہ تصرف کون کرتا ہے؟ زمین کو مختلف حوالوں سے سب سے زیادہ استعمال کون کرتا ہے؟ اور زمین کے خزانوں سے سب سے زیادہ استفادہ کون کرتا ہے؟ جبکہ زمین کے حوصلہ و ہمت پر بھی نظر ڈال لیجئے کہ ہم اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اور وہ اس کے باوجود ہمیں کیا کچھ دیتی ہے؟ ہم زمین پر پیشاب پاخانہ کرتے ہیں، ہر قسم کی گندگی اس پر ڈالتے ہیں، اسے کھودتے ہیں، اس کی تہہ میں گھس جاتے ہیں اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں مگر وہ ہمیں ہر قسم کی غذا مہیا کرتی ہے، اس نے ہمارے لیے پانی کے ذخیرے سمیٹ رکھے ہیں اور ہمارے فائدے کے لیے معدنیات، گیس، تیل اور کیا کچھ سنبھالا ہوا ہے۔ پھر ہم زندہ ہوں تو زمین کی پشت ہمارا ٹھکانہ ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہی ہمیں اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ یہی صورتحال سمندر کی ہے، اس کی سطح پر، اس کی تہہ میں اور اس کی فضاؤں میں کس کا تصرف جاری ہے، جس کے نت نئے طریقے ہم نکالتے رہتے ہیں، اس کے ساتھ وہ ہمیں غذا بھی مہیا کرتا ہے اور ’’سی فوڈ‘‘ کا اپنا ایک دائرہ ہے جس کی افادیت و ضرورت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

اس آیت کریمہ میں تیسری بات یہ فرمائی کہ ’’ورزقناھم من الطیبات‘‘ ہم نے انسانوں کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے، اسی پر ایک نظر ڈال لیں کہ انسان کی خوراک کون کون سی چیزیں ہیں اور باقی جانوروں کے استعمال میں ان میں سے کون کون سی اشیا شامل ہیں؟ جانوروں میں سے کوئی بھی اس قدر متنوع چیزیں خوراک میں استعمال نہیں کرتا جو انسان کے استعمال میں ہر روز رہتی ہیں۔ اور پھر صرف اشیا کا تنوع اور ان کی گنتی نہیں بلکہ ان کے استعمال کی مختلف صورتیں دیکھ لیجئے۔ شیر گوشت کو صرف کچا کھاتا ہے مگر انسانوں نے گوشت کے استعمال کی ان گنت صورتیں نکال رکھی ہیں اور ان مختلف صورتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چڑیا نے گندم کا صرف دانہ کھانا ہے، اس کی اور کوئی صورت اس کے استعمال میں نہیں ہے، مگر انسان گندم کے دانے کو کتنی صورتوں میں استعمال کرتا ہے اور اس سے کیا کچھ بناتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح پانی پر نظر ڈال لیں، ہر جانور پانی کے استعمال کی ایک آدھ صورت ہی جانتا ہے، مگر انسان نے پانی کے استعمال کے کتنے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں اور اس میں نت نئے اضافے دن بدن ہوتے رہتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے انسان کو بہت سے امتیازات سے نواز رکھا ہے، صرف ان امتیازات کی فہرست اور درجہ بندی کو موضوع بنایا جائے تو احاطہ مشکل ہو گا۔ مگر ان سب کے بدلے میں انسان سے صرف ایک بات کا تقاضہ کیا ہے کہ انسان اگر باقی مخلوقات پر اپنی برتری، امتیاز اور فضیلت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے ’’آمنوا وعملوا الصالحات‘‘ کے دائرے میں آنا ہوگا، ایمان اور اس کے مطابق اعمال صالحہ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ اگر وہ دنیا کی زندگی میں اس امتحان میں کامیاب ہو گیا تو اپنا امتیاز، اسٹیٹس اور پروٹوکول قائم رکھ سکے گا اور اخروی زندگی میں بھی اس اعزاز سے فیضیاب ہو گا۔ لیکن اگر انسان ایمان اور اعمال صالحہ کے دائرے سے باہر رہا تو ’’اسفل سافلین‘‘ کا عمیق گڑھا اس کے انتظار میں ہے کہ ناشکری اور ناقدری کی سزا یہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو توفیق دے کہ ہم خود کو اور اپنے مقام و امتیاز کو پہچانیں اور اسے برقرار رکھنے کے لیے صحیح محنت کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۱۹ اگست ۲۰۲۰ء)
2016ء سے
Flag Counter