حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی ؒ

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
فروری ۲۰۱۶ء

اس سال الشریعہ اکیڈمی کے دوستوں نے فکری نشستوں کے لیے عنوان یہ تجویز کیا ہے کہ جن بزرگوں سے میں نے استفادہ کیا ہے اور جن بزرگوں کے ساتھ مل کر مجھے کام کرنے کا موقع ملا ہے ان کا تھوڑا تھوڑا تعارفی تذکرہ ہو جائے۔ ہم نے تقریباً اٹھارہ نشستیں اور اٹھارہ شخصیات مشورے میں طے کی ہیں۔ اس میں ایک بات کی پہلے وضاحت کر دوں گا کہ مجھے سب سے زیادہ سب سے طویل عرصہ جن بزرگوں سے استفادے کا موقع ملا ہے وہ تو میرے والدِ محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ ہیں، میں نے سب سے زیادہ پڑھا بھی انہی سے ہے، سب سے زیادہ استفادہ بھی ان سے کیا ہے، سب سے زیادہ کام بھی ان کے ساتھ کیا ہے، لیکن یہ دونوں نام ہماری اس فہرست میں نہیں ہیں اس لیے کہ ان میں سے ایک نام بھی ایسا نہیں ہے جو دوچار نشستوں میں بھگت جائے۔ البتہ ان کے بارے میں لکھتا رہتا ہوں اور آئندہ بھی لکھتا رہوں گا، کبھی موقع ملے تو تفصیل سے بات ہو گی لیکن ان کے علاوہ ملک کی جن شخصیات کے ساتھ میرا استفادے کا اور رفاقت کا تعلق رہا ہے ان کا تھوڑا تھوڑا تذکرہ ہو گا۔ سب سے پہلے برکت کے لیے آج کی گفتگو کا عنوان ہوگا حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز۔ ہر گفتگو کے دو حصے ہوں گے، ایک حصہ ہو گا ان کا مختصر سا تعارف جو تھوڑے سے وقت میں کرایا جا سکے اور دوسرا یہ کہ میرا ان کے ساتھ کیا تعلق تھا، اور کوشش یہ ہوا کرے گی کہ بات آدھ گھنٹے سے چالیس منٹ کے درمیان سمٹ جائے۔

حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ ہمارے دور کے اکابر علماء میں سے تھے جن کی امارت و سیادت کو ملک بھر کے علماء تسلیم کرتے تھے۔ بزرگ تھے، بڑے تھے، وہ ہم سب کے رہنما اور سربراہ تھے۔ سیاسی میدان میں بھی، روحانی دائرے میں بھی اور علمی ماحول میں بھی۔ ضلع رحیم یار خان میں خانپور کٹورہ کے ساتھ ایک بستی ہے دینپور شریف، جو ہمارے بڑے علمی اور روحانی مراکز میں سے ہے، تحریکِ آزادی کے دور میں حضرت خلیفہ غلام محمدؒ دینپور میں جا کر بیٹھے، اللہ والے بزرگ تھے، مجاہد بھی صفِ اول کے تھے اور صوفی بھی درجہ اول کے تھے، سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کے بڑے شیخ تھے، حضرت خلیفہ غلام محمد دینپوریؒ کے نام سے متعارف ہیں اور یہ بستی انہوں نے ہی آباد کی تھی دینپور کے نام پر۔ یہ ہمارے پرانے مراکز میں سے ہے، خانقاہ بھی ہے اور مجاہدین کا مرکز بھی تھا۔ تحریکِ ریشمی رومال اور تحریکِ آزادی میں اس کا بڑا مقام ہے، اور اس پورے علاقے میں، سندھ کا علاقہ بھی اور پنجاب بھی، اس میں ان کے روحانی اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ حضرت درخواستیؒ اصل میں اس خانقاہ کے نمائندہ تھے، اس خانقاہ میں ایک بزرگ تھے۔ حافظ محمود الدینؒ حضرت درخواستیؒ کے والد تھے، اس کے قریب ہی ایک قصبہ ہے ’’درخواست‘‘ وہاں حضرت درخواستیؒ پیدا ہوئے، اسی نسبت سے درخواستی کہلاتے ہیں۔ تعلیم دینپور شریف میں حاصل کی اور روحانی تربیت بھی وہیں حاصل کی۔ حضرت خلیفہ غلام محمدؒ کے شاگردوں میں سے تھے اور ان کے مریدین میں سے بھی تھے۔

قرآن کریم کا درس حضرت درخواستیؒ کا خاص ذوق تھا، زندگی بھر قرآن کریم پڑھا یا ہے۔ اس کے ساتھ خصوصی ذوق تھا حدیثیں یاد کرنے کا، ان کا لقب ہے حافظ الحدیث۔ یہ بھی ان کے شیخ کا فیض تھا کہ وہ حضرت درخواستیؒ سے کہا کرتے تھے کوئی حدیث سناؤ تو یہ روزانہ دو چار حدیثیں یاد کر کے اپنے شیخ کو سنایا کرتے تھے، حافظہ بہت اچھا تھا، یادداشت آخر وقت تک مضبوط تھی تو یاد کرتے کرتے ان کو دس ہزار حدیثیں متن اور سند کے ساتھ ایسے زبانی یاد ہو گئی تھیں کہ کوئی بھی حدیث الگ کر کے سنا سکتے تھے۔ اس لیے ان کو حافظ الحدیث کا لقب دیا گیا کہ وہ اپنے دور کے محدثین میں حدیث ِرسولؐ کے سب سے بڑے حافظ تھے۔ یادداشت اللہ تعالٰی نے بہت مضبوط دی تھی، جو بات ایک دفعہ سن لیتے تھے بھولتے نہیں تھے۔

ایک ذوق تو یہ تھا اور دوسرے یہ کہ فنا فی الحدیث تھے۔ میں نے ان کے ساتھ خاصا وقت گزارا ہے، تقریباً تیس سال۔ پندرہ سولہ سال تو ایک نیاز مند کے طور پر اور پندرہ سولہ سال کی عملاً رفاقت بھی ہے ان کے ساتھ ایک کارکن کے طور پر۔، ایک شاگرد کے طور پر اکثر ساتھ رہا۔ میں نے جب قرآن کریم حفظ مکمل کیا ۱۹۶۰ء میں تو آخری سبق حضرت درخواستیؒ کو ہی سنایا تھا۔ آپ گکھڑ تشریف لائے، جلسہ تھا، اس جلسے میں آخری سبق انہی کو سنایا تھا۔ تب سے تعلق ہوا اور ان کی وفات (۱۹۹۲ء) تک یہ تعلق قائم رہا جو دن بدن بڑھتا گیا۔ میں نے زندگی میں ان کا سب سے بڑا ذوق دیکھا ہے وہ یہ کہ جہاں بیٹھے ہیں حدیث سنا رہے ہیں، کھانے کی مجلس ہو یا پبلک جلسہ ہو، جماعت کی میٹنگ ہو یا دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہو رہی ہو، بس میں جا رہے ہوں یا گاڑی میں بیٹھے ہوں، ہر موقع پر حدیث سنانا ان کا خاص ذوق تھا۔ اور وہ فارسی کا ایک شعر اکثر پڑھا کرتے تھے جو کہ واقعتًا ان کے حسبِ حال تھا:

ما ہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الّا حدیثِ یار کہ تکرار میکنند

کہ ہم نے زندگی میں جو کچھ پڑھا ہے سب کچھ بھول گئے ہیں ،صرف یار کی باتیں یاد ہیں انہیں دہراتے رہتے ہیں ۔ یار سے مراد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ ایک ہی شغل تھا ان کا، حافظ الحدیث بھی تھے اور فنا فی الحدیث بھی تھے۔

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات ۱۹۶۲ء میں ہوئی تو ان کی جگہ حضرت درخواستیؒ کو جمعیت علماء اسلام پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا۔ وہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے سب علماء کے متفقہ امیر تھے، اس دور میں جب مشرقی و مغربی پاکستان کے اکثر علماء جمعیت علماء اسلام کا حصہ تھے، آخر وقت تک امیر رہے ہیں۔ ان کی گفتگو کا انداز تقریباً عالمِ جذب کا ہوتا تھا، وہ بیان کرنے بیٹھتے تو کبھی حدیث بیان کر رہے ہیں، کبھی شعر سنا رہے ہیں، کبھی کوئی واقعہ سنا رہے ہیں، کبھی کسی سے نعرہ لگوا رہے ہیں، کبھی کسی سے نعت سن رہے ہیں، یہ انداز ہوتا تھا ان کا۔ تین تین، چار چار گھنٹے گفتگو کرتے رہتے، لوگ عقیدت میں بھی اور استفادے کے لیے بھی بیٹھے رہتے، محبت اور عقیدت و احترام کے ساتھ ساری ساری رات بیٹھے رہتے تھے اور وہ باتیں کر رہے ہوتے، ان کی تقریر ایسی مربوط نہیں ہوتی تھی جیسے خطابت ہوتی ہے۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے ایک جلسے پر تشریف لے گئے لیکن پابندی تھی کہ تقریر نہیں کر سکتے۔ حضرتؒ بیٹھ گئے، کسی نے کہا حضرتؒ تقریر پر پابندی ہے۔ فرمایا، ہاں تقریر نہیں کر سکتا، دعا پر تو پابندی نہیں ہے، دعا تو کر سکتا ہوں۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے اور دعا کے انداز میں ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو فرمائی۔ ساری باتیں دعا میں شامل تھیں، جو کچھ کہنا تھا وہ لوگوں کو مخاطب کر کے کہنے کی بجائے اللہ سے کہیں کہ یا اللہ انہیں ایسا کر دے، ایسا کر دے۔ اللہ تعالٰی نے علم سے نوازا تھا، علم کا سمندر تھے، احادیث کا، فقہی جزئیات کا۔ میں اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے اس خطے یعنی پاکستان میں پہلے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا رواج نہیں تھا، اب تو ایک ایک شہر میں تین تین دورۂ تفسیر ہوتے ہیں، اس دور میں پورے پنجاب میں ایک بھی نہیں ہوتا تھا۔ سب سے پہلا دورۂ تفسیر شروع کیا ہے رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علیؒ واں بچھراں میانوالی نے، دوسرا دورۂ تفسیر شروع کیا ہے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے، اور تیسرا دورۂ تفسیر شروع کیا حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ نے، چوتھا دورۂ تفسیر شروع کیا سندھ کے مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ نے، یہ چار پانچ اکابر تھے دورۂ تفسیر کی ابتدا کرنے والے۔ پھر حضرت والد گرامی مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور مولانا غلام اللہ خانؒ دوسری صف کے لوگ تھے جنہوں نے دورۂ تفسیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ حضرت درخواستیؒ پہلی صف کے آدمی ہیں۔ تقریباً پینسٹھ سال مسلسل انہوں نے علماء کو قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر پڑھایا ہے، بڑے بڑے اکابر علماء ان کے سامنے بیٹھتے تھے۔ ہمارے چچا جان حضرت صوفی صاحبؒ بھی ان کے شاگرد ہیں، دورۂ تفسیر ان سے پڑھا تھا۔ تو حضرت درخواستیؒ اپنے دور کے بڑے استاد تھے۔ ایک ذوق ان کا یہ تھا قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر پڑھانا، ایک ذوق جو پہلے بیان کیا کہ حدیثیں سنانا اور سننا۔ امتحان بھی لیا کرتے تھے، ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے ہم لوگ ڈرتے تھے کہ اگر موڈ آگیا اور کوئی حدیث پوچھ لی تو ہم کیا کریں گے۔ بڑی پُربہار، پُررونق مجلس ہوتی تھی۔

ایک ان کا ذوق اور بطور خاص مشن تھا جو ساری زندگی رہا، وہ یہ کہ جہاں بھی جاتے ان کی کوشش ہوتی کہ یہاں اگر دینی مدرسہ نہیں ہے تو مدرسہ ہونا چاہیے۔ اور اگر مدرسہ ہے تو پوچھتے اس کی ترقی کا سامان کیا ہے؟ ملک میں سینکڑوں مدارس ان کی توجہ سے قائم ہوئے ہیں اور سینکڑوں مدارس کی سرپرستی کی ہے۔ ان کے اس ذوق پر ایک واقعہ عرض کرتا ہوں، میں نے کہیں لکھا بھی ہے کہ مالاکنڈ کے قبائل کے علاقے میں سفر پر جا رہے تھے تو راستے میں ایک عقیدت مند نے، کوئی خان صاحب سردار عقیدت مند تھے، کہا حضرت! راستے میں میرا گھر ہے دس پندرہ منٹ ٹھہر کر چائے پیتے جائیں۔ فرمایا، ایک شرط پر کہ اپنے علاقے میں مدرسہ بنوانے کا وعدہ کرو، تب چائے پیوں گا آپ کے ہاں۔ اس نے وعدہ کر لیا کہ ٹھیک ہے مدرسہ بنواؤں گا۔ فرمایا چلو۔ اس کے گھر پہنچے تو پوچھا، آپ کی زمینیں کدھر کدھر ہیں، اس نے کہا یہ گھر کے ساتھ ساتھ اپنی ہی جگہ ہے۔ فرمایا طے کرو کون سی جگہ مدرسہ بنوانا ہے، فیصلہ کرو۔ اس نے باہر نکل کر بتایا کہ جی یہ جگہ ہے۔ فرمایا اچھا! یہ جگہ کتنی ہے؟ جی اتنی۔ فرمایا، ٹھیک ہے دو چار اینٹیں منگواؤ میں سنگِ بنیاد رکھ کر جاؤں گا۔ اینٹیں منگوائیں، سنگِ بنیاد رکھا، دعا فرمائی اور کہا صبح ہی کام شروع کر دینا ۔ یہ ان کا ذوق تھا کہ اگر کسی علاقے میں مدرسہ نہیں ہے تو انہیں بڑی کوفت ہوتی تھی۔ مدرسے بنوانا، مدرسوں کی سرپرستی کرنا، مدارس کی حوصلہ افزائی کرنا، لوگوں کو توجہ دلاتے تھے کہ مدرسوں کی خدمت کرو تعاون کرو۔ خود بھی تعاون کرتے تھے، میں نے ان کو کبھی چندہ مانگتے نہیں دیکھا، دیتے دیکھا ہے۔ اپنے دونوں بزرگوں مولانا عبداللہ درخواستیؒ اور مولانا عبیداللہ انورؒ دونوں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے اور گنے بغیر نکال کر دے دیتے۔ پہلے خود دیتے پھر دوسروں کو کہتے ہاں جی تم بھی نکالو۔ اور کبھی ذوق میں کسی کو کھڑا کر لیتے اور پوچھتے کتنا چندہ دیتے ہو؟ وہ اگر کہتا ہزار روپیہ تو کہتے بیوی کا بھی ہزار دو ناں۔ اس طریقے سے مدارس کی سرپرستی فرماتے تھے۔ یہ میں نے ان کی خصوصیت دیکھی ہے۔

حضرتؒ بڑے انتھک آدمی تھے، مسلسل سفر میں رہتے، میں بھی سفر کرنے میں کم نہیں ہوں، الحمد للہ مسافر آدمی ہوں، لیکن میرے جیسا آدمی بھی دو تین دن کے بعد واپس بھاگ آتا تھا کہ یہ میرے بس کا کام نہیں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے، نہ کھاتے ہیں، نہ سوتے ہیں۔ بس چلو چلو! بعض مواقع ایسے آئے ہیں، حالانکہ میں عادی ہوں سفر کا لیکن تیسرے چوتھے دن چپکے سے نکل آتا تھا کہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ حضرتؒ پیچھے ڈھونڈتے رہتے کہ وہ راشدی والا کدھر گیا بڑا بے وفا ہے، سامری کہتے تھے، وہ کدھر بھاگ گیا۔ ان کو دوسرے دن پتہ چلتا کہ وہ چلا گیا ہے، میں تھک کر چلا آتا تھا، میرے بس کی بات نہیں ہوتی تھی، اتنا زیادہ سفر کرتے تھے۔ کبھی ایسا ہوا کہ رات جلسہ کیا ہے، صبح مسجد والے حضرت کے درس کی ترتیب بنا لیتے، تو فرماتے ٹھیک ہے دے دیں گے صبح نماز کے بعد دو گھنٹے درس بھی دے دیا کرتے، رات ایک بجے جلسے سے فارغ ہوئے ہیں اور صبح درس شروع ہو گیا ہے اور لگے ہوئے ہیں لگے ہوئے ہیں، ان کے ہاں وقت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ایک جلسے میں مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت درخواستیؒ دونوں شریک تھے، اکثر اکٹھے ہوتے تھے۔ مفتی صاحبؒ کی تو اوقات کی اپنی ترتیب ہوتی تھی کہ فلاں وقت یہ کرنا ہے اور فلاں وقت یہ، جبکہ حضرت درخواستیؒ کا کوئی نظم نہیں ہوتا تھا، دو گھنٹے لگ جائیں، تین لگ جائیں، پورا دن لگ جائے، ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ آگے بھی کہیں جانا ہے تو اس جلسے کا مسئلہ یہ تھا کہ حضرت درخواستیؒ نے تقریر شروع کر دی، مفتی صاحبؒ نے فلائٹ پکڑنی تھی۔ حضرت تقریر لمبی کرتے جا رہے ہیں لمبی کرتے جا رہے ہیں، مفتی صاحبؒ کو فکر لگی ہوئی ہے کہ میری فلائٹ نکل جائے گی اور میں نے ابھی تقریر کرنی ہے اور حضرت بس نہیں کر رہے۔ ادھر حضرت کو کچھ کہنے کا بھی ہم میں حوصلہ نہیں ہوتا تھا کہ حضرت بس کریں، یہ کون کہے ان کو؟ خیر جب تقریر ختم کی تو مفتی صاحبؒ نے تھوڑی سی تقریر کی اور بعد میں ہلکی سی خفگی کے ساتھ عرض کیا حضرت! آپ وقت کا خیال نہیں کرتے۔ فرمایا ہاں، میں نے اسی لیے گھڑی رکھی ہوئی نہیں ہے۔ حضرتؒ کے پاس کوئی گھڑی نہیں ہوتی تھی، مفتی صاحبؒ کو تھوڑا غصہ تھا کہ میرا اتنا وقت خرچ کر دیا تو حضرتؒ نے فرمایا کہ میں نے اسی لیے گھڑی نہیں رکھی ہوئی ہے، تو حضرت مفتی صاحبؒ نے دل لگی کے طور پر کہا، حضرت! گھڑی نہیں رکھی ہوئی تو کیلنڈر تو ہوگا ناں، گھر میں تاریخوں کا تو پتہ ہوگا ناں آج کون سی تاریخ ہے، کہہ رہے ہیں کہ وقت کا پتہ نہیں چلتا۔ تو یہ نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔

حضرت درخواستیؒ کھاتے پیتے بہت کم تھے، میں نے ان کے ساتھ بڑے سفر کیے ہیں معمولی سے دو چار لقمے کھاتے باقی کھلاتے تھے اور کھلاتے بھی کیسے کہ کبھی ایک کے منہ میں لقمہ ڈال رہے ہیں، کبھی دوسرے کے منہ میں اور ایسے بھی کرتے کہ بڑے بڑے علماء کی موجودگی میں کسی کے منہ میں انگوٹھا ڈال رہے کہ چوسو بھئی! اور وہ چوس رہا ہے۔ کبھی ایسے بھی کرتے کہ کوئی لقمہ منہ کی طرف لے جا رہا ہوتا تو اس کے ہاتھ سے لقمہ لے لیتے اور کہتے اچھا! بڑے لالچی ہو۔ خود میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے۔ تو یہ دوستوں کی طرح بے تکلفی چلتی رہتی تھی اور اسی طرح انہوں نے ساری زندگی گزاری ہے، تو ایک آپ کا خاص مشن مدارس کی سرپرستی رہا۔

اور ایک اہم بات میں سمجھتا ہوں کہ جہاد کی تلقین شروع زمانے سے، جس وقت کوئی جہاد کا ماحول تو کیا تصور بھی نہیں تھا کہ کبھی جہاد بھی ہوگا۔ میں ۱۹۶۰ء، ۱۹۷۰ء عرصے کی بات کر رہا ہوں۔ افغانستان کے جہاد کا بھی کوئی تصور نہیں تھا ابھی تک۔ اور حضرتؒ جلسوں میں وعدہ لیا کرتے تھے کہ کھڑے ہو کر وعدہ کرو کہ وقت آیا تو جہاد کرو گے، خاص طور پر قبائلی پٹی میں، قبائلی علاقے میں جب جاتے جہاد پر تقریر کرتے۔ حضرت درخواستیؒ اور حضرت مولانا عبد الحقؒ اکوڑہ والے یہ دو بزرگ میں نے دیکھے ہیں کہ جہاد افغانستان کے لیے جتنا بھی ذہن تیار کیا ہے وہ ان دو آدمیوں نے کیا ہے۔ جب افغانستان کا جہاد شروع ہوا ہے تو جو لوگ پاکستان اور قبائلی علاقے سے وہاں گئے ہیں وہ ساری پنیری ان دو حضرات کی تھی، جہادِ افغانستان کی عملی سرپرستی فرمائی۔ جب جہادِ افغانستان شروع ہوا تو پورے قبائلی علاقے کا تفصیلی دورہ کیا، لوگوں سے کہا اٹھو بھئی اپنے بھائیوں کی مدد کرو، یہ بھی ان کا ذوق تھا۔

سیاسی میدان میں حضرت درخواستیؒ کے دو بڑے موضوع تھے: (۱) ملک میں نفاذِ شریعت، اسلامی قانون کا نفاذ جمعیت علماء اسلام کا تو مشن ہی یہی تھا، اس کے لیے متحرک رہتے تھے، ہر وقت جلسوں میں، میٹنگوں میں، تحریکوں میں، (۲) اور دوسرا ختمِ نبوت کے محاذ کی بڑی شخصیات میں سے تھے۔ ہر جلسے میں ہر موقع پر ختمِ نبوت کے لیے حلف لیتے تھے، وعدہ لیتے تھے، تلقین فرماتے تھے کہ ختمِ نبوت کے لیے کام کرو گے۔ میں اس پر دو واقعات کا بطورِ خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔

ایک دفعہ معلوم ہوا کہ ایبٹ آباد میں قادیانیوں نے ربوہ کے بعد دوسرا بڑا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے کافی جگہ وغیرہ خرید چکے تھے۔ حضرت درخواستیؒ کو پتہ چلا وہاں ایبٹ آباد میں جا کر بیٹھ گئے، حضرت حاجی ناول خان مرحوم ہوتے تھے جو آپؒ کے مرید تھے، ان کا ہوٹل تھا، ان کے پاس چلے گئے، ہوٹل میں رہائش پذیر ہوگئے، علاقے کے علماء کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ نہیں بھئی! یہ نہیں بنے گا، میں اس لیے آیا ہوں۔ جب تک مجھے یہ تسلی نہیں ہو جاتی کہ یہاں مرکز نہیں بنے گا میں نہیں جاؤں گا۔ یہاں سے۔ علماء کو اکٹھا کر کے ان سے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے ہوتے ہوئے قادیانی ایبٹ آباد کو مرکز بنائیں۔ تقریباً دس دن بیٹھے رہے وہاں۔ تقریریں، جلسے کر کے وہاں ماحول ایسا بنایا کہ قادیانی بھاگ گئے اور اپنا فیصلہ ختم کر دیا ایبٹ آباد کو اپنا مرکز بنانے کا۔ یہ ذوق تھا ان کا، صرف زبانی باتیں نہیں کرتے تھے۔

بلوچستان میں ایک فرقہ ہے ذکری، ہمارے ملک میں ہے اور ہمیں عام طور پر پتہ نہیں ہے اس کا۔ بلوچستان میں ساحل کی پٹی تربت، مکران وغیرہ کے علاقے میں یہ فرقہ ہے۔ ملا نور محمد اٹکی تھا اٹھارویں صدی میں اس نے مہدی ہونے کا دعوٰی کیا، وحی اور نبوت کا دعوٰی کیا تھا، نماز منسوخ کر دی۔ یہ پوری پٹی ہے جو ملا نور محمد کو نبی اور رسول مانتے ہیں، نماز ان کے ہاں منسوخ ہے، نماز کی جگہ ذکر کے قائل ہیں، وہاں فرق کے لیے مسلمان نمازی کہلاتے ہیں اور یہ ذکری کہلاتے ہیں۔ ان کا وہاں حج اپنا ہوتا ہے، ستائیس رمضان کو حج کرتے ہیں کوہِ مراد میں۔ وہاں ان کا بیت اللہ الگ ہے۔ ان کا اپنا وقوفِ عرفات ہوتا ہے، حج والے سارے کام ہوتے ہیں، وہاں ایک پتھر کو چومتے بھی ہیں۔ یہ وہاں لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور تقریباً ایک سو سال ان کی حکومت بھی رہی ہے اس علاقے میں۔ تین سو سال سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی ہیں، میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جاتا۔ وہاں کی تازہ خبر یہ ہے کہ وہاں ذکری فرقے کے خلاف کام کرنے والے سب سے بزرگ شخصیت مفتی احتشام الحق آسیا آبادی پرسوں شہید کر دیے گئے ہیں۔ حضرت درخواستیؒ نے ایک دفعہ ان کے خلاف مہم چلائی اور سب سے پہلے پاکستان کو ذکریوں سے متعارف کروانے کے لیے حضرت درخواستیؒ سامنے آئے، ورنہ ہمارے ہاں کسی کو کوئی پتہ نہیں تھا بلکہ اب بھی کوئی نہیں پتہ۔ بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں علماء کو تیار کیا کہ لوگوں کو بتاؤ تو سہی۔ اور ان کے جعلی حج کے خلاف مہم چلائی، پورے بلوچستان میں آگاہی پیدا کی اور جب تک وہاں کے علماء کو منظم نہیں کر دیا وہاں سے نہیں نکلے۔ یہ حضرتؒ کا خاص ذوق تھا۔

حضرت درخواستیؒ نے تقریباً سو سال کے لگ بھگ عمر پائی ہے، آخر وقت تک متحرک رہے ہیں۔ ہمارے دور کی بڑی بابرکت شخصیات میں سے تھے، میں نے ان کی محنت بھی بہت دیکھی ہے، اور ان کی کرامات اور برکات بھی بہت دیکھی ہیں اور ان کی برکات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ہم جو کچھ بھی ہیں ان بزرگوں کی وجہ سے ہیں، ہمارا تو اپنا کچھ بھی نہیں ہے، ہم تو صرف پائپ لائن ہیں۔

میرا ان سے تعلق کب سے ہوا، اس کا میں نے پہلے بھی کچھ ذکر کیا ہے۔ پہلا تعلق ان سے ۱۹۶۰ء میں ہوا جب میں نے انہیں آخری سبق سنایا۔ میرے ختمِ قرآن کا موقع تھا اور حضرت درخواستیؒ اتفاقاً تشریف لائے تھے۔ میرے استادِ محترم ہیں حضرت قاری محمد انور صاحبؒ اللہ تعالٰی سلامت رکھے۔ گزشتہ چھتیس سال سے مدینہ منورہ میں ہیں، پینتیس سال تک وہاں حفظ کروایا ہے، یہاں اکیڈمی بھی تشریف لائے تھے پچھلے سے پچھلے سال۔ میں نے ان سے قرآن کریم یاد کیا تھا، مجھے الحمد للہ بڑی محبت سے نوازتے ہیں۔ ابھی تین چار دن پہلے مجھے فون کیا فرمایا، او مولوی! میں ٹھیک ہو گیا ہوں۔ میں نے انہیں دعا کے لیے کہا، میرا تو سچی بات ہے دعاؤں کا خزانہ مدینہ میں بیٹھا ہوا ہے، وہ دعائیں کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالٰی نوازتے رہتے ہیں۔ خیر حضرت درخواستیؒ، حضرت والد گرامیؒ، حضرت مولانا قاری فضلِ کریم صاحب (مدرسہ تجوید القرآن لاہور کے بانی)، مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحبؒ، ان چار بزرگوں کو میں نے اپنا آخری سبق سنایا تھا۔ چاروں اپنے وقت کے اکابر تھے اور میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے، تب سے تعلق ہوا اور بے شمار واقعات اور لطائف پیش آئے۔ ایک لطیفہ نما واقعہ سنا دیتا ہوں۔ میرا آخری سبق سورۂ مرسلات کا آخری رکوع تھا، جلسے میں سنایا تھا، سامنے بڑے بڑے اکابر علماء اور میں بارہ سال کا بچہ تھا تو میں سبق میں ایک آیت ’’واذا قیل لھم ارکعوا لا یرکعون‘‘ بھول گیا۔ کسی نے بتایا اور میں نے پڑھ لیا، بات آئی گئی ہو گئی۔ دو سال کے بعد گوجرانوالہ تشریف لائے ختمِ نبوّت کے دفتر میں جو شہر میں ہے، میں تب نصرۃ العلوم میں پڑھتا تھا۔ میں ملنے کے لیے چلا گیا، سامنے بیٹھ گیا حضرتؒ نے مجھے پہچان لیا اور بلا لیا اوئے! واذا قیل لھم ارکعوا، ادھر آؤ ملتے بھی نہیں ہو بے وفا ہو گئے ہو۔ میرے تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ ان کو یاد ہے کہ اس بچے کا سبق سنا تھا اور یہ آیت بھولا تھا۔ فرمایا ادھر آؤ سبق پھر سناؤ۔ یاد ہے؟ میں نے پھر دوبارہ سبق سنایا، یہ محبت و عقیدت کا تعلق تھا۔

میں اسفار میں بھی ان کے ساتھ رہا، وہ جمعیت علماء اسلام میں کے مرکزی امیر تھے اور میں آہستہ آہستہ گوجرانوالہ شہر، ضلع، ڈویژن، بڑھتا ہوا آخری تقریباً سترہ سال ان کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہا ہوں، ان کی ٹیم اور کابینہ کا متحرک حصہ رہا ہوں، اور الحمد للہ مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے، میں اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتا ہوں۔ تین چار بزرگوں کا مجھے آخر وقت تک اعتماد حاصل رہا ہے۔ ایک لطیفہ اور سنا دیتا ہوں، بڑے لطائف ہیں حضرت درخواستیؒ کے۔ قومی اتحاد کی تحریک تھی ۱۹۷۷ء میں مولانا مفتی محمود صاحبؒ، نوابزادہ نصر اللہ خان، سردار عبد القیوم خان، مولانا شاہ احمد نورانیؒ پیر صاحب آف پگارا، سردار شیرباز مزاری بڑے بڑے لیڈر تھے۔ یہ سارے گرفتار ہو گئے سوائے پیر آف پگارا کے۔ میں اور مولانا اجمل خان کیمپ جیل لاہور میں تھے، ہم نے مشورہ کیا کہ لیڈر سارے جیل میں ہیں اور تحریک کے تسلسل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کسی لیڈر کا تحریک کے بارے میں روز بیان آئے، تو اب کیا کِیا جائے؟ حضرت درخواستیؒ باہر تھے اور بہاولپور اسلامی مشن میں دورۂ تفسیر پڑھا رہے تھے۔ مولانا اجمل خان اور میں نے آپس میں مشاورت کی، مفتی صاحبؒ ہمارے سیکرٹری جنرل تھے اور امیر حضرت درخواستیؒ تھے، لیکن جمعیت کی قیادت مفتی صاحبؒ کی ہی سمجھی جاتی تھی، وہ جمعیت کے قائد کے طور پر گرفتار ہو گئے تو ہم نے کہہ دیا کہ جماعت کا ایک سربراہ ابھی باہر ہے دورۂ تفسیر پڑھا رہا ہے، ہم نے حضرت درخواستیؒ کے نام سے بیان بازی شروع کر دی۔ مجھے الحمد للہ یہ اعتماد حاصل تھا، سالہاسال تک ایسا ہوتا رہا کہ میں حضرت مفتی صاحبؒ، حضرت مولانا عبیداللہ انورؒ اور حضرت درخواستیؒ کی طرف سے بیان دے دیتا تھا اور وہ چھپ جاتا تھا۔ ایک دفعہ مفتی صاحبؒ نے صرف اتنا کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ بیان پوچھ کر دیا کرو۔ ہاں یہ کہتا ہوں کہ دے کر بتا دیا کرو کہ آپ کے نام سے یہ بیان دیا ہے۔ تو ہم نے جیل سے بندوبست کیا، بیان بھجوانے کا۔ کیسے کیا؟ یہ میں نہیں بتاتا کیونکہ اپنا طریقۂ واردات نہیں بتایا جاتا۔ بہرحال ہم نے بندوبست کر لیا، روزانہ حضرت درخواستیؒ کی طرف سے بیان جاتا اور صبح اخبارات میں چھپا ہوتا کہ آج یہ کرنا ہے، آج یہ کرنا ہے۔ تین دن بیان آیا اور چوتھے دن حضرت درخواستیؒ گرفتار کر لیے گئے۔ حضرتؒ کو کچھ پتہ نہیں کہ کیوں گرفتار کر رہے ہیں۔ چوتھے دن انہیں اسلامی مشن سے اٹھایا اور ریسٹ ہاؤس میں نظربند کر دیا، کسی کو کوئی پتہ نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اب ہم پریشان کہ اب کس کی طرف سے بیان دیں، پہلے تو ایک شخصیت تھی، خیر اتنے میں مذاکرات شروع ہوگئے، مذاکرات شروع ہوئے تو مفتی صاحبؒ نے شرط لگا دی کہ میرے امیر کو تم نے گرفتار کیا ہوا ہے اور مجھ سے مذاکرات کر رہے ہو، ان کو پہلے رہا کرو۔ پانچ دن کے بعد رہا ہوگئے، لیکن گرفتار ہم نے کروائے تھے۔ یہ اعتماد اور محبت کی کیفیت تھی جو ہمیں الحمد للہ حاصل رہی ہے اور آخر وقت تک حاصل رہی ہے۔ ان سے نیازمندی کا تعلق بھی تھا اور دوستی کا تعلق بھی تھا، آپس میں ہنسی مزاح بھی کر لیا کرتے تھے۔

ایک بات اور کہہ کر بات سمیٹتا ہوں، بے شمار باتیں ہیں، کئی لکھی بھی ہیں، کئی رہ بھی گئی ہیں۔ میرے ذاتی تعلق کی ایک بات۔ دو دفعہ ایسا ہوا ایک دفعہ لاہور میں اور ایک دفعہ گوجرانوالہ میں۔ ان کا یہ ذوق بھی تھا کہ علماء سے کسی نہ کسی چیز پر وعدہ لیتے تھے کھڑا کر کے۔ ہمارے ایک بزرگ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کندیاں شریف والے، بڑے اکابر میں سے تھے، ان کو میں نے کبھی تقریر کرتے نہیں سنا، مائیک پر بولتے نہیں تھے، بس دعا کر لیتے تھے، ہاں ایک دفعہ سنا ہے نصرۃ العلوم میں جلسہ تھا اور حضرت درخواستیؒ کا طریقہ یہ تھا، بہت سارے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے حضرت مفتی صاحبؒ، مولانا اجمل خانؒ، مولانا خواجہ خان محمدؒ، مولانا سراج احمد دینپوریؒ، مولانا محمد شاہ امروٹیؒ یہ سب اکابر بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت درخواستیؒ نے حضرت خواجہ خان محمدؒ سے کہا کھڑے ہو جاؤ، مائیک پہ آ کر کہو میرا نام خان محمد ہے، میں خانقاہ سراجیہ کا سجادہ نشین ہوں، میں جمعیت علماء اسلام کا ممبر ہوں، تحریک کا خادم ہوں، میں زندگی بھر شریعت کے نفاذ کی کوشش کرتا رہوں گا اور کبھی بے وفائی نہیں کروں گا۔ حضرت درخواستیؒ کہلواتے جا رہے ہیں اور وہ پیچھے پیچھے کہتے جا رہے ہیں، سب سے کہلوایا مولانا عبید اللہ انورؒ سے، مفتی عبد الواحدؒ سے، حضرت والدِ گرامی سے بھی کہلوایا، کہو میرا نام محمد سرفراز ہے، میں اس مدرسے کا شیخ الحدیث ہوں۔ یہ آپؒ کا طریقہ تھا۔

اور پھر دستاربندی کرتے تھے۔ یہ دستاربندی رسماً ہوتی تھی، دو موقع ایسے آئے ایک یہاں شیرانوالہ گوجرانوالہ میں لمبی تقریر فرمائی، پھر دوچار آدمیوں کو کھڑا کیا، رومال وغیرہ بندھوائے، پھر کہا راشدی والا کدھر ہے؟ میں حاضر ہوا تو رومال وغیرہ اور کوئی نہیں تھا اپنا رومال بھی کسی کو باندھ چکے تھے، الحمد للہ اپنے سر سے ٹوپی اتاری، میرے سر پہ رکھ دی، گرم ٹوپی تھی، سردیوں کا موسم تھا، فرمایا چلو تمہاری دستار بندی ہو گئی ہے۔ ابھی تک میں نے الحمد للہ برکت کے لیے رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ جامعہ مدنیہ لاہور میں علماء کی دستاربندی کروا رہے تھے، میں ساتھ ہی بیٹھا تھا لیکن میری باری آنے تک دستاریں ختم ہو گئیں تو اپنی کپڑے کی کڑھائی والی ٹوپی سر سے اتار کر میرے سر پر پہنا دی، وہ بھی میں نے ابھی تک رکھی ہوئی ہے۔ حضرتؒ اس ٹوپی کا تو جلسوں میں اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے کہ راشدی والوں کو ہم نے ٹوپی پہنا دی ہے وہ اب اڑتا پھر رہا ہے۔ الحمد للہ اس وقت سے میرا معمول ہے ہر جمعے کو پگڑی کے نیچے یہ ٹوپی پہن کر جمعہ پڑھاتا ہوں، اور دوسری ٹوپی بھی سردیوں میں کبھی کبھی تبرک کے لیے پہنتا ہوں۔

حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ ہمارے اکابر تھے، بڑے تھے، جن بزرگوں کے ساتھ ہم نے کچھ وقت گزارا ہے اب وہ سامنے نہیں ہیں، میں ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ ہمارے گرد ہجوم بڑھتا جا رہا ہے لیکن تنہائی بھی بڑھتی جا رہی ہے، یہ میرا زندگی کا سب سے بڑا تجربہ ہے۔ اپنے ذوق کے اپنے دائرے کے وہ بزرگ نہیں مل رہے۔ اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں آخر وقت تک ان کے ساتھ رفاقت نباہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter