گزشتہ روز مریدکے کی مسجد نمرہ میں اہل السنۃ والجماعۃ (کالعدم سپاہ صحابہؓ) کے زیر اہتمام شہداء دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی اور مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جلسہ منعقد ہوا جس میں مولانا شمس الرحمن معاویہؒ کے جانشین مولانا اشرف طاہر اور مولانا محمد قاسم گجر کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پر میں نے گزارش کی کہ شہداء راولپنڈی اور مولانا شمس الرحمن معاویہؓ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کی قربانیاں جس مقصد کے لیے ہوئی ہیں اس پر توجہ دی جائے اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کی محنت کی جائے۔ میں نے عرض کیا کہ سنی شیعہ کشیدگی کا دائرہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے اور اس کی سنگینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے حل کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے، میرے خیال میں پاکستان میں سنی شیعہ تنازعات کے اسباب بنیادی طور پر تین ہیں۔
- کسی جگہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ کی توہین اور اس پر رد عمل کے اظہار میں تنازعہ کی صورت بن جاتی ہے۔
- ماتمی جلوسوں کا کوئی نہ کوئی روٹ جھگڑے کا سبب بن جاتا ہے، اور
- پاکستان میں فقہ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک مستقل طور پر تنازعہ کا سبب بنی ہوئی ہے۔
جبکہ ان تینوں باتوں کو کامن سینس کے حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ یکطرفہ زیادتی دکھائی دیتی ہے۔ کسی بھی طبقہ کے بزرگوں کی توہین کسی مذہب کی جائز بنیاد نہیں ہے اور اس پر اصرار بلاوجہ ہٹ دھرمی کی بات ہے۔ کوئی جلوس اگر بالفرض عبادت بھی ہو تو اسے امن عامہ کے بگاڑ کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے اور اسے عبادت سمجھنے والوں کی عبادت گاہوں اور مراکز تک محدود رہنا چاہیے۔ اسی طرح ملک کی غالب اکثریت کے عقائد اور فقہ کے مقابلہ میں ایک اقلیتی فقہ کے نفاذ کے مطالبہ کا بھی کوئی اصولی یا اخلاقی جواز نہیں ہے۔
ان تینوں امور کے حوالہ سے رائے عامہ کو بیدار کرنے اور خاص طور پر رولنگ کلاس کو بریف کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مستقل فورم قائم ہونا چاہیے اور دینی جماعتوں کو اس طرف سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ گزشتہ روز حضرت مولانا ظفر احمد قاسم اور حضرت مولانا محمد نواز اس سلسلہ میں مشاورت کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم سے فون پر بات ہوئی۔ میں نے ان بزرگوں سے گزارش کی ہے کہ اس محاذ پر منظم اور مربوط محنت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لیے وفاق المدارس العربیہ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اداروں پر ذمہ داری ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم مسلک دینی اور مسلکی جماعتوں بلکہ تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار حضرات پر مشتمل ایک الگ اور مستقل فورم کا قیام ضروری ہے جو اس جدوجہد کو آگے بڑھا سکے۔
میری تجویز یہ ہے کہ سب سے پہلے سنی محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں مثلاً کالعدم سپاہ صحابہؓ، تنظیم اہل سنت اور تحریک خدام اہل سنت وغیر ذٰلک کو اس مسئلہ پر باہمی مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ دوسرے مرحلہ پر دیوبندی مسلک کی تمام جماعتوں کا مشاورتی اجلاس ان کی تحریک پر طلب کیا جائے اور پھر اس اجلاس کی عمومی مشاورت کی روشنی میں تمام دینی مکاتب فکر کا مشترکہ کنونشن بلا کر پاکستان میں اہل سنت کے عقائد و مفادات کے تحفظ اور رفض کی جارحیت کو روکنے کے لیے قومی سطح پر کوئی مضبوط فورم قائم کیا جائے۔
یہ کام بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے طریق کار اور ترجیحات کا صحیح ہونا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ ایک اور بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ کسی دوست نے مجھے ایک اخباری خبر کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مولانا زاہد الراشدی نے لال مسجد کے کیس میں بطور گواہ بیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے، اس کا ایک مرحلہ عدالت کمیشن کے سامنے پیش ہونا تھا، میں اس میں وفاق المدارس العربیہ سے ہٹ کر کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا، بلکہ وفاق کی قیادت کے بیان کو ہی اپنا بیان قرار دیا تھا۔ جبکہ دوسرا مرحلہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف تھانہ آب پارہ اسلام آباد میں درج قتل کیس کا ہے، مجھ سے اس سلسلہ میں دو روز قبل تھانہ آب پارہ کے ایس ایچ او جناب افتخار چٹھہ صاحب نے فون پر بات کی ہے اور میں نے ان سے کہا ہے کہ چونکہ میں لال مسجد کے معاملات میں وفاق المدارس العربیہ کے وفد کے رکن کے طور پر شریک ہوا تھا اس لیے اس سلسلہ میں وہی کروں گا جو وفاق کہے گا، اگر وفاق المدارس کی طرف سے مجھے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے کہا جائے گا تو بیان دوں گا ورنہ میری طرف سے معذرت ہے۔ اس لیے اس حوالہ سے کسی اخبار میں شائع ہونے والی مذکورہ خبر ادھوری ہے اور ڈس انفرمیشن کی کارستانی معلوم ہوتی ہے۔