بخاری شریف اور حدیث کی دیگر مستند کتابوں میں روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کو عام راستوں اور گزرگاہوں میں بیٹھنے اور مجلس لگانے سے منع فرما دیا۔ اس پر بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارا اس کے بغیر گزارہ نہیں کیونکہ کوئی ملنے کے لیے آئے تو بسا اوقات گھر میں بٹھانے کی جگہ نہیں ہوتی اور باہر کھلے راستے میں گفتگو کرنا پڑ جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر یہ مجبوری ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا (۱) نگاہیں نیچی رکھو (۲) سلام کا جواب دو (۳) راستے میں کوئی تکلیف دہ چیز پڑی ہو مثلاً اینٹ، پتھر یا چھلکا وغیرہ تو اسے وہاں سے ہٹا دو (۴) کوئی آدمی راستہ بھول گیا ہو تو اس کی رہنمائی کرو (۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو یعنی نیکی کی تلقین اور برائی سے روک ٹوک کرتے رہو۔ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک مسلمان کی ان دینی ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے بارے میں نبی کریمؐ نے راہ چلتے ہوئے بھی ضرورت محسوس ہونے پر اسے ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
بخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق حضرت جریر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے وہ جب رسول اکرمؐ کی خدمت میں مسلمان ہونے کے لیے حاضر ہوئے اور آپؐ کے دست مبارک پر بیعت کی تو جناب رسالت مآبؐ نے بیعت کی شرائط میں ’’والنصح لکل مسلم‘‘ کو بھی شامل فرما دیا کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرو گے اور خیرخواہی کی سب سے زیادہ عملی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کو نقصان اور ضرر سے بچا لیا جائے اور نفع و نقصان کے حوالے سے اس کی رہنمائی کی جائے۔ یہ نفع و نقصان دنیا کا بھی ہوتا ہے اور آخرت کا نفع و نقصان بھی اس میں شامل ہے بلکہ وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن چونکہ مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب و ثقافت نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اس لیے ہمارے ذہنوں میں نفع و نقصان کا وہی تصور رسائی حاصل کر پاتا ہے جس کا تعلق دنیا کے مفادات سے ہو جبکہ آخرت کے نفع و نقصان کا تصور ذہنوں سے رفتہ رفتہ نکلتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی دوست، پڑوسی، محلہ دار یا ملنے جلنے والے سے اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے اس پہلو سے بات کرتا ہے کہ اس کی فلاں بات اس کے کاروبار کے لیے نقصان دہ ہے یا اس کے کسی اور مفاد کے لیے ضرر رساں ہے، تو اسے قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے قابل تعریف ہونے میں ہمیں بھی کوئی کلام نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست، ساتھی اور واقف کار کو آخرت کے نفع و نقصان کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا فلاں عمل قبر میں اس کے لیے مشکلات پیدا کرے گا، آخرت میں اس کے لیے نقصان دہ ہو گا اور اسے جہنم میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا تو اسے نہ صرف یہ کہ غیر ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات دقیانوسیت کی علامت بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔
اسی طرح مغربی ثقافت کے زیر اثر یہ تصور بھی ہمارے ذہنوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے کہ شخصی آزادی کے تحت آپ کو کسی دوسرے شخص کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، وہ جو کچھ بھی کرے، اگر آپ کا کوئی اپنا مفاد اور حق اس سے مجروح نہیں ہوتا تو آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس کے ساتھ روک ٹوک کا معاملہ کریں۔ جبکہ اسلام شخصی آزادی کے اس مفہوم کو تسلیم نہیں کرتا اور ہر مسلمان کے لیے یہ بات لازم کرتا ہے کہ اگر وہ کسی شخص کو کوئی ایسا عمل کرتا دیکھے جو معاشرے کے لیے ضرر رساں ہو، حتٰی کہ اگر خود عمل کرنے والے کا بھی اس میں دنیا یا آخرت کا نقصان نظر آرہا ہو، تو دیکھنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اسے ٹوکے، سمجھائے اور اسے اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ اس معاملہ میں اسلام کی تعلیمات شخصی آزادی کے مغربی تصور سے قطعی طور پر مختلف ہیں کیونکہ قرآن و سنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مسلمانوں کے باہمی حقوق بلکہ فرائض میں شامل کیا گیا ہے اور بیسیوں آیات و احادیث میں اس کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔ حتٰی کہ قرآن کریم میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جب بنی اسرائیل کو ایک بار پوری دنیا پر فضیلت دیے جانے کے بعد ان کی حرکات کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا تو ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے لعنت نازل ہونے کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ ’’کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ‘‘ انہوں نے برائیوں کے ارتکاب پر ایک دوسرے کو روکنے اور منع کرنے کا عمل ترک کر دیا تھا، سوسائٹی میں برائی کے اعمال کھلے بندوں ہوتے تھے مگر باہمی روک ٹوک کا ماحول باقی نہیں رہا تھا۔ قرآن کریم نے مذکورہ آیت میں اس طرز عمل کو کسی بھی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ہونے کا باعث بتایا ہے۔
اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث مبارکہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ماحول ختم ہو جانے کو معاشرتی فساد اور خرابیوں کا ذریعہ بتایا ہے اور حکم دیا ہے کی نیکیوں کی باہمی تلقین اور برائیوں پر روک ٹوک کا سلسلہ جاری رکھو ورنہ اس پر جو خدائی عذاب آتا ہے وہ صرف غلط اعمال کرنے والوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔