بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دینی مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس کا ہماری عملی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ یعنی ہمیں اپنی پریکٹیکل لائف میں دینی تعلیم کی کہاں کہاں ضرورت پڑتی ہے اور کس کس جگہ یہ ہمارے کام آتی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنی ذات کی پہچان کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم کوئی چیز دنیا میں دیکھتے ہیں تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے، کیوں ہے اور کس نے بنائی ہے? ایک قلم کی مثال لے لیں۔ پہلی بات تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ قلم کس چیز سے بنا ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ پلاسٹک، اسٹیل یا کسی اور دھات سے بنایا گیا ہے۔ دوسری بات یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا مقصد کیا ہے اور بنانے والے نے اسے کیوں بنایا ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بنانے والے نے اسے لکھنے کے لیے بنایا ہے تا کہ ہم اپنے خیالات کو کاغذ وغیرہ پر تحریر کر سکیں۔ تیسری بات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ قلم کس کمپنی کا بنا ہوا ہے۔ اس سے ہمیں یہ اعتماد حاصل ہوتا ہے کہ ہم کس معیار کی چیز استعمال کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان تین باتوں کے پتہ چلنے سے ایک چیز کے ساتھ ہماری پہچان مکمل ہوتی ہے۔
دنیا میں انسان کی پہچان
اسی طرح اپنی ذات کے حوالے سے بھی ان تینوں سوالات کا جواب ہمارے لیے ضروری ہے۔ یعنی یہ کہ ہم کیا ہیں، کیوں ہیں اور ہمیں کس نے بنایا ہے۔ پہلی بات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم مادی اعتبار سے کیا ہیں، کس چیز سے بنے ہوئے ہیں اور ہم کام کیسے کرتے ہیں وغیرہ۔ اس کا جواب تو ہمیں میڈیکل سائنس دیتی ہے اور بڑی تفصیل کے ساتھ دیتی ہے۔ لیکن دوسری بات کہ ہم کیوں ہیں، اس کا جواب سائنس کے کسی شعبے کے پاس نہیں ہے۔ اور پھر تیسری بات کہ ہمیں بنایا کس نے ہے، اس سوال کا جواب بھی دنیا کا کوئی علم نہیں دیتا۔
میں نے عرض کیا کہ یہ جو دینی تعلیم ہے یعنی قرآن مجید اور حدیث نبوی کی شکل میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات، ان کی ضرورت تو سب سے پہلے مجھے اپنی ذات کی پہچان حاصل کرنے میں پڑتی ہے۔ اس کے بغیر میں دنیا میں اپنی پہچان اور اپنا تعارف مکمل نہیں کر سکتا کہ میں کیا ہوں، کیوں ہوں اور مجھے کس نے بنایا ہے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ دنیا کے جتنے علوم و فنون ہیں یہ بہرحال ہماری ضرورت ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی، بیالوجی اور سوشیالوجی وغیرہ ان میں سے کسی چیز سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن ان کا دائرہ میری اس دنیوی زندگی تک محدود ہے۔ اب یہ میری زندگی دس منٹ باقی ہے، دس گھنٹے باقی ہے یا دس سال باقی ہے، ان کی ضرورت بہرحال مجھے میری زندگی کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ہے۔ جبکہ آنکھ بند ہونے کے بعد ان میں سے کوئی فن اور علم میرے کسی کام کا نہیں ہے۔ حالانکہ اسلامی عقیدے کے مطابق میری زندگی صرف آنکھ بند ہونے تک نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بھی میری زندگی ہے۔ اس سے آگے برزخ بھی ہے، حشر بھی ہے، پل صراط بھی ہے، جنت بھی ہے، اور اللہ نہ کرے جہنم بھی ہے۔ لہذٰا میری جو اصل زندگی اور مستقبل ہے اس کے حوالے سے مجھے جو تعلیم، معلومات اور رہنمائی ملتی ہے تو قرآن و حدیث کی شکل میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے ملتی ہے۔
روح کی صحت
میں بحیثیت ایک جاندار جسم اور روح کا مرکب ہوں۔ مجھے ایک فرد کے طور پر اس دنیا کی زندگی بسر کرنے کے لیے جہاں اپنے جسم کی خوراک کی ضرورت ہے وہاں مجھے اپنی روح کی خوراک کی بھی ضرورت ہے۔ انسان صرف جسم ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ دو چیزوں یعنی جسم اور روح پر مشتمل ہے۔ اسی لیے کہ جب روح کا تعلق جسم سے الگ ہو جاتا ہے تو کوئی بھی خالی جسم اپنے گھر پر رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ نہ بیٹا اپنے باپ کے جسم کو گھر پر رکھتا ہے،نہ باپ اپنے بیٹے کو رکھتا ہے، نہ بیوی خاوند کو رکھتی ہے اور نہ خاوند اپنی بیوی کے جسم کو گھر پر رکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ زندگی نام ہے جسم اور روح کے کنکشن کا۔ جیسے ہی کنکشن منقطع ہوتا ہے گھر والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جلدی سے جلدی مرنے والے کو گھر سے فارغ کیا جائے۔
دنیا کے جتنے اسباب ہیں اور جتنی تعلیمات ہیں ان سب کا تعلق میرے جسم کی ضروریات سے ہے۔ ان ضروریات سے انکار نہیں ہے لیکن ان کا دائرہ کار واضح کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس سوال پر دنیا کا کوئی علم بات ہی نہیں کرتا کہ میری روح کی ضروریات کیا ہیں۔ یہ کسی یونیورسٹی کا سبجیکٹ نہیں ہے اور کسی کالج کا موضوع نہیں ہے کہ آخر میری روح کی بھی کوئی ضروریات ہیں یا نہیں، اور اگر ہیں تو کہاں سے پوری ہوں گی۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ جیسے ایک موبائل فون ہے۔ موبائل سیٹ کی ضرورت یہ ہے کہ اس کی چارجنگ ہوتی رہے، جبکہ اس کے کنکشن کی ضرورت یہ ہے کہ اسے بیلنس ملتا رہے۔ اب میرے پاس بہت اچھا موبائل فون ہو اور میں اسے پابندی کے ساتھ چارج بھی کرتا رہوں لیکن اس میں سم اور بیلنس نہ ہو تو وہ میرے کسی کام کا نہیں ہے۔ چنانچہ موبائل سیٹ اور کنکشن دونوں کی اپنی اپنی ضروریات ہیں۔ جس طرح فون سیٹ کو چارجنگ ملنی چاہیے اسی طرح کنکشن کو بیلنس ملنا چاہیے۔ اسی طرح روح اور جسم دونوں کی اپنی اپنی ضروریات ہیں۔ دنیا کے علوم ہمیں جسم کی خوراک کے حوالے سے تفصیلاً بتاتے ہیں کہ کس قسم کے جسم کے لیے کون سی خوراک کس مقدار میں ضروری ہے۔ لیکن روح کی ضروریات کہاں سے پوری ہوتی ہیں، روح کو بیلنس کہاں سے ملتا ہے، روح کا سکون کس چیز میں ہے اور یہ کہ روح کو اپنی مرضی کا ماحول کیسے میسر آتا ہے، یہ آج کی کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی کا موضوع نہیں ہے۔ یہ قرآن و سنت کا موضوع ہے، آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کا موضوع ہے۔ کسی زمانے میں یہ بات توراۃ بتایا کرتی تھی اور کسی زمانے میں انجیل، لیکن اب قرآن کریم بتاتا ہے کہ میری روح کی ضروریات کیا ہیں اور کہاں سے پوری ہوں گی۔
نشے کا سکون
ڈپریشن یا ٹینشن جسے ہم بے سکونی کہتے ہیں، یہ آج دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ تقریباً ہر انسان کسی نہ کسی سطح پر اس سے دوچار ہے۔ ہم اصل منبع سے ہٹ کر جب اِس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم مصنوعی سہاروں کی طرف جاتے ہیں۔ سب سے بڑا سہارا آج کی دنیا میں نشہ ہے، لوگ بے سکون ہوتے ہیں تو نشے کی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا کا ایک بڑا حصہ نشہ کیوں کرتا ہے؟ اس اضطراب کے ماحول سے کچھ دیر سکون کے لیے۔ ایک مشہور شعر کا مفہوم یہ ہے کہ
یعنی کچھ دیر ماحول سے کٹنے کے لیے پیتا ہوں تا کہ یہ ٹینشن ڈپریشن مصیبت پریشانی، ان سے کچھ دیر الگ رہ کر تھوڑا فریش ہو جاؤں۔ نشے کا پس منظر اور مقصد یہی ہے کہ تھوڑا سا ماحول سے کٹ کر کچھ دیر سکون حاصل کرنا۔ مغرب کی مخلوط سوسائٹی کے لیے تو یہ مستقل طور پر ایک مجبوری بن گئی ہے۔ میں نے ایک دفعہ ایک رپورٹ پڑھی کہ یہاں امریکہ میں ۱۹۲۴ ء تک شراب قانوناً جرم تھی۔ کانگریس کے طے شدہ قانون کے مطابق شراب جرم تھی، اس پر سزا تھی اور یہ قابل تعزیر جرم تھا۔ مگر شراب یہاں حرام و جرم سے حلال و جائز میں کیسے بدلی اس کا ایک عجیب پس منظر ہے۔ ہوا یوں کہ پولیس نے رپورٹ دی کہ شراب کے استعمال کو کنٹرول کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک چیز جرم ہے لیکن اس پر قابو پانا ہمارے بس سے باہر ہے کیونکہ لوگ مجبور ہیں وہ پیتے ہیں اور چھوڑ نہیں سکتے۔ چنانچہ بالآخر اس وجہ کی بنیاد پر کہ اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے جواز فراہم کر دیا جائے۔ یہ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۰ء کے درمیان کی کشمکش ہے۔ اسی طرح آج کل یہ بحث چل رہی ہے کہ یہ جو چرس اور افیون ہے چونکہ لوگ اسے چھوڑ نہیں رہے اور یہ کہ اس کے استعمال پر پابندی ہمارے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے چند شرائط کے ساتھ اسے بھی قانونی جواز فراہم کر دیا جائے۔
نفسیاتی علاج
میں عرض کر رہا تھا کہ یہ سارا کچھ وقتی سکون حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ چند لمحے ڈیپریشن اور ٹینشن سے فرار کے لیے ہم نے یہ مصنوعی حربے اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم بہت زیادہ مہذب طریقہ اختیار کریں گے تو سائیکالوجسٹ کے پاس چلے جائیں گے۔ ہمارے پاس نشے کا متبادل حل ماہر نفسیات کے پاس جانا ہے۔ اس پربھی میں نے ایک رپورٹ پڑھی کہ یہ سائیکالوجسٹ مغربی دنیا کا لازمی حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن مسلم دنیا میں یہ بہت کم ہوتے ہیں۔ یہاں کے دانشور زندگی کے مسائل پر بڑی تحقیق کرتے ہیں اور بات کی باریکی تک جاتے ہیں۔ تو یہ ایک مسئلہ بھی ان کے ہاں زیر بحث ہے کہ نفسیاتی علوم اور سائیکالوجی مغرب دنیا کا تو ایک لازمی حصہ ہیں لیکن مسلم دنیا میں یہ بہت کم ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مسلم دنیا والوں کو ماحول سے کٹنے اور تازہ دم ہونے کے لیے مسجد مل جاتی ہے، سال میں رمضان کا ایک پورا مہینہ مل جاتا ہے، صاحب حیثیت لوگ حرمین شریفین میں چند دن گزار آتے ہیں، یا پھر کچھ لوگ تبلیغی جماعت کے ساتھ چلے جاتے ہیں، تین دن، دس دن، چالیس دن کے لیے۔ اس سے انہیں اپنے روز مرہ کے اضطراب و ڈیپریشن کے ماحول سے کٹنے کا موقع ملتا ہے۔ تو جہاں یہ دانشور اور وجوہات بتاتے ہیں وہاں یہ کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کے لوگوں کو اپنے مذہبی طرزِ زندگی کی وجہ سے ماہر نفسیات کی ضرورت نہیں پڑتی۔
دنیاوی علوم والوں کے ہاں ہر قسم کی بے سکونی اور ڈپریشن کا تعلق جسم سے ہے۔ جبکہ ہمارے عقیدے کے مطابق جسمانی بے آرامی کا تعلق جسم سے جبکہ نفسیاتی بے سکونی کا تعلق روح سے ہے۔ ان کے ہاں نفسیاتی بے سکونی کا علاج نشہ اور ماہر نفسیات ہیں۔ وہ روح کی بیماریوں کا علاج بھی ان چیزوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے جسم کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں روح کی بیماری اور بے سکونی کا علاج اللہ کا ذکر، دینی احکامات پر عمل، خیر خواہی اور نیکی کے کام ہیں۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب ( القرآن) بے شک اللہ کے ذکر میں دلوں کا سکون ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ دنیا کے اسباب میں سکون تلاش کرتے ہیں، یہ اسباب بھی میرے پیدا کردہ ہیں اور سکون و اطمینان کا منبع بھی میں ہوں۔
ایک بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ بڑی سے بڑی ڈیپریشن اور بڑے سے بڑے اضطراب پربھی پا لیتا ہے۔ پہلی چیز تقدیر کا عقیدہ ہے کہ بڑے سے بڑا سانحہ بھی ہو جائے تو ایک مسلمان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اللہ کو یوں ہی منظور تھا، جب مسلمان اس نکتے پر آتا ہے تو اس کی بڑی سے بڑی پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔ اور دوسری چیز ہے مذہبی طرزِ زندگی، مسجد کا ماحول، قرآن مجید کی تلاوت، اللہ کا ذکر اور نماز و روزہ وغیرہ۔ کہتے ہیں کہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ ایک مسلمان بڑی سے بڑی مشکل، بڑی سے بڑی ڈیپریشن اور ٹینشن پر بھی قابو پا لیتا ہے۔
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے لوگ مصنوعی سہارے تلاش کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی نشہ کا راستہ اختیار کرتا ہے جبکہ ایک پڑھا لکھا اور سمجھدار آدمی سائیکالوجسٹ کے پاس چلا جاتا ہے۔ یہ بہرحال مصنوعی اور وقتی حل ہیں۔ اصل حل تو روح کا سکون ہے جو اللہ کی یاد میں ہے اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے میں ہے۔ چنانچہ یہ دنیاوی علوم میری روح کے سکون کا کوئی طریقہ نہیں بتلاتے، میری روح کے سکون کا اصل حل مجھے دینی تعلیم سے ہی ملتا ہے ۔ میری یہ ضرورت قرآن مجید کے ذریعے اور نبی کریمؐ کے ارشادات کے ذریعے سے پوری ہوتی ہے۔
گھروں میں بے برکتی کاماحول
ہمارے ہاں یہ شکایت عام ہے کہ گھروں میں پہلے والا سکون پہلے والا اعتماد پہلے والا باہمی تعلق پہلے والی محبت نہیں رہی اور دنیاوی آسائش کا ہر سامان میسر ہونے کے باوجود پہلے والی برکت نہیں رہی۔ گھروں میں اسباب بڑھتے جار ہے ہیں لیکن سکون کم ہوتا جا رہا ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم پاکستانی ایک عجیب قوم ہیں۔ ہم نے دنیا میں کسی اور بات میں ترقی کی ہو یا نہ کی ہو لیکن دو باتوں میں ہم نے بہت ترقی کی ہے، جس میں شاید کوئی اور قوم ہمارا مقابلہ نہ کر سکے۔ وہ یہ کہ ہم میں سے ہر ایک بندہ مفتی ہے اور ہر ایک بندہ ڈاکٹر ہے۔ دس آدمیوں کی موجودگی میں کوئی دینی مسئلہ چھیڑ دیں تو آپ کو دس کی بجائے بارہ فتوے ملیں گے اور پھر ہر ایک کا اصرار ہوگا کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اور اسی طرح ہر بندہ حکیم ہے۔ چند آدمیوں کی موجودگی میں کسی بیماری کا نام لے لیں جتنے آدمی موجود ہوں گے اس سے زیادہ آپ کو نسخے مل جائیں گے۔ اور پھر ہر نسخہ بتانے والا ضد کرے گا کہ اسی کے بتائے ہوئے نسخے کو استعمال میں لایا جائے۔ ہم خود ہی تشخیص کرتے ہیں اور خود ہی علاج کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہم خود کفیل ہیں، فتوؤں میں بھی اور نسخوں میں بھی۔ چنانچہ ہم نے اپنی گھریلو پریشانیوں کی بھی خود ہی تشخیص کر رکھی ہے۔
لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مولوی صاحب گھریلو مسائل بڑھ رہے ہیں، رشتوں میں رکاوٹ پڑ رہی ہے، کاروبار پہلے جیسا نہیں رہا، یہ مسئلہ ہے اور فلاں مسئلہ ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کسی نے کچھ (جاود وغیرہ) کر دیا ہے، اِس لیے اب آپ بھی کچھ کریں۔ اب مولوی صاحبان کچھ عمل کرتے بھی ہیں اور علاج کے لیے کچھ تجویز بھی کرتے ہیں۔ جادو وغیرہ سے انکار نہیں ہے ان کے اثرات ہوتے ہیں لیکن میں اس بات پر غور کی دعوت دینا چاہ رہا ہوں کہ کیا سارا کچھ یہی ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اصل سبب کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میرے گھر میں فرشتوں کا آنا جانا ہوگا تو میرے گھر پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ برکت و رحمت آئے گی اور سکون آئے گا۔ اس لیے کہ فرشتے اعتماد و محبت اور برکتیں لے کر آتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں اگر شیطانی مخلوق کا میرے گھر میں آنا جانا ہوگا تو لامحالہ طور پر اس کے الٹے اثرات ہوں گے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بڑے شیطان نے پانی پر تخت بچھا رکھا ہے اور اس پر بیٹھا حکومت کر رہا ہے۔ شیطان کے کارندے دنیا میں جاتے ہیں کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر واپس آکر اسے رپورٹ دیتے ہیں۔ ایک آتا ہے اور بتاتا ہے کہ میں نے فلاں جگہ جا کر یہ کام کیا، شیطان اسے شاباش دیتا ہے۔ دوسرا آتا ہے کہ میں نے فلاں شہر میں جا کر یہ حرکت کی ہے، اسے بھی شاباش ملتی ہے۔ لیکن بڑے شیطان کے دربار میں سب سے زیادہ شاباش کس کو ملتی ہے؟ ایک کارندہ آتا ہے اور بتاتا ہے کہ میں فلاں گھر گیا اور وہاں اتنا جھگڑا ڈالا کہ میاں بیوی میں طلاق ہوگئی۔ جناب رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ ابلیس اپنے تخت پر کھڑا ہوتا ہے، اسے اپنے سینے سے لگاتا ہے اور اس کی پشت تھپتھپاتا ہے کہ اصل کام تم نے کیا ہے۔
میں اس وقت صرف یہ فرق عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فرشتوں کا گھر میں آنا جانا ہوگا تو محبت ہوگی اعتماد ہوگا برکتیں ہوں گی رحمتیں ہوں گی اور سکون ہوگا۔ لیکن اگر شیاطین کا گھر میں آنا جانا ہوگا تو جھگڑے ہوں گے بے اعتمادی ہوگی بے سکونی ہوگی فساد ہوگا اور پھر طلاقیں ہوں گی۔ فرشتوں کے اپنے اثرات ہیں اور شیاطین کے اپنے اثرات ہیں۔ مجھے اور آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے گھروں کا ماحول کن کے آنے جانے کا ماحول ہے؟ میں نے اپنے گھر کے ماحول کو فرشتوں کے آنے جانے والا بنا رکھا ہے یا شیطانی مخلوق کے آنے جانے والا بنا رکھا ہے۔ اب یہ کام تو میرا ہے کہ میں نے دعوت کس کو دینی ہے۔ فرشتے تو بڑی حساس اور نازک مزاج مخلوق ہیں۔ جناب نبی کریم ؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ فرشتہ آتا ہے اور دروازے کے اندر جھانکتا ہے، اگر مطلب کے خلاف کوئی بات ہو تو وہیں سے واپس چلا جاتا ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ میری مجلس میں پیاز اور لہسن وغیرہ کھا کر مت آیا کرو، میری فرشتوں سے سرگوشیاں رہتی ہیں انہیں اس سے ناگواری ہوتی ہے۔ فرشتوں کے بھی درجات ہیں۔ حضورؐ کے پاس آنے جانے والے فرشتے بھی ظاہر ہے حضورؐ کے معیار کے ہوں گے۔ تو حضورؐ نے فرمایا کہ فرشتے گھر کے اندر خلاف مطلب بات دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ بڑی سادہ اور کامن سینس کی بات ہے کہ میرے گھر میں آنے جانے والے شریف لوگ ہوں گے تو میرے گھر کا شمار باعزت اور شریف گھروں میں ہوگا۔ لیکن اگر میرے گھر میں غنڈوں اور بدمعاشوں کا آنا جانا ہوگا تو ظاہر سی بات ہے میرے گھر کی پہچان بھی ویسی ہی ہوگی۔
مسجدِ بیت اور گھر میں نماز کا ماحول
جناب سرور کائناتؐ کا ارشادِ گرامی ہے البیت الذی لیس فیە شیء من القرآن کالبیت الخرب، او کما قال صلی اللّٰە علیە وسلم کہ جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کا ماحول نہیں ہے وہ اجڑا ہوا گھر ہے۔ یعنی جس گھر کی چار دیواری میں اللہ کا کلام نہیں پڑھا جاتا وہ اصل میں ایک بے آباد گھر ہے۔ اور ایک حدیث میں حضورؐ نے یوں ارشاد فرمایا صلوا فی بیوتکم ولا تجعلوھا قبورًا گھروں میں (بھی) نماز پڑھا کرو، اور گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔
گھر میں نماز کا ماحول رہنا چاہیے اور مرد عورتیں اور بچے سب کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنی چاہیے۔ پرانے زمانوں میں ’’مسجدِ بیت‘‘ ہمارے گھروں کا ایک حصہ ہوا کرتی تھی۔ اب کلچر بدل گیا ہے اور اس کے ساتھ ہمارے گھروں کا ماحول بھی بدل گیا ہے۔ آج کل ہم گھر ڈیزائن کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ پلاننگ کرتے ہیں کہ ہمارا ٹی وی لاؤنج کہاں ہوگا۔ پھر اس کے ارد گرد باقی چیزیں سوچتے ہیں کہ بیڈ روم اِدھر ہوں گے اور ڈرائنگ روم اُدھر ہوگا وغیرہ۔ پرانے زمانے میں گھر تعمیر ہوتے تھے تو پہلے یہ دیکھا جاتا تھا کہ ’’مسجد بیت‘‘ گھر کے کس حصے میں ہوگی۔ یعنی گھر کی ایک جگہ مخصوص ہوتی تھی جہاں گھر والے خصوصاً عورتیں اپنی سہولت کے مطابق نمازیں پڑھتی تھیں۔ مکہ مکرمہ میں سب سے پہلی مسجد بیت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بنائی تھی جس پر ان کا مشرکین مکہ کے ساتھ لمبا جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں اس وقت اس قصہ کی تفصیل میں نہیں جاتا۔ مختصراً یہ کہ محلے دار مشرکین نے اس مسجد پر اعتراض کیا، اس کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ ہجرت کر کے وہاں سے نکل گئے لیکن ایک سردار ابن دغنہ انہیں راستے سے واپس لایا اور ان کا مشرکین کے ساتھ معاہدہ کروایا وغیرہ۔ بہرحال سب سے پہلی مسجد بیت حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے گھر کے دروازے کے ساتھ اپنی نماز کے لیے بنائی تھی۔ مسجدِ بیت ہمارے مسلم معاشرے کا ایک مستقل حصہ ہوا کرتی تھی۔
بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عتبان ابن مالک انصاریؓ نے جناب نبی کریمؐ سے ذکر کیا کہ یا رسول اللہ میں اپنے گھر میں نماز کے لیے ایک جگہ مخصوص کرنا چاہتا ہوں آپؐ میرے گھر آکر دو رکعت نماز پڑھا دیں اس سے برکت ہو جائے گی اور میں اس جگہ کو نماز کے لیے مخصوص کر لوں گا۔ چنانچہ حضورؐ تشریف لے گئے۔ گھر میں نفل نماز پڑھنے سے گھر میں نماز کا ماحول بنتا ہے۔ حضورؐ کے ارشاد کے مطابق جس گھر میں نماز کا ماحول نہ ہو وہ گھر نہیں در اصل قبرستا ن ہے۔ بہرحال یہ گھروں میں نماز کے لیے مسجد کی ایک جگہ مخصوص کرنا ہماری مسلم ثقافت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
فقہاء کی باریک بینی
حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ صلوا فی بیوتکم ولا تجعلوھا قبورا کہ گھروں میں (بھی) نماز پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ فقہاء کرام یہ کہتے ہیں کہ مرد کے لیے فرض نماز کا ثواب مسجد میں زیادہ ہے جبکہ نفل نماز کا ثواب گھر میں زیادہ ہے۔ یہاں فقہاء ایک شرط بھی لگاتے ہیں کہ یہ اس کے لیے ہے جس کے لیے گھر میں پڑھنا آسان ہو۔اور جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ کسی وجہ سے گھر میں نہیں پڑھ سکے گا اسے چاہیے کہ وہ مسجد میں ہی مکمل نماز پڑھے۔
فقہاء کرام نکتہ رسی کرتے ہیں اور ایک معاملے کے سارے پہلو دیکھتے ہیں۔ جہاں کوئی شرط لگانی ہوتی ہے وہاں شرط لگاتے ہیں اور جہاں رخصت دینی ہوتی ہے وہاں رخصت دیتے ہیں۔ اب یہ شرط آپ کو قرآن میں تو نہیں ملے گی لیکن فقہاء کا کام یہ ہے کہ وہ عملی زندگیوں کا مشاہدہ کر کے یہ بات دیکھتے ہیں کہ کونسا شخص کس طریقہ پر عمل کر کے شرعی احکامات کی بجا طور پر پیروی کر سکے گا۔ اسی طرح کی ایک اور مثال ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ وتر نماز کا ثواب عشاء کے فوراً بعد پڑھنے کے بجائے تہجد کی نماز کے ساتھ پڑھنے میں زیادہ ہے۔ لیکن فقہاء نے یہاں بھی ایک شرط لگائی لمن یثق بالانتباہ کہ یہ اس شخص کے لیے ہے جس کا جاگنے کا معمول ہو۔ لیکن جس شخص نے فجر کی نماز میں بھی دوسری رکعت میں شامل ہونا ہے وہ وتر کی نماز رات کو ہی پڑھ کر سوئے۔
جادو یا اپنی بد عملی ؟
اب میں اپنی اصل بات کی طرف واپس آتا ہوں کہ گھر میں اجاڑ تو میں خود پیدا کروں اور گھر کو خود اپنے اعمال سے قبرستان بناؤں اور پھر جا کر مولوی صاحب سے شکایت کروں کہ مولوی صاحب ہمارے گھر میں کسی نے کچھ کر دیا ہے۔ اور یہ کہ ہمارے گھر میں پیار محبت نہیں ہے برکت نہیں ہے اور ہماری زندگی میں سکون نہیں ہے۔ اب یہ مولوی صاحب کا کام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو یہ بات بتائیں کہ بھئی کسی نے کچھ نہیں کیا سب کچھ تو خود ہمارے اعمال سے ہوتا ہے۔ میں اپنے پاکستان کے ماحول کے بارے میں ایک سادہ سی مثال دیا کرتا ہوں۔ ذرا غور فرمائیں کہ اگر میرا گھر صاف ستھرا ہو غسل خانہ بھی صاف ہو نالیاں بھی صاف ہوں اور گھر کے صحن میں ایک کیاری لگی ہو جس میں پھول کھلے ہوں تو آپ کے خیال میں میرے گھر میں کون آئے گا؟ ظاہر بات ہے کہ میرے گھر میں تتلیاں آئیں گی جگنو آئیں گے اور ننھے منے خوبصورت پرندے آئیں گے جس سے ایک خوشگوار ماحول بنے گا۔ لیکن اس کے برعکس اگر میرے گھر کا غسل خانہ صاف نہ ہو، نالیاں گندی ہوں اور صحن میں گند بکھرا ہو تو اس صورت میں میرے گھر میں کون آئے گا؟ ظاہر ہے تتلیاں اور جگنو تو نہیں آئیں گے بلکہ مکھیاں ہوں گی مچھر ہوں گے کیڑے مکوڑے اور مینڈک وغیرہ ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ غلاظت کی یہ سب چیزیں میرے گھر میں کس نے بھیجی ہیں؟ اب میرے گھر میں کیڑے مکوڑے پھر رہے ہوں اور مینڈک ٹرّا رہے ہوں اور میں جا کر مولوی صاحب سے شکایت کروں کہ مولوی صاحب کسی نے محلے کے سارے کیڑے اور مینڈک میرے گھر میں بھیج دیے ہیں۔ مولوی صاحب یہی بتائیں گے کہ بھائی کسی نے نہیں بھیجے، انہیں تو آپ نے خود اپنے گھر میں دعوت دی ہے۔
چنانچہ میرے گھر میں اگر قرآن مجید کی تلاوت ہوگی نماز ہوگی ذکر ہوگادرود شریف کا ورد ہوگا اور خیر کی باتیں ہوں گی تو میرے گھر میں فرشتے اللہ کی رحمت لے کر آئیں گے۔ لیکن اگر میرے گھر میں دوسرا معاملہ ہوا تو ظاہر ہے شیطان اور اس کے کارندے آئیں گے۔ اور فرشتوں یا شیاطین میں سے جو بھی میرے گھر آئے گا اس کے میرے گھر پر اثرات ہوں گے۔
میں اپنے اصل نکتے کی طرف واپس آتے ہوئے ایک مثال اور پیش کرتا ہوں۔ یہ دیکھیں کہ اگر مجھے اپنا گھر ڈیزائن کروانا ہے تو میں ایک نقشہ نویس اور اچھا سا انجینئر تلاش کروں گا۔ یہ لوگ مجھے میری مرضی کا گھر ڈیزائن کر کے دے دیں گے اور اس میں میری مرضی کی ڈیکوریشن وغیرہ کی ساری چیزیں بھی ہوں گی۔ جب گھر بن جائے گا تو یہ لوگ مجھے بتائیں گے کہ مجھے اپنے گھر کی کس طرح دیکھ بھال کرنی ہے تاکہ اس کی مرمت کی ضرورت کم سے کم پیش آئے اور میرا گھر تا دیر اچھی حالت میں قائم و دائم رہے۔ اب یہ سوچیں کہ اسی طرح اگر مجھے اپنے گھر میں اللہ کی رحمت اور برکت کا ماحول چاہیے تو اس کے لیے میں کسے تلاش کروں گا، کس کے پاس جاؤں گا اور کہاں سے معلومات حاصل کروں گا۔ اس کے لیے تو کوئی نقشہ نویس اور کوئی انجینئر میری مدد نہیں کر سکتا۔
حضراتِ محترم! مجھے اپنے گھر میں رحمت و برکت، پیار و محبت، سکون و اطمینان، اکرام و شفقت اور باہمی اعتماد و تعلق کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہ راہنمائی قرآن و سنت کی شکل میں آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی سے ملے گی۔ اور ہمارے دینی مدارس میں یہی تعلیمات پڑھائی جاتی ہیں۔ چنانچہ مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے یہ ہماری عملی زندگی کی ضروریات ہیں۔ اگر مجھے اپنی ذاتی اور اپنے گھر کی اجتماعی زندگی میں سکون و اطمینان چاہیے اور مجھے اپنے گھر میں رحمتوں اور برکتوں کا ماحول درکار ہے تو یہ ضروریات دینی مدارس سے ہی پوری ہوتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ
میں ایک بات مزید کہہ کر اپنی گفتگو سمیٹتا ہوں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں کچھ عرصہ قبل ایک کیس چل رہا تھا جس میں چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس دیے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے۔ ’’ کرپشن‘‘ کا لفظ تو عام طورپر استعمال کیا جاتا ہے لیکن در اصل اس کی بہت زیادہ قسمیں ہیں اور اس آکاس بیل کی بڑی شاخیں ہیں۔ بد دیانتی، بد عنوانی، نا اہلی اور اقربا پروری کے علاوہ بھی بیسیوں شاخیں ہیں۔ کرپشن کسی معاشرے میں اپنی جڑیں پکڑ لے تو یہ پوری قومی زندگی کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ آپ ہمارے کسی بھی قومی مسئلے کا کھوج لگائیں تو آپ کو اس کے پیچھے کرپشن کھڑی نظر آئے گی۔ تو چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اور المیہ کرپشن کا ہے اور ہماری سب سے بڑی (قومی) ضرورت گڈ گورننس کی ہے۔ اور گڈ گورننس کے لیے ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کو فالو کرنا ہوگا تب ہم کرپشن سے نجات حاصل کریں گے۔
چنانچہ آج کے اس دور میں بھی حضرت عمرؓ ہمارے آئیڈیل ہیں۔ آج بھی گڈ گورننس اور دیانت کی حکمرانی میں دنیا کے سامنے دو چار شخصیات آئیڈیل ہیں جنہیں یہ غیر مسلم قومیں بھی مانتی ہیں۔ ان شخصیات میں ایک نام حضرت عمرؓ کا بھی ہے۔ یعنی جن چند شخصیات کو تاریخی حوالے سے عالمی سطح پر آئیڈیل مانا جاتا ہے، گڈ گورننس میں، دیانت داری میں، دانشوری میں اور لوگوں کے معاملات حل کرنے میں، ان شخصیات میں حضرت عمر فاروقؓ کا نام نمایاں ہے۔ اس پر میں ایک چھوٹی سی شہادت پیش کرنا چاہوں گا۔
جسٹس افتخار چیمہ ہمارے دوست ہیں، لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج ہیں اور آج کل وزیر آباد سے ایم این اے ہیں۔ انہوں نے یہ بات لکھی بھی ہے اور اپنی عوامی گفتگو میں بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس زمانے میں ہم کیمبریج میں پڑھتے تھے ایک معمر انگریز دانشور تھے جن کے پاس لوگ ملنے کے لیے جایا کرتے تھے کہ یہ ہمارے تاریخی اور دانشور آدمی ہیں۔ افتخار چیمہ صاحب کہتے ہیں کہ ہم بھی کچھ لڑکے مل کر ان سے ملنے چلے گئے کہ کچھ پرانی اور کچھ دانش کی باتیں سیکھیں گے۔ اب دانش جہاں بھی ہو اس کا اپنا مقام ہے۔ کہتے ہیں ہم نے ان سے اپنا تعارف کروایا کہ ہم پاکستانی اور مسلمان ہیں۔ ان دانشور صاحب نے کہا کہ اچھا تم پاکستانی اور مسلمان ہو تو میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ برطانیہ کا سوشل ویلفیئر سسٹم کس نے ڈیزائن کیا تھا۔ چیمہ صاحب کہتے ہیں ہم نے جواب دیا ہمیں تو یہ معلوم نہیں ہے۔ دانشور صاحب نے کہا کہ جس کمیٹی نے یہ سسٹم ڈیزائن کیا تھا میں اس کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ افتخار صاحب نے ان صاحب کا نام بھی ذکر کیا ہے جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے۔ دانشور صاحب نے بتایا کہ ہم نے یہ سسٹم جنرل عمر (حضرت عمرؓ) سے متاثر ہو کر بنایا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ جب کمیونزم نے مشرقی یورپ پر کنٹرول حاصل کیا تو مغربی یورپ نے اس بڑھتے ہوئے انقلابی طوفان سے بچنے کے لیے اپنی عوام کو سہولتیں دینا شروع کیں تا کہ کمیونزم برلن میں رک جائے اور آگے نہ بڑھے۔ مغرب والوں نے یہ سوچا کہ جب تک ہم عوام کو اچھی سہولیات فراہم نہیں کریں گے تب تک کمیونزم کو آگے بڑھنے سے روکا نہیں جا سکے گا، چنانچہ اس حکمت عملی سے یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ یہ ویلفیئر اسٹیٹ کا ایک تصور تھا جو مغربی یورپ والوں نے پیش کیا۔ آج کے دور میں برطانیہ کو سب سے بہتر ویلفیئر اسٹیٹ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس سسٹم کے ایک بانی کے بقول یہ نظام حضرت عمر فاروقؓ کے طرز حکومت سے متاثر ہو کر ترتیب دیا گیا تھا۔
اچھی گڈ گورننس کیا ہوتی ہے، اس کے سینکڑوں مظاہر و شواہد اسلامی تاریخ میں ملتے ہیں۔ میں اس وقت چھوٹے حضرت عمر یعنی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی مثال دے کر اپنی بات سمیٹتا ہوں۔انہیں حضرت عمر فاروقؓ کا پرتَو کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ پہلی صدی ہجری کے اختتام پر دنیائے اسلام کے واحد حکمران تھے اور دمشق میں بیٹھتے تھے۔ عراق کے علاقے میں ان کے عبد الحمید نامی ایک گورنر تھے۔ عراق کے گورنر نے خط لکھا کہ یا امیر المؤمنین ! اس سال صوبے کا ریونیو (زکوٰۃ وغیرہ) وصول ہو کر سال کی ضروریات پوری کرنے کے بعد بجٹ میں کچھ پیسے بچے ہیں۔ ہماری ضروریات پوری ہوگئی ہیں تو اس فاضل بجٹ کا ہم کیا کریں؟ امیر المؤمنین نے جواب دیا، ایسا کرو، اعلان کرو کہ تمہارے صوبے میں جو لوگ مقروض ہیں انکوائری کر کے ان کی تحقیق کرو اور جو لوگ اس درجے کے ہوں کہ اپنا قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان تمام کے قرضے بیت المال سے ادا کر دو۔ عبد الحمید صاحب نے جواب میں لکھا کہ امیر المؤمنین یہ کام ہم نے کر دیا ہے۔ دوسرا خط آیا کہ جو لڑکے اور لڑکیاں شادی کے قابل ہیں اور شادی کا خرچہ برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کی شادیاں بیت المال کے خرچے سے کروا دو۔ گورنر صاحب نے جواب میں لکھاکہ یہ بھی کر چکا ہوں۔ کتاب الاموال کی روایت میں ہے کہ تیسرا خط آیا کہ وہ شادی شدہ لوگ جو بال بچے دار ہیں لیکن وہ اپنی بیویوں کا مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں انکوائری کر کے ان کے مہر بھی بیت المال سے ادا کردو۔ گورنر صاحب نے لکھا کہ یا حضرت! یہ بھی کر دیا ہے لیکن بجٹ میں اب بھی کچھ پیسے بچے ہوئے ہیں۔ چوتھے خط میں امیر المؤمنین نے کہا کہ ایسا کرو، زمینوں کا سروے کرواؤ ، قابل کاشت زمینیں ہیں اور آباد نہیں ہو رہیں، کاشت کاروں کو آسان قسطوں پر قرضے دے کر وہ زمینیں آباد کردو۔
یہ اس سوسائٹی کی ایک جھلک ہے جو جناب نبی اکرمؐ کی سیرت پر چلنے والوں نے قائم کی تھی۔ یہ واقعہ میں نے ایک مجلس میں ذکر کیا تو ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا۔ مولوی صاحب ایک صوبے کے پاس اتنا ریونیو کدھر سے آگیا۔ آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال آیا ہوگا۔ یعنی وہ ریونیو تھا یا کیا بلا تھی؟ کتنے محصولات وصول ہوئے ہوں گے کہ سال کا بجٹ بھی پورا ہو رہا ہے، مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہو رہے ہیں ، کنواروں کی شادیاں بھی ہو رہی ہیں، شادی شدہ لوگوں کے مہر بھی ادا کیے جا رہے ہیں اور کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے بھی دیے جا رہے ہیں۔ تو اس نوجوان نے یہ سوال کیا کہ ایک صوبے کے پاس اتنا ریونیو کہاں سے آیا؟ میں نے کہا میں بتاتا ہوں کہاں سے آیا۔
میں نے کہا انہی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے پوری بات سمجھ میں آجائے گی۔ ایک دفعہ اپنے گھر آئے اور آکر بیوی سے کہا کہ فاطمہ مجھے ایک درہم کی ضرورت ہے، تمہارے پاس کوئی ایک آدھ درہم بچا ہوا ہو تو مجھے دو۔ ان کی بیوی تھیں فاطمہ بنت عبد الملک۔ درہم چاندی کا سکہ ہوتا تھا ساڑھے تین ماشے کا۔ موجودہ دور میں مارکیٹ کی ویلیو کے حساب سے تقریباً ایک یورو سمجھ لیں۔ بیوی نے پوچھا کیا کرنا ہے؟ یہ بات ذرا حوصلے کے ساتھ سننے کی ہے۔ اپنے وقت کی آباد دنیا میں سے تیسرے حصے کا جبکہ عالم اسلام کا واحد حکمران ہے اور اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے کہ میں گھر آرہا تھا راستے میں ایک ریڑھی پر انگور لگے ہوئے ہیں انگور اچھے ہیں کھانے کو جی چاہتا ہے لیکن جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ فاطمہ نے کہا آپ کے پاس نہیں ہیں تو میرے پاس کدھر سے آئے؟ فاطمہ نے ایک جواب تو یہ دیا جبکہ دوسرا جواب بیبیوں والا دیا۔ کہا آپ امیر المؤمنین ہیں ایک درہم کا انگور بازار سے نہیں منگوا سکتے؟ اِس بات کا کیا مطلب ہے؟ میں آج کی زبان میں اس کا ترجمہ کرتا ہوں کہ کیا آپ کے پاس کوئی صوابدیدی فنڈ نہیں ہے؟ امیر المؤمنین حضرت عمر ابن عبد العزیزؒ نے جو جواب دیا وہ میں آج کے حکمرانوں سے عرض کرتا ہوں۔ امیر المؤمنین نے کہا، فاطمہ جس درہم کی تم بات کرتی ہو وہ درہم نہیں بلکہ آگ کا انگارہ ہے۔
میں نے اس نوجوان سے کہا کہ جس ملک کا سربراہ سرکاری خزانے کو آگ کا انگارہ سمجھے گا اس ملک کے ریونیو میں پیسے ہی پیسے ہوں گے۔ جس ملک کا سربراہ اس ملک کی قومی دولت کو آگ کا انگارہ سمجھے گا تو اسے پھر بجٹ پرابلمز نہیں ہوں گی۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ آسان کام نہیں ہے اس کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔ اگر ہمیں اپنے ملک کے مالی مسائل حل کرنے ہیں تو ہمارے حکمرانوں کو اس بات پر آنا پڑے گا کہ ہمارے لیے سرکاری خزانہ آگ کا انگارہ ہے۔
خیر بات دور نکل گئی۔ میں چیف جسٹس افتخار احمد چودھری کے حوالے سے بات کر رہا تھا کہ انہوں نے کہا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے جس کا علاج گڈ گورننس ہے اور یہ گڈ گورننس ہمیں حضرت عمر فاروقؓ سے ملے گی۔ اب یہ بات کہ یہ گڈ گورننس کا سسٹم کہاں پر پڑھایا جاتا ہے اور اس کی معلومات ہمیں کن کتابوں سے ملتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ باتیں ہمیں بخاری شریف سے مسلم شریف سے اور حدیث و اسلامی تاریخ کی دیگر کتابوں سے ملتی ہیں۔ اور ان باتوں کے اصول و ضوابط ہمیں قرآن سے ملیں گے۔ ہمارے دینی مدارس میں قرآن و سنت کی یہی تعلیمات پڑھائی جاتی ہیں۔
حضرات محترم! آپ کے ہاں ’’مدینۃ العلوم‘‘ کے نام سے اس نئے مدرسے کا جو آغاز ہوا ہے اس کا آپ کی عملی زندگی کے ساتھ تعلق ہے۔ یہ مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے یہ ہماری آخرت کی ضرورت تو بہرحال ہے لیکن یہ اس دنیا کی زندگی میں بھی ہماری ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہماری دنیا کی زندگی بھی مکمل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ان مدرسوں کو آبادی نصیب فرمائے، ہمیں اِن سے استفادے اور ان کے ساتھ مالی و عملی تعاون کی توفیق بھی عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔