حضورؐ تو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے آئے تھے اور سارا راستہ چھپتے چھپاتے آئے تھے، کبھی غار میں کبھی راستے میں۔ راستہ بھی عام اختیار نہیں کیا تھا۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا جو معروف راستہ تھا وہ بدر والا ہے، اسے طریق البدر کہتے ہیں، آج بھی وہ سڑک ہے، پرانا تاریخی راستہ چلا آرہا تھا۔ براستہ بدر، بدر وسط میں ہے۔ یہ معروف راستہ تھا لوگوں کے آنے جانے کا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ بچنا مقصود تھا، چھپنا مقصود تھا، اس راستے سے سفر نہیں کیا۔ غاروں کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے ہوئے تاکہ راستے میں پکڑے نہ جائیں ٹریس نہ ہو جائیں کہیں۔
جس راستے سے ہجرت کی تھی وہ ’’طریق الہجرۃ‘‘ کہلاتا ہے، وہ معروف راستہ نہیں تھا۔ اب مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان جو موٹروے ہے وہ طریق الہجرۃ ہے۔ اس وقت جو راستہ ہے یہ ہجرت روڈ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راستے سے ہجرت کی تھی اس راستے پر انہوں نے بڑا اچھا روڈ بنایا ہے۔
چھپتے چھپاتے آ رہے تھے اور سب سے بڑا ہدف کیا تھا؟ کسی طریقے سے یثرب پہنچ جائیں۔ مشرکین کی ٹولیاں اور گروپ پیچھے لگے ہوئے تھے کہ کہاں ہیں کہاں نہیں ہیں، حتٰی کہ آپ احتیاط کا عالم دیکھیں کہ سفر دن کو نہیں کرتے تھے رات کو کرتے تھے۔ معروف راستے پر نہیں کرتے تھے الگ راستہ تھا۔ راستے کا ایک واقعہ ذکر ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کو کوئی پہچان والا مل گیا (اس نے پوچھا) ابوبکر! کدھر جا رہے ہو؟ ادھر کام جا رہا ہوں۔ ساتھ کون ہے؟ تعارف نہیں کروایا، بندہ ہے میری رہنمائی کرتا ہے۔