اس وقت ہمارے قومی اداروں میں بالا دستی کی کشمکش کا عجیب سا ماحول بن گیا ہے۔
- پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہے یا سپریم کورٹ آخری اتھارٹی ہے؟
- دستور کی تعبیر و تشریح اور تطبیق میں پارلیمنٹ بالاتر ہے یا سپریم کورٹ کی بیان کردہ تعبیر و تشریح حتمی ہے؟
- فوج اور خفیہ ادارے عدالت کے سامنے جواب دہ ہیں یا نہیں؟
- اور اس کشمکش میں ایوان صدر کا مقام کیا ہے؟
اس پر سپریم کورٹ میں براہ راست یا بالواسطہ ہونے والے بحث و مباحثہ نے باقاعدہ اکھاڑے کی صورت اختیار کر لی ہے حتٰی کہ اسی کشمکش میں وزیر اعظم کو نااہلی کے لیبل کے ساتھ رخصت ہونا پڑ گیا ہے اور کابینہ تحلیل ہو گئی ہے۔
ہمارے خیال میں صورتحال پر اس حوالہ سے بھی نظر ڈال لینی چاہیے کہ دستور پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو ملک کی نظریاتی بنیاد قرار دیا گیا ہے اور اس سے ہٹ کر ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے بھی بطور عقیدہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ پھر دستور میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکے گی اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو نافذ کرنے کی پابند ہو گی۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہماری قومی پالیسیوں اور حکومتی فیصلوں میں قرآن و سنت کی بالادستی دکھائی نہیں دے رہی۔
کیا ایسا تو نہیں کہ قرآن و سنت کی بالادستی سے روگردانی کی سزا ہمیں قومی طبقات اور اداروں کی باہمی کشمکش کی صورت میں مل رہی ہے؟ کیونکہ قرآن کریم نے عذاب خداوندی کی مختلف شکلوں میں ایک شکل ’’ویذیق بعضکم بأس بعض‘‘ بھی بیان فرمائی ہے۔ آج ہمارے قومی اداروں کے ذمہ دار حضرات اور مقتدر طبقات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور رسوا کرنے کے جس کام میں مصروف ہیں وہ کیا ’’ویذیق بعضکم بأس بعض‘‘ کا مصداق نہیں ہے؟ اگر ہم قومی سطح پر اس بات کو محسوس کر لیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام کر کے خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی دستوری و قانونی بالادستی کی طرف عملی رجوع کر لیں تو باہمی کشمکش کے اس عذاب سے نجات مل سکتی ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔