امریکہ کے صدر مسٹر جوبائیڈن نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا میں یکطرفہ طور پر چار ماہ کی توسیع کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ معاہدہ کی مدت کے دوران انخلا مشکل ہے اس لیے اب افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا مئی کی بجائے ستمبر کے دوران مکمل ہو گا اور وہ بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہو گا۔ اس کے ساتھ جرمنی کے وزیردفاع نے بھی کہا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ستمبر میں ہو گا۔
ایک عرصہ سے قطر میں امریکی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے جس کے ایک مرحلہ میں دنیا نے یہ خوشخبری سنی کہ امریکہ نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے لیے یکم مئی ۲۰۲۱ء آخری تاریخ مقرر کر دی ہے، اس دوران افغانستان کے مستقبل کا نقشہ طے کرنے کے لیے بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہیں جبکہ اس مسئلہ پر اب تک متعدد بین الاقوامی کانفرنسیں ہو چکی ہیں اور ترکی میں بھی ایک کانفرنس منعقد ہونے والی ہے۔
افغان مسئلہ کا تاریخی تناظر یہ ہے کہ افغانستان میں ۱۹۷۹ء کے آخر میں روسی افواج کی آمد پر افغان قوم مزاحمت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور افغانستان کی آزادی و خودمختاری کے ساتھ ساتھ اسلامی شناخت کے تحفظ اور شرعی نظام کے عملی نفاذ کے لیے جہاد کے عنوان سے سوویت یونین کی مسلح یلغار کے سامنے سینہ سپر ہو گئی۔ جہاد اور نظام شریعت کے حوالہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کی مسلم اقوام و ممالک نے افغان عوام کی اس جدوجہد کا ساتھ دیا، جبکہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک عرصہ سے جاری کولڈ وار کے پس منظر میں امریکہ اور اس کے حامی ممالک بھی ’’جہاد افغانستان‘‘ کے پشت پناہ بن گئے جس کے نتیجے میں افغان قوم افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے مشن میں سرخرو ہوئی۔ مگر اس کے بعد افغانستان کے مستقبل کی تشکیل میں راستے الگ ہو گئے:
- افغان مجاہدین اور ان کے دنیا بھر کے دینی پشت پناہوں کا موقف یہ تھا کہ افغان قوم کی تہذیب و روایات اور روس کے خلاف جنگ کے شرعی عنوان ’’جہاد‘‘ کے باعث افغانستان میں ایک اسلامی شرعی حکومت کا قیام اس تمام تر جدوجہد کا فطری اور منطقی تقاضہ ہے۔
- جبکہ امریکہ سمیت ان تمام حلقوں کی، جو اسے محض سوویت یونین کے خلاف ایک جنگ تصور کرتے ہوئے شریک ہوئے تھے، مسلسل یہ کوشش ہے کہ افغانستان سوویت یونین کیمپ سے نکلنے کے بعد ایک اسلامی نظریاتی ریاست بننے کی بجائے عالمی سطح پر ان کے کیمپ کا حصہ بن جائے اور ان کے بین الاقوامی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا رہے۔ اس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے موقع پر افغانستان کو ایک مستحکم قومی اور نظریاتی حکومتی ڈھانچہ فراہم کرنے سے جنیوا معاہدہ کے ذریعے عمدًا گریز کیا گیا جس کے نتیجے میں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔
اور پھر اس نئی صورتحال کے ردعمل میں جہادِ افغانستان کے نظریاتی کارکن ’’طالبان‘‘ کے عنوان سے سامنے آئے جو مسلسل جدوجہد کے بعد افغانستان پر کنٹرول حاصل کر کے ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کے نام سے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔طالبان نے افغانستان کو خانہ جنگی سے پاک کر کے کچھ عرصہ کامیابی کے ساتھ حکومت کی مگر گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد وہ امریکی عتاب کا شکار ہوئے اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج نے اس خطہ میں وہی محاذ سنبھال لیا جس کی کمان اس سے قبل سوویت یونین نے کی تھی۔ گویا بیرونی حملہ آوروں کو ملک سے نکالنے کے لیے افغان قوم کی وہی جنگ لوٹ آئی جو روسی افواج کے خلاف تھی، صرف اس فرق کے ساتھ کہ اب مدمقابل روس نہیں بلکہ امریکہ تھا۔ البتہ جہاد افغانستان کے اس نئے راؤنڈ کے اہداف اور مقاصد بھی وہی تھے کہ افغانستان کو بہرحال ایک خودمختار، آزاد اور اسلامی ریاست بنایا جائے۔
تاریخ نے اس کے بعد یہ منظر دیکھا کہ افغان قوم کی حریت پسندی اور اسلامیت کو زیر کرنے میں روس کی طرح امریکہ کو بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی اور بالآخر اسے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑا جس کے مختلف مراحل کے بعد یہ طے پایا کہ امریکہ اور نیٹو افواج یکم مئی ۲۰۲۱ء تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور اس دوران بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے مستقبل کی نقشہ گری کر لی جائے گی۔ مگر اب امریکہ کی طرف سے اس میں چار ماہ کی توسیع کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ افغان طالبان کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ معاہدہ کے بعد سے اب تک کی مدت میں امریکہ اور اس کے سہولت کاروں کا ٹال مٹول کا جو طرزعمل مسلسل چلا آ رہا ہے اس کے پیش نظر اس توسیعی مدت کا استعمال بھی وقت گزاری اور ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ کا راستہ روکنے کے اقدامات میں صرف ہوتا نظر آتا ہے، اس لیے وہ توسیع کو مسترد کرتے ہیں اور اگر یکم مئی تک امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا مکمل نہ کیا تو وہ معاہدہ سے آزاد ہوں گے اور جو شرائط انہوں نے قبول کی تھیں وہ ان کے پابند نہیں رہیں گے۔ ہمارے خیال میں اس صورتحال میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں:
- ایک یہ کہ اصل مسئلہ مدت کا نہیں اعتماد کا ہے، اگر امریکہ اب تک معاہدہ پر عملدرآمد میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیا تو اس نے اپنا اعتماد خود خراب کیا ہے، اس کا فائدہ اسے نہیں دوسرے فریق کو ملنا چاہیے اور امریکہ کے سہولت کاروں کو یہ بات بہرحال ملحوظ رکھنی چاہیے۔
- دوسری بات یہ کہ مسلسل مشاہدات و تجربات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انسانی حقوق کی طرح بین الاقوامی معاہدات بھی ذمہ داری کی بجائے ہتھیار کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں، جو آسمانی تعلیمات سے انحراف اور سارے معاملات انسانی عقل و دانش کے دائرے میں طے کرنے کے فلسفہ کا منطقی نتیجہ ہے کہ عقل کے ساتھ طاقت اور فریب کاری کا جوڑ اپنے لیے ہر بات کا جواز فراہم کر لیتا ہے، جبکہ طاقت سے محروم اقوام و ممالک اس کے رحم و کرم پر رہ جاتی ہیں، آج کے عالمی فلسفہ کے تناظر میں دنیا بھر میں ہر سطح پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر گزشتہ ایک صدی کے دوران ہونے والے معاہدات اور ہمارے ہاں پاکستان میں بھی بالخصوص نفاذ شریعت کے سلسلہ میں کیے جانے والے معاہدات جس کی تازہ ترین مثال ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ ہے، کو موضوع بحث بنا کر ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات نکھر کر سامنے آئے گی کہ آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر انسانی اخلاقیات ہی اقوام و ممالک کو کسی بات کا پابند بنا سکتی ہیں، ورنہ محض انسانی عقل و دانش طاقت اور فریب کاری کے زور پر اسی قسم کے مناظر دنیا کو مسلسل دکھاتی رہے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کا راستہ نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔