۱۶ ستمبر کو جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں مختلف مکاتبِ فکر کا ایک اہم اجلاس ’’تحریک تحفظ مدارس و مساجد پاکستان‘‘ کی دعوت پر منعقد ہوا، جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا، اس فورم کا قیام متنازع اوقاف قوانین کے نفاذ کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف فکر کے سرکردہ علماء کرام کی مشترکہ کاوشوں سے عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے تحت اس قانون پر عملدرآمد کو رکوانے کے لیے مؤثر جدوجہد کی گئی۔ اس کے ساتھ ہم نے بھی گوجرانوالہ میں اسی طرز کی محنت کا اہتمام کیا جس کے نتیجے میں
- متنازع اوقاف پر عملدرآمد کا سلسلہ روک دیا گیا۔
- نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔
- سرکاری طور پر وعدہ کیا گیا کہ ان قوانین پر شرعی احکام کی روشنی پر نظرثانی کی جائے۔
- حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے دینی حلقوں کی طرف سے ان متنازعہ قوانین میں ترامیم اور متبادل قانون کا مسودہ تحریری طور پر اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالہ کر دیا، مگر اس میں پیشرفت کی کوئی صورت ابھی تک سامنے نہیں آرہی۔
جبکہ اس کے بعد
- گھریلو تشدد کی روک تھام کے عنوان سے نئی قانون سازی کی گئی جسے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے شریعت، دستور اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
- بچوں پر تشدد کی روک تھام کے نام سے اسی قسم کا ایک قانون اس سے قبل پاس کر کے نافذ کیا جا چکا ہے جو پاکستان میں مغربی خاندانی قوانین کے نفاذ کی طرف پیشرفت ہے۔
اور اب
- اٹھارہ سال سے قبل کسی غیر مسلم کے قبول اسلام پر پابندی اور اٹھارہ سال کے بعد قبول اسلام کو مشروط کر دینے کا قانون اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔
- جبکہ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین میں ترامیم کے لیے یورپی یونین کا مطالبہ اور مسلسل بڑھتا ہوا دباؤ بھی اس کے ساتھ ساتھ ساتھ جاری ہے۔
اس ساری صورتحال میں جہاں یہ بات انتہائی تشویش و اضطراب کا باعث ہے کہ دستورِ پاکستان کی صراحتوں اور شریعتِ اسلامیہ کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے وہاں یہ بھی انتہائی پریشان کن بات ہے کہ ان قوانین کے مسودات اور ان کے ہر حال میں نفاذ کے لیے غیر ملکی ہدایات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی بلکہ بعض قانونی مسودات میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ قوانین غیر ملکی اداروں کی ہدایت پر نافذ کیے جا رہے ہیں جس سے ملکی دستور و قانون پر قرآن و سنت کی بالا دستی کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری بھی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ اسی تناظر میں اسلام آباد کے مذکورہ اجلاس میں مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ ’’تحریک تحفظ مساجد و مدارس پاکستان‘‘ کو دوبارہ منظم و متحرک کیا جائے اور تمام دینی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کر کے ان سے ان مسائل کے حوالہ سے مشترکہ قومی جدوجہد کے اہتمام کی درخواست کی جائے گی۔
راقم الحروف نے اس موقع پر عرض کیا کہ ہماری اصل ضرورت یہ ہے کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء، ۱۹۷۷ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکات کی طرح قومی دینی از سر نو تحریک شروع کی جائے جو تمام مکاتبِ فکر کی نمائندگی کے علاوہ تمام طبقات بالخصوص تاجر حضرات اور وکلاء برادری کی بھرپور شرکت کے ساتھ ہو، اس کے بغیر ہم مغرب کی فکری اور تہذیبی بالادستی کے اس سیلاب کا راستہ نہیں روک پائیں گے۔ اس موقع پر رنگ، نسل، قومیت ، مسلک اور طبقات کی تفریق کو نظرانداز کر کے مذکورہ بالا تحریکات کا دائرہ اور ماحول دوبارہ پیدا کرنا ہو گا، ورنہ ہم ملک کی اسلامی شناخت، مسلم تہذیب اور دستور کی اسلامی اساس کا تحفظ خدانخواستہ نہیں کر سکیں گے۔
اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ متنازعہ اوقاف قوانین پر عملدرآمد روک دینے کے سرکاری اعلان کے باوجود محکمہ اوقاف خاموشی کے ساتھ نئے قوانین کے تحت مساجد و مدارس کی رجسٹریشن کا کام جاری رکھے ہوئے ہے حتیٰ کہ اس کے لیے مساجد و مدارس کی باقاعدہ کام کام کرنے والی کمیٹیوں سے اختلاف رکھنے والے عناصر کے مطالبہ پر متعلقہ مسجد و مدرسہ کی رجسٹریشن ان کے نام سے کی جا رہی ہے جس کی مثال شاہین آباد گوجرانوالہ کی ایک مسجد اور ساروکی چیمہ تحصیل وزیر آباد کے مدرسہ قاسم العلوم کی گزشتہ چند روز میں کی جانے والی نئی رجسٹریشن ہے جو ایسے افراد کے نام کی گئی ہے جن کا اس مسجد و مدرسہ کے ساتھ کوئی انتظامی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ محکمہ اوقاف کا یہ طرز عمل ایک نئے خلفشار کا باعث بن رہا ہے جس کا دائرہ اگر وسیع ہوا تو پورا ملک اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
ان حالات میں ’’تحریک تحفظ مساجد و مدارس پاکستان‘‘ کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مذکورہ فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، دینی جماعتوں، کارکنوں، تاجروں اور وکلاء سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں تعاون کے لیے آگے بڑھیں اور اپنا اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کریں۔ اسی حوالہ سے ۵ اکتوبر منگل کو ظہر کے بعد گوجرانوالہ کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں ہم اس جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے تجاویز مرتب کر کے پیش کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔