ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء ۔ پاکستان شریعت کونسل کا تجزیہ و تجاویز

   
آسٹریلیا مسجد، لاہور
۲۴ ستمبر ۲۰۲۲ء

ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ پر یہ تبصرہ پاکستان شریعت کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ریٹائرڈ سیشن جج چودھری خالد محمود نے تحریر کیا ہے جو ۲۴ ستمبر کو آسٹریلیا مسجد لاہور میں پاکستان شریعت کونسل لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ علماء سیمینار میں پیش کیا گیا۔

بسم اللہ تعالیٰ۔ ٹرانس جینڈر (تحفظ حقوق) ایکٹ ۲۰۱۸ء مئی ۲۰۱۸ء میں منظور کیا گیا۔ پارلیمنٹ نے اس قانون کو منظور کرنے کا ادعا یہ لکھا ہے کہ ٹرانس جینڈر لوگوں کو دیگر شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اس قانون کےمطابق ٹرانس جینڈرز کو قانونی طور پر منظور اور تسلیم کر لیا گیا ہے اور ان کو وہی حقوق حاصل ہونگے جو دوسرے مرد و خواتین کو حاصل ہیں۔

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورس نے مارچ ۲۰۲۰ء میں اس قانون کو پاکستان میں نافذ کرنے پر تعریف کی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جنہوں نے ٹرانس جینڈرز کو قانونی طور پر تسلیم کیا ہے۔ اور یہ امر بھی مسلّمہ ہے کہ چند مغربی ممالک کے بعد پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے ٹرانسجینڈرز کو ان کی صوابدید کے مطابق کسی بھی جنس میں درج کرانے کا اختیار دیا ہے۔

اس جدید قانون کے تحت ٹرانس لوگ ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ حاصل کر سکتے ہیں، اور اپنی صوابدید کے مطابق نادرا میں اپنی جنس تبدیل ہونے کا ریکارڈ درج کروا سکتے ہیں۔ ٹرانس لوگوں کو ان کے گھروں یا عوامی جگہوں پر پریشان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی اور سماجی میدان میں کسی بھی انکے ساتھ کسی تفریق کی اجازت نہ ہو گی۔ اس قانون کے تحت حکومتِ وقت ٹرانس لوگوں کو محفوظ گھر دینے کی مکلف ہوگی۔ اور حکومت ان کو نفسیاتی علاج کے لیے علاج گاہیں مہیا کرنے کی پابند ہوگی۔ ٹرانس لوگوں کے لیے جیل میں الگ کمروں کو مخصوص کیا جائےگا۔ اگر کوئی شخص کسی ٹرانس کو زبردستی گلیوں میں بھیک منگوانے کا کہے گا تو اسے چھ ماہ قید، پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا ہوگی۔

یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ءتک ۶۸ ٹرانس لوگوں کو قتل کیا گیا اور ۱۵۰۰ پر جنسی تشدد کیا گیا اور ۲۰۱۸ء میں صرف خیبرپختونخوا میں ۴۹۷ ٹرانس لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ۱۹۹۸ء میں ملک پاکستان میں ٹرانس لوگوں کی تعداد ۱۰۴۱۸ تھی اور ۲۰۱۵ء میں یہ تعداد ۱۵۰۰۰۰ (ایک لاکھ پچاس ہزار) بتائی گئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ۲۰۱۰ء میں قرار دیا تھا کہ ٹرانس لوگ ملک عزیز میں دیگر مرد و خواتین کے مساوی حقوق و وجود رکھتے ہیں۔ اور اس فیصلہ کے مطابق ٹرانس لوگوں کو ملازمتوں اور تعلیم میں مساویانہ حقوق حاصل ہیں اور ان کو کسی جنسی تفریق کے تحت محروم نہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا پس منظر ملک عزیز میں یہ قانون منظور کیا جانا قرار دیا گیا ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل اس قانون ۲۰۱۸ء کی شقوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

دفعہ ۲ کے تحت جنسی شناخت کا معنی ہے کہ وہ مخصوص شخص خود کو کیا محسوس کرتا ہے؟ کیا وہ مرد محسوس کرتا ہے، یا عورت، یا دونوں جنسوں کا مجموعہ، یا کوئی بھی نہیں؟ اور اس کے لیے صرف اس کے احساس اندرونی کو حتمی حکم سمجھا جائے گا اور اس کی راہ میں پیدائش نامہ (برتھ سرٹیفکیٹ) یا فارم ب آڑے نہ آئے گا۔

نومبر ۲۰۰۶ء میں انڈونیشیا کے شہر یوگیاکرتا میں بین الاقوامی اجلاس ہوا تھا جس کےحتمی اعلامیہ میں بین الاقوامی انسانی حقوق کو صنفی شناخت اور جنسی رجحان کے حوالے سے اصول مقرر کیے گئے تھے اور اس دستاویز میں بھی ٹرانس جینڈر کی حتمی تعریف نہ کی جا سکی تھی، بلکہ صرف یہی لکھاگیا تھا کہ کسی بھی فرد کی اندرونی سوچ ہی اس کی صنف کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اور اس امر کے حوالے سے اس کی سماجی زندگی میں کپڑوں، گفتگو کا انداز، معاشرتی آداب کے مطابق اس کی خواہش کو تسلیم کیا جائے گا۔

اس معیار کے مطابق دفعہ ۲ (ایف) جینڈر آئیڈنٹٹی یعنی صنفی شناخت کی تعریف کرتا ہے کہ یہ کسی فرد کی اپنی اندرونی انفرادی سوچ کا نتیجہ ہے کہ وہ مرد ہے یا خاتون، یا دونوں کا مرکب، یا دونوں میں کچھ بھی نہیں۔ اس طرح ہم نے اس قانون میں یوگیاکرتا اجلاس کے اصولوں کے مطابق ٹرانس جینڈر اور صنفی شناخت کو متعارف کرا دیا ہے۔

دفعہ ۲ (این) میں ٹرانس جینڈر کی تعریف کی گئی ہے کہ اس میں وہ افراد شامل ہیں جو عام عرف میں کُھسرا کہلاتے ہیں اور ان میں دونوں اصناف کے جنسی اعضا کا اظہار ہوتا ہے، یا وہ لوگ جوپیدائش کے وقت بطور لڑکا یا مرد شناخت ہوئے مگر بعد میں مردانہ حصوں کی خاصیت ختم کر دی گئی یا ہو گئی، یا وہ لوگ جن کی معاشرتی عادات و اطوار یا تہذیبی توقعات اس اندراج سے مختلف ہوتی ہیں جس کا پیدائش کے وقت ریکارڈ لکھا گیا تھا۔

ابھی انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کی توقع اور سفارش ہے کہ ٹرانس جینڈر اور انٹرسیکس افراد کے حوالے سے مزید تخصیص کی جائے اوریہ بھی پابندی لگائی جائے کہ انٹرسیکس افراد کو کسی بھی طبی مداخلت یعنی یارمونز تھراپی وغیرہ سے بچایا جائے اگر ان کی آزاد مرضی شامل نہ ہو۔

مغرب کے فلسفے کے تحت صنفی شناخت ایک ذاتی زندگی اور سوچ ہے جس میں ریاست یا معاشرہ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مداخلت کرے۔ اسی لیے مغرب میں صنفی شناخت کو طبی یاعدالتی کاروائی سے دور رکھا گیا ہے اور اسے محض اس فرد کی ذاتی سوچ پر قائم کر دیا گیا ہے۔ اور یہی وہ دروازہ ہے جس سے ہم جنس پرستی یا آزادی جنس یا جنسی رجحان نے قانونی حیثیت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انڈیا میں ۲۰۱۹ء میں ٹرانس جینڈر تحفظ حقوق قانون منظور کیا گیا ہے لیکن اس میں جنسی شناخت کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے فیصلےسے منسلک کیا ہے جو کہ میڈیکل تحقیق و تفتیش کے بعد جاری ہو گا۔ لیکن وطن عزیز میں جینڈر آئیڈینٹٹی کو محض اس فرد کی ذاتی خواہش کا نتیجہ قرار دے دیا ہے جو کہ مغرب کی آزاد جنسی معاشرہ کا ایک چربہ ہے۔

دفعہ ۳ (۳)کے مطابق کوئی بھی پاکستانی شہری جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ جائے اس کو حق حاصل ہے کہ وہ خودشناسی کے اصول کے تحت اپنی صنف کو رجسڑڈ کروائے۔

ابھی پاکستان کو مزید سفارش کی جا رہی ہے کہ وہ اس قانون کا اطلاق غیر ملکی مہاجرین وغیرہ پر بھی کر دے جو کہ اپنے ملک میں جاکر کسی وجہ سے نہ کروا سکتے ہوں، یعنی دوسرے ملکوں کے لوگ کسی بہانے سے پاکستان سے اپنی صنفی شناخت درج کروا سکتے ہیں۔

پاکستان سے مغربی دباؤ کے تحت اس قانون میں ابھی مزید تقاضا کیا جا رہا ہے کہ عمر کی حد کو ختم کیا جائے کیوں کہ یہ بچوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک ہے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور یہ کہ بچے کے مفاد کو دیکھتے ہوئے اس کی خواہش کا احترام کیا جائے اور اسے جنسی صنف کی تبدیلی کی اجازت دی جائے۔

دفعہ۳ میں یہ بھی حق دے دیا گیا ہے کہ کسی بھی ٹرانس جینڈر کو اس کی اپنی خواہش کے تحت صنفی شناخت کی اجازت دی جاتی ہے اور اس پہچان کو وہ نادرا یا کسی بھی دوسرے سرکاری محکمے مثلاً پاسپورٹ یا تعلیمی دفاتر یا ڈرائیونگ سرٹیفیکٹ اتھارٹی کے پاس درج کروا سکتا ہے، اور اس کے لیے اسے کسی عدالتی یا طبی معاونت یا حکم یا تصدیق نامہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اب چونکہ پیدائشی صنفی اندراج کی اہمیت کو ختم کر دیا گیا ہے اور دوسرے میڈیکل یا عدالتی فیصلہ کی بھی ضرورت نہیں ہے اس لیے وطن عزیز میں ان دفعات سے وہ خرابیاں اور قباحتیں پیدا ہو جائیں گی جو اس وقت آزاد جنسی معاشروں میں موجود ہیں۔ ایک اسلامی ملک میں جس کا ایک مکمل آئین بھی لاگو اور نافذ ہے اور جس کے مطابق کوئی قانون بھی اسلامی احکامات کے خلاف تیار اور لاگو نہیں کیا جا سکتا، وہاں اس قسم کے قوانین بہت سا الجھاؤ پیدا کرتے ہیں۔

کیا ایک ٹرانس شخص خود کو عورت لکھوا کر دیگر مرد سے شادی نہیں کر سکتا جب کہ وہ حقیقی طور پر خود بھی مرد ہو؟ یعنی باالفاظ دیگر ہم کسی بھی اخلاقی بیماری کو قانونی جواز مہیا کر دیں گے۔ ہم جنس پرستی یا خلافِ صنف ماحول کے لیے یہ قانون مفید فورم بن جائے گا۔

فرض کریں اگر کسی ملازمت کے سلسلہ میں ٹرانس لوگوں کے لیے کوٹہ مقرر ہو اور کوئی شخص اپنا اندراج ٹرانس کے طور پر کروا کے وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کیا اس سے ٹرانس لوگوں کی حق تلفی نہ ہو گی؟ اور خصوصی طور ہر کیا وہی شخص ملازمت حاصل کرنے کے بعد اپنی صنف تبدیل کروا سکتا ہے؟ اسی طرح کوئی ٹرانس خود کو عورت درج کروا کر دوسرے مرد سے شادی کے بندھن میں بندھ سکتا ہے اگرچہ وہ عورت نہ ہو، توکیا یہ ہم جنس پرستی نہ ہوگی؟ اور اسی طرح کوئی زنانہ خصوصیات والا فرد خود کو مرد تحریر کروا کر دوسری لڑکی کو اپنی زوجیت میں لے سکتا ہے جو کہ ہم جنس پرستی کا نمونہ ہو گا۔

اگر بطور مسلمان ہم اپنے دین کو بغور پڑھیں اور سمجھیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اسلام میں ٹرانس لوگوں کو انسانیت کے درجے سے نکالا نہیں گیا ہے۔ ہاں یہ وعید تو دی ہے کہ کوئی مرد خود کو عورت اور کوئی عورت خود کو مرد یا ان میں سے کوئی فرد خود کو مخنث، یا مخنث دیگر صنف میں تبدیل یا ظاہرکرے تو وہ اللہ کی لعنت کا مستحق ہے۔ اس حکم میں پیدائشی مخنث نہیں آتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جو کہ ایک جنس میں ہوتے ہوئے دوسری جنس اختیار کریں یا ظاہر کریں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ایک مخنث گھریلو کام کے لیے آجاتا تھا، اس نے کسی موقعہ پر کسی دوسری خاتون کی جسمانی ساخت کا اظہار کیا۔ آپؐ نے اس کو گھر سے نکال دینےکا حکم دیا۔ یہ بنیادی طور پر ٹرانس جینڈر کے حقوق کا تحفظ ہے کہ وہ گھر میں آسکتا ہے لیکن غیر عورتوں یا مردوں کی جسمانی ساخت کے حوالے سے گفتگو نہ کر سکتا ہے، اور حقیقت میں یہ بات ہر مرد اور عورت کےلیے بھی حکماً‌ کہی گئی ہے۔ اسی طرح مخنث کو گھر میں آنے کی اجازت صرف اس شرط پر ہےکہ وہ صنف مخالف کے حوالے سے کسی جسم کو زیر بحث نہ لائے گا کیونکہ اسلام میں پورے معاشرے کو پاکیزہ رکھا جاتا ہے۔

مختصریہ کہ تبدیلی جنس کو ذاتی خواہش پر محمول نہ کیا جائے بلکہ اس کے لیے عدالتی حکم اور میڈیکل معائنہ کو ضروری قرار دیا جائے تاکہ ہم جنس پرستی کی راہ نہ کھل سکے۔ مغربی معاشروں میں جنسی اصناف کے وجود کے علاوہ جنسی رغبت اور اہمیت کو بھی تحفظ اور اہمیت دی گئی ہے کہ یہ ایک انسان کی ذاتی اورانفرادی خواہش ہے جس کا احترام کیا جائے۔ اس کے لیے LGBTQ جیسے الفاظ بولے جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جنس کی طرف ہی جنسی رجحانات رکھتے ہیں۔ یعنی لیزبیئن Lesbian وہ عورتیں یا عورت نما افراد ہیں جو عورتوں میں ہی جنس پرستی رکھتی ہیں۔ گے Gay وہ مرد یا مرد نما فرد ہیں جو کہ مردوں میں ہی جنسی خواہش پوری کرنے کا شوق رکھتےہیں۔ اسی طرح بائی سیکسوئل Bisexnal وہ افراد ہیں جو دونوں اصناف سے جنسی خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں۔ جبکہ ٹرانس جینڈر Transgender وہ لوگ ہیں جو پیدائشی صنف سے ہٹ کر خود کو دوسری صنف کا جزو سمجھتے ہیں جس کے بارے میں اوپر بحث کی گئی ہے۔

اللہ تعالٰی نے انسان کو جنسی طور پر دو اصناف میں تقسیم کیا ہے لیکن مغربی معاشرہ نے انسان کو جنسی اصناف کی تقسیم در تقسیم کر کے محض انسان کو جنسی کھلونا بنا دیا ہے۔ اسلامی قانون میں کسی ٹرانس یا مخنث کو بے عزت نہیں کیا گیا۔ اگر کسی اسلامی ملک میں واقعات ہوتے ہیں تو وہ اسلامی قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں، اور اس خرابی کا باعث اسلامی قانون نہیں ہے۔ اسلام تو اس بیماری کو پوری قوت کے ساتھ ختم کر دیتا ہے اور ہم جنس پرستی کی کسی بھی طور اجازت نہیں دی گئی۔

دفعہ۷ میں وراثت کی تقسیم کا طریقہ تحریر کیا گیا ہے اور اس کی ذیلی دفعہ (iii)میں تحریر ہے کہ اگر کوئی وارث ۱۸ سال سے کم عمر کا ہے تو اس کو وراثت میں حصہ میڈیکل آفیسر کے معائنہ کے بعد دیا جائے گا کہ آیا وہ مرد ہے یا عورت یا درمیان صنف۔ اگر مردانہ خصوصیات ہوئیں تو وراثت میں مرد کا حصہ ورنہ عورت کا، اور درمیانی صنف والے کو مرد اور عورت کا اوسط حصہ وراثت دیا جائے گا۔

اگر وراثت کے لیے طبی معائنہ کیا جا سکتا ہے تو کوئی شخص اگر تبدیلی جنس کے اندارج کے لیے آئے تو اس کا طبی معائنہ تو بدرجہ احسن ضروری ہونا چاہئے۔

سینیٹ کے ایک سابقہ اجلاس میں سوال اٹھایا گیاکہ مدونہ قانون ۲۰۱۸ء کے تحت کتنی درخواستیں برائے اندراج تبدیلی جنس آئی ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ ۱۶۵۰۰ افراد نے اپنا اندراج عورت کروانے کی درخواستیں دی ہیں جو کہ پیدائشی طور پر مرد تحریر ہوئے تھے۔ اسی طرح پیدائشی اندراج کے مطابق ۱۲۱۵۴ عورتوں نے خود کو مرد تحریر کروانا پسند کیا ہے۔ ۹ مردوں نے خود کو ٹرانس جینڈر لکھوانےکی اور ۲۱ ٹرانس جینڈرز نے مرد تحریر کروانےکی اجازت لی ہیں، جبکہ ۹ درخواستیں ٹرانسجینڈرز کی طرف سے خود کو عورت ظاہر کرنے کی آئی ہیں۔

دفعہ۴ میں معاشرہ کے افراد کو روک دیا ہے کہ وہ کسی بھی فرد سے امتیازی سلوک محض اس کے ٹرانس ہونے کی وجہ سے نہ کریں اور یہ حکم تعلیمی اداروں، ملازمتوں، کاروبار، جائیداد کی خرید و فروخت، محفوظ سفر یا سفری سہولیات، الیکشن، حق رہائش، حق عبادت یا کسی عوامی یا پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے، یا آنے جانے پر لاگو ہے۔ اور اسی طرح کسی کو اجازت نہیں ہے کہ کسی ٹرانس جینڈر کو اس کے گھر یا بیرونی ماحول میں تکلیف یا آزار دے۔ چوتھے باب میں حکومت کو پابندکیا جاتا ہے وہ ان لوگوں کے لیے محفوظ سنٹرز یا رہائش، طبی سہولیات، الگ جیلیں روزگار کے مواقع مہیا کریں۔

پانچویں باب میں دوبارہ ان حقوق کا اعادہ کیا گیا ہے جو کہ تیسرے باب میں اختصار سے درج کیےگئے ہیں اور ان کے مطابق ان لوگوں کو عوامی جگہوں، خواہ وہ تفریح کے حوالے سے ہیں یاعبادت کیلئے یا کسی بھی اور مقصد کے لیے، وہاں جانے سے روکا نہیں جا سکتا کہ وہ مختلف صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہاں عبادت گاہوں اور حوائج ضروریہ کے لیے بنائی جگہوں یا ایسے ادارے جو کہ کسی مخصوص صنف کے لیے بنائے گئے ہوں وہاں ان کی موجودگی یا آنے جانے کو حساس شرعی احکام کا پابند کیا جانا ضروری ہے۔ کسی خاتون کے کالج میں تعلیم یا ملازمت حاصل نہ کرے۔ اسی طرح اصناف دیگر کو اپنی حدود میں مقیدکیا جائے تاکہ ملک عزیز کے اسلامی اور مشرقی تشخص کو برقرار رکھا جا سکے۔

دفعہ ۱۷ کے تحت اگر کسی بھی ٹرانس جینڈر کو بھیک مانگنے کے لیے استعمال کرے یا مجبور کرے تو اسے چھ ماہ تک قید اور پچاس ہزار روپے تک جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی۔

یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ قبل ازیں پاکستان میں بھیک مانگنے یا منگوانے کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ مطلوبہ قوانین کی موجودگی میں کسی ایک سیٹ کے لیے الگ قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اہم بات یہ ہے کہ موجود قوانین پر عملدرآمد مؤثر کیا جائے۔ کیا یہ قرین عقل بات ہے کہ قوانین عمومی طبقہ یا سوسائٹی کے لیے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود گلی گلی بھیک مانگنے کا دھندہ موجود ہے تو اس کے بعد ایک خاص طبقہ کے لیے اسی طرز کا ایک اور کاغذی قانون بنا دیا جائے۔ یہ تو امتیازی سلوک اور قوانین ہو جائیں گے جن کا کوئی ماحصل نہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجود قوانین کا اثر تمام طبقات پر مساوی ہو اور اس پر مضبوط طریقہ سے عملدرآمد کیا جائے۔ اسی نہج پر یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے تمام افراد آئینی حقوق مساویانہ رکھتے ہیں۔ تو پھر مختلف طبقات کے لیے محض کثرت سے قانون سازی غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ اور عدالتوں میں جب نزاعی معاملات جاتے ہیں تو مختلف قوانین اور ان کے اثرات کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اگر تمام پاکستانیوں کو تمام حقوق آئین کے تحت دیے گئے ہیں تو ان کا حصول اور نفاذ ایک طور پر ایک ہی فورم کے ذریعے سب کو یکساں طور پر مہیا کر دیا جائے۔ آئین میں صحت، تعلیم، روزگار، رہائش، تحفظ بابت عزت و جان، حقوق تقریر و تحریر، ووٹ، الیکشن اور جائیداد وغیرہ کے متعلق حقوق تمام شہریوں کو یکساں طور پر مہیا کیے گئے ہیں۔ تخصیص صرف یہ ہے کہ ٹرانس افراد کو بمطابق حقیقت صنف درج کر دیا جائے اور تہذیبی، معاشرتی اور نظریاتی پس منظر میں ان کو تعلیم، روزگار اور دیگر مواقع مہیا کیے جائیں۔ اور ایساقانون نہ بنایا جائے جس میں کوئی تفریقی، امتیازی یا تخصیصی امور نزاع کی صورت میں قوم کے سامنے رکھ دیا جائے۔

آگے بڑھنے سے پہلے چند الفاظ غیر ملکی قوانین بابت ٹرانس افراد کے زیر مطالعہ لاناضروری ہیں۔

جیسا کہ اوپر درج کیا گیا ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں ملک عزیز سے ایک سال بعد یہی قانون منظور کیا گیا ہے مگر وہاں اندراج صنف کے لیے دو مراحل (stages) مقررکر دیے گئے ہیں۔ اول ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو تحرک اور ہمراہ متعلقہ دستاویزات پیش کی جائیں، اور دوسرا طبی معائنہ اور رپورٹ، اور پھر اس کے بعد حتمی فیصلہ۔ اور اس حکم کی روشنی میں پبلک ریکارڈ میں صنف کا اندراج کیا جائے گا، اس پر وہاں عملدرآمد ہو رہا ہے۔ کینیڈا میں صنف کے بارے تبدیلی کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔ وہاں برتھ سرٹیفیکیٹ میں اول تبدیلی کے لیے تحرک کیا جائے گا۔ اس کے لیے طبی دستاویزات بھی پیش کی جائیں گی کہ کیا واقعتاً‌ جنستبدیل کی گئی ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا میں بھی اول برتھ سرٹیفیکیٹ پر تبدیلی جنس کا اندراج کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی وہاں میڈیکل علاج اور تبدیلی جنس کے حوالے سےثبوت طلب کیا جاتا ہے۔ جو کہ Sexual reassignment یعنی دوبارہ جنسی تعین کے حوالے سے دو ڈاکٹرزکا تصدیق نامہ لف کیا جانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ امر بھی اہم ہے کہ تمام بالا مثالوں میں باقاعدہ درخواست، طبی اسناد، اور مقررہ فیس کا داخل کیا جانا بھی ضروری ہے۔ برطانیہ میں تبدیلی جنس اندراج کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم سابقہ دو سال سے نئی جنس کے طور پر رہ رہے ہیں اور کم از کم دو ڈاکٹرز کا تصدیق نامہ پیش کرنا ضروری ہے کہ تبدیلی جنس کا عمل اس امیدوار نے گزار لیا ہے۔ اٹلی میں صرف ٹرانس افراد کو تبدیلی جنس کے اندارج کی اجازت ہے اور اس کے لیے طبی اسناد کی فراہمی بھی ایک شرط ہے۔ امریکہ کی اکثر ریاستوں میں جنس کی تبدیلی کا اندراج برتھ سرٹیفکیٹ میں سب سے پہلے کرایا جائے گا اور یہ عمل بھی یا تو ڈاکٹرز کی رپورٹ پر ہو گا یا عدالت کے حکم کے تحت۔ اس کے لیے ایک بیان حلفی بھی لیا جاتا ہے جس میں وہ وجوہات درج کی جائیں گی جن کی بنیاد پر تبدیلی جنس کا اندراج ضروری ہے، اور یہ بھی لکھا جائے گا کہ اس کا مقصد کوئی دھوکہ دہی نہیں ہے۔ چین میں تبدیلی جنس کیلئے درخواست کے ساتھ مقامی ہسپتال کا سرٹیفکیٹ پیش کیا جانا لازم ہے اور اس کی تصدیق عدالتی محکمہ سے کرائی جانی ضروری ہے۔

مختصریہ کہ ابھی بھی یورپی یونین کے اکثر ممالک میں باقاعدہ درخواست اور میڈیکل ثبوت کا پیش کیا جانا لازم ہے۔ اور اسی طرح دوسرے بہت سارے ممالک بھی کاروائی ضابطہ کے مطابق کی جاتی ہے۔

تجاویز

ٹرانسجینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء کی مختلف دفعات میں ملک عزیز کے تہذیبی اور نظریاتی پس منظر میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔

دفعہ۳ میں یہ بنیادی ترمیم ضروری ہے کہ جنس کے حوالے سے خودشناسی یا من چاہی خواہش کو ماہر نفسیات اور میڈیکل اور میڈیکل امداد سے منسلک کیا جائے۔ دوئم سب سے پہلے برتھ سرٹیفکیٹ میں تبدیلی جنس اور نئے نام کا اندراج ہو۔ سوئم ایک خاص دورانیہ مقررکیا جائے کہ بصورت تبدیلی جنس یہ حالت برقرار رہے۔ چہارم ماہر نفسیات اور مقامی ہیلتھ سنٹر تفصیلی رپورٹ بابت تبدیلی جنس کی تصدیق کرے۔ پنجم ضلع کی انتظامی اتھارٹی اس بارے حتمی فیصلہ کرے یا عدالت کا فیصلہ لیا جائے، پھر برتھ سرٹیفکیٹ میں اندراج میں تبدیلی کر کے نیا سرٹیفکیٹ جاری ہو، جس کی بنیاد پر تمام قانونی دستاویزات ۱۵ دن میں مکمل کی جائیں۔

دفعہ ۶ کو اس ایکٹ کی بجائے آئین میں ترمیم کر کے اس طرح شامل کیا جائے کہ حکومت اورریاست کی ذمہ داری ہو کہ ملک کے تمام شہریوں کو ماسوائے (غیرملکی، مہاجرین) رہائشی، طبی، تعلیمی، سہولتیں اور دیگر ضروریات بلا امتیاز محفوظ طریقہ سے مہیا کی جائیں، اور ہر شخص کو بلا امتیاز و تفریق ترقی و تحفظ کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

دفعہ ۷ میں وراثت کا اسلامی قانون تمام مسلمانوں کے لیے ان کی مقررہ فقہ کے مطابق دیا جائے اور اوسط تعیین بابت وراثت کو ختم کیاجائے۔ اس امر کو ملحوظ رکھا جائے کہ کوئی تبدیلی ریکارڈ بابت جنس محض زائد استحقاق حصول ترکہ نہ ہو، اور نہ ہی دھوکہ کے لیے ہو۔

دفعہ ۸ تا ۱۳ محض تمائشی نہیں کیونکہ آئین پاکستان ۱۹۷۳ء بلا تخصیص ملک عزیز کے تمام شہریوں کو تمام بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔

دفعہ۱۴ میں جنسی تخصیص کے حوالے سے ترمیم کی جائے کہ مساجد اور دیگر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں کا الگ ہونا قطعیت کے ساتھ قائم رہے۔

دفعہ ۱۵ اور ۱۶ میں دیے گئے حقوق آئین پاکستان۱۹۷۳ء کے تحت تمام شہریوں کو دیے گئے ہیں اور کوئی بھی قانون آئین سے بالا دست یا ماورا نہیں ہو سکتا۔

دفعہ ۱۷ محض اضافی شق ہے کیونکہ بھیک مانگنا ملک کے دوسرے متعلقہ قوانین میں جرم قرار دیا گیا ہے اس لیے ملک کے تمام بھکاریوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ایک جیسی تادیبی کاروائی کی جائے جو کہ انتہا کی موثر ہو۔

یہ تجاویز رولز سن ۲۰۲۱ء میں بھی درج کی جائیں۔

2016ء سے
Flag Counter