(دورہ حدیث اور تخصصات کے طلبہ اور اساتذہ کی نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کراچی آنا ہوتا ہے تو جامعۃ الرشید میں حاضری میری ترتیب میں شامل ہوتی ہے۔ جامعۃ الرشید کے ساتھ ابتدا سے الحمد للہ تعلق ہے، اللہ تعالیٰ دارین میں یہ تعلق قائم رکھیں۔ کل مجھے دیگر پروگراموں کے علاوہ ’’قومی حرمتِ سود سیمینار‘‘ میں شرکت کا موقع ملا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے دعوت نامہ بھیجا تو میں نے عرض کیا کہ اتفاق سے ان دنوں کراچی میں ہی ہوں گا، ان شاء اللہ سیمینار میں حاضر ہوں گا۔ کل وہاں حاضر ہوا اور کچھ گزارشات پیش کیں۔ یہ چونکہ منتہی طلبہ اور علماء کی نشست ہے تو میں سود کے مسئلہ کے حوالے سے بریفنگ کے انداز میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ ہمارا اہم دینی اور قومی مسئلہ ہے۔ مسئلہ کیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، موجودہ صورتحال کیا ہے اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس پہلو سے میں اس نشست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
سود قطعی حرام ہے، اور صرف حرام نہیں بلکہ تحدی کے لہجے میں حرام ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ‘‘۔ اللہ تعالیٰ اس کو اعلان جنگ سے تعبیر فرما رہے ہیں۔ یہ ہمارا عقیدہ اور ایمان بھی ہے اور تاریخی پس منظر بھی ہے کہ جب تک دنیا میں مسلمانوں کی حکمرانی رہی، خلافتِ راشدہ، خلافتِ بنو امیہ، خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ ایک ہزار سال سے زیادہ کا دورانیہ ہے، جس میں ہمارا معاشی نظام غیر سودی رہا ہے۔ ہمارے ہاں سودی نظام تب آیا جب مختلف مغربی ممالک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کے قبضہ شروع ہوئے۔ ہم نے نوآبادیاتی دور گزارا ہے اور برطانیہ کے قبضے میں رہے ہیں۔ کوئی ملک فرانس کے قبضے میں رہا ،کوئی پرتگال اور کوئی ہالینڈ کے قبضے میں۔ وہ جو نوآبادیاتی دور تھا کہ ہم پر غیر ملکی حکمران مسلط ہوگئے تھے، اس دور میں ہماری معیشت میں سود آیا، اور صرف آیا نہیں بلکہ اس نے پورے سسٹم کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور اس وقت پاکستان کا معاشی نظام سودی جال میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ میں نے پس منظر عرض کیا کہ ہم سودی نظام میں نوآبادیاتی دور میں شریک ہوئے اور پھر پھنستے چلے گئے۔
اب سے پچھتر سال پہلے جب پاکستان قائم ہوا تو یہ مسئلہ پیش آیا کہ پاکستان کی معیشت کی بنیاد کیا ہوگی؟ باقی شعبوں کے ساتھ ساتھ معیشت کے شعبے کی بات کر رہا ہوں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور نے وفات سے کچھ عرصہ پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا تو اس میں یہ بات دوٹوک فرمائی جو ریکارڈ پر ہے کہ میں پاکستان میں معیشت کا نظام مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے یہ بات صرف جذباتی لہجے میں نہیں بلکہ دلیل کے ساتھ کہی کہ مغرب کے معاشی نظام اور معاشی اصولوں نے دنیا کو جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں دیا، اس لیے ہم مغربی معاشی اصولوں کی پیروی نہیں کریں گے، بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی معیشت کا نظام استوار کریں گے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میں اپنے معاشی ماہرین سے توقع رکھتا ہوں اور انتظار کروں گا کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے روڈ میپ اور نیٹ ورک بنائیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد قائد اعظم فوت ہوگئے۔ یہ میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ ہماری بنیاد یہ تھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستان بنانے والے رہنماؤں کا ویژن یہ تھا کہ صرف باقی شعبے نہیں بلکہ معیشت بھی اسلامی اصولوں پر ہوگی، لیکن ایسے ہوا نہیں اور وہی سودی نظام ابھی تک چل رہا ہے۔
اس دوران آواز اٹھتی رہی۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں بھی کہا گیا کہ ہم سودی نظام ختم کریں گے، ۱۹۶۲ء کے دستور میں بھی یہ کہا گیا، اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں صرف وعدہ ہی نہیں بلکہ گارنٹی دی گئی اور حکومت سے کہا گیا کہ جلد از جلد ملک کو سودی نظام سے نجات دلائے۔ لیکن اس کے بعد ہم سےجلد از جلد کی مدت طے نہیں ہو پا رہی تھی، چنانچہ ہم اسی ’’جلد از جلد‘‘ کے دائرے میں چکر کاٹتے رہے۔
ریاستی سطح پر تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ، اس کے بعد اسلامی مشاورتی کونسل، اور اب اسلامی نظریاتی کونسل وہ سرکاری ادارے ہیں جو اسلامائزیشن کے لیے رہنمائی کرتے آ رہے ہیں۔ ان اداروں نے مختلف مواقع پر یہ تحریک کی کہ ملک کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے۔ اور اس کا متبادل حل کیا ہوگا، یہ بحث بھی ہوتی رہی۔ اس پر جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن مرحوم جو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے شاگردوں میں سے تھے، فقہ پر ان کی معروف کتاب ہے، فاضل آدمی تھے، ان کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل نے مکمل سسٹم دیا۔ وہ رپورٹ موجود ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کا خلاصہ بھی کیا تھا اور اس زمانے میں ہم نے وہ خلاصہ ہفت روزہ ترجمان اسلام کی ایک خصوصی اشاعت میں چھاپا تھا، وہ مکمل رپورٹ بھی آگئی اور پھر یہ مطالبہ ہوتا رہا۔ اسلامی نظریاتی کونسل ریاستی ادارہ ہے، اس کا ڈھانچہ یہ ہے کہ اس میں جسٹس صاحبان، ملک کے مختلف مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام اور ماہرینِ قانون شامل ہوتے ہیں۔ اس کے دائرہ اختیار میں یہ کام ہے کہ اگر حکومت کسی قانون کے بارے میں پوچھے کہ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ تو وہ طے کرتی ہے کہ ہماری رائے یہ ہے کہ یہ قانون شرعی ہے یا نہیں ہے، اس میں یوں اصلاح کر لیں تو شرعی ہو جائے گا وغیرہ۔ یا کوئی ادارہ یا پبلک میں سے کوئی اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھے، یا وہ ازخود کسی قانون کا نوٹس لے تو اس کا دائرہ کار یہ ہے کہ اس نے رائے دینی ہے کہ ملک میں رائج فلاں قانون شریعت کے مطابق نہیں ہے، اور اس کا متبادل یہ ہے۔
اس دور میں جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن صاحب مرحوم و مغفور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے۔ اس کی ایک بڑی مفصل رپورٹ آئی کہ اس کا متبادل یہ ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ آنے کے بعد اس میں مزید پیشرفت یہ ہوئی کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی شرعی عدالت بنی۔ وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار یہ ہے کہ وہ جس قانون کا جائزہ لے کر محسوس کرے کہ یہ غیر شرعی ہے تو وہ اس کی نشاندہی کرے گی کہ فلاں قانون اس حد تک غیر شرعی ہے اور اس کو یوں صحیح کیا جا سکتا ہے، یہ ترمیم کر کے اس کو شریعت کے مطابق بنایا جا سکتا ہے، یہ وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار ہے کہ کسی قانون کو غیر شرعی قرار دے کر حکومت کو اسے تبدیل کرنے کا حکم دے۔
اس وقت لوگوں کو خیال آیا کہ ہم وفاقی شرعی عدالت میں جاتے ہیں کہ تمام کے تمام سودی قوانین غیر شرعی ہیں۔ لیکن دس سال تک ملک کے معاشی نظام کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا کہ دس سال تک معیشت کے کسی قانون کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دس سال گزر گئے تو پھر بہت سی جماعتیں اور ادارے وفاقی شرعی عدالت میں گئے کہ آپ کا اختیار ہے، آپ کسی قانون کو غیر شرعی قرار دے کر حکومت کو اس کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کا آرڈر دے سکتے ہیں، ملک میں جو بھی قوانین سود سے متعلق ہیں وہ غیر شرعی ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے سات آٹھ سال کی سماعت کے بعد فیصلہ دے دیا، جو بڑا اچھا اور تاریخی فیصلہ تھا۔ وہاں بہت سے مسائل پر بحث ہوئی کہ ربوٰا کیا ہوتا ہے، انٹرسٹ کیا ہوتا ہے، کون سا معاملہ سود میں ہے اور کونسا سود میں نہیں ہے، کرنسی ریٹ میں اضافہ ربوٰا کے کھاتے میں آتا ہے یا نہیں۔ بہت سے مسائل زیر بحث رہے، لیکن بالآخر وفاقی شرعی عدالت نے دو ٹوک فیصلہ دے دیا کہ سود سے متعلقہ تمام قوانین غیر شرعی ہیں لہٰذا انہیں تبدیل کیا جائے، اور متبادل بھی پیش کیا کہ ان کو تبدیل کر کے فلاں فلاں قوانین بنائے جائیں۔
ایک وفاقی شرعی عدالت ہے اور ایک سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بینچ ہے کہ اگر کسی کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر کوئی اشکال ہو تو وہاں جائے، رجوع کا حق ہوتا ہے۔ شریعت ایپلیٹ بینچ سپریم کورٹ میں ایک الگ بینچ ہے جس میں علماء اور جسٹس صاحبان ہوتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے بارے میں کوئی رٹ آجائے تو وہ اس کی اپیل سنتے ہیں اور حتمی فیصلہ دیتے ہیں۔ اس موقع پر مختلف بینک سپریم کورٹ میں چلے گئے کہ ہمیں فلاں فلاں اشکالات ہیں۔ سپریم کورٹ کے شریعہت ایپلیٹ بینچ میں اس وقت شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا پیر کرم شاہ الازہریؒ، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ اور دیگر اکابر علماء تھے۔ انہوں نے تفصیل سے تمام اشکالات کا جائزہ لے کر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو درست قرار دیا اور حکومت کو حکم دیا کہ اتنے عرصے کے اندر ان قوانین کو تبدیل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ نے یہ آرڈر دے دیا اور مدت طے کر دی کہ فلاں تاریخ تک تمام قوانین کو تبدیل کیا جائے اور متبادل قوانین لائے جائیں۔ سپریم کورٹ سے اوپر تو کوئی ادارہ نہیں ہے، لیکن نظرثانی کی اپیل ہو سکتی ہے تو نظرثانی کی اپیل دائر ہو گئی۔
ہمارے ہاں روایت ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ یہ قانون کا حصہ ہے یا نہیں، البتہ روایت یہ ہے کہ جس بینچ نے فیصلہ دیا ہو نظرثانی کی اپیل بھی وہی بینچ سنتا ہے۔ وہ بینچ تو موجود تھا، اپیل کرنے والوں کو توقع نہیں تھی کہ یہ بینچ اپنے پہلے فیصلے سے انحراف یا تبدیلی کرے گا تو بینچ کے ختم ہونے کا انتظار کیا گیا۔ یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ میں جو علماء ہوتے ہیں وہ باقاعدہ قانونی پراسس سے جج نہیں ہوتے بلکہ دو تین سال کے کنٹریکٹ پر ہوتے ہیں۔ انہیں جسٹس کا اسٹیٹس تو مل جاتا ہے لیکن باقی چیزیں رہ جاتی ہیں۔ یہ فرق ہے۔ اور یہ ایک مستقل مسئلہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے ضوابط، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ضوابط، اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے ضوابط ایک دوسرے کے موافق نہیں ہیں، اور ان میں ایسے جھول موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر فیصلوں کو سبوتاژ اور معطل کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت بینچ میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور دیگر جن حضرات نے فیصلہ لکھا تھا۔ ان کی کنٹریکٹ مدت کے ختم ہونے کا انتظار کیا گیا۔ ان کی مدت ختم ہوئی تو دوبارہ ان سے کنٹریکٹ نہیں کیا گیا بلکہ نیا بینچ تشکیل پایا۔ کنٹریکٹ کرنے والے کی مرضی ہے کہ نیا کنٹریکٹ کرے یا نہیں۔ اس کو ہم یوں تعبیر کر دیتے ہیں کہ انہوں نے پہلے بینچ کو توڑا اور نیا بینچ بنایا، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم نے قانونی اور ٹیکنیکل طور پر صحیح کیا ہے کہ وہ بینچ ختم ہو گیا تھا تو ہم نے نیا بینچ بنایا ہے۔ اس بینچ نے اس کی سماعت کی اور یہ فیصلہ دیا کہ سماعت میں کچھ سقم رہ گیا ہے لہٰذا ازسرنو سماعت کی جائے۔ ازسرنو سماعت کا مطلب یہ تھا کہ وہ کیس جو پہلے اٹھارہ سال گزار چکا تھا، اٹھارہ سال پہلے کے زیرو پوائنٹ پر چلا گیا۔ میں نے اس پر کالم لکھا تھا کہ ہمیں لڈو کا سانپ ڈس گیا ہے۔ لڈو میں چلتے چلتے اٹھانوے پر سانپ ڈس جائے تو زیرو پر چلا جاتا ہے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت دوبارہ سماعت کرے، انہوں نے تو ایک جملہ ہی لکھا لیکن ہمارا حشر نشر ہوگیا۔
یہ بات آپ کے علم میں آنا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں کام کیسے ہوتا ہے۔ اب وفاقی شرعی عدالت اٹھارہ سال پہلے والی نہیں تھی بلکہ نئی تھی۔ وفاقی شرعی عدالت نے ازسرنو سماعت کی اور جن مسائل پر اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت میں پہلے پوری طرح بحث ہو چکی تھی، سوالات، اشکالات حل ہوچکے تھے کہ یہ ربوٰا ہے، یہ انٹرسٹ ہے، سارے مباحث ہو چکے تھے، فیصلہ ہو چکا تھا، اب وہ سارے مباحث دوبارہ کھڑے ہو گئے۔ اس پر ایک لطیفہ کی بات عرض کر دیتا ہوں کہ جو شریعت ایپلیٹ بینچ تبدیل ہوا تھا اور اس کے حضرات نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ کیس میں قانونی سقم رہ گیا ہے اس لیے دوبارہ سماعت کی جائے، ان میں سے ایک جج صاحب جو ریٹائرڈ ہو گئے تھے اور اب فوت ہوگئے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے؟ آپ سیدھا کہہ دیتے کہ فیصلہ غلط ہوا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کیا یہ کہہ کر میں نے کافر ہونا تھا؟ چنانچہ اس طرح ٹیکنیکل طریقہ اختیار کیا گیا۔
اس مرحلے میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک سوالنامہ نئے سرے سے جاری کیا اور ملک میں مختلف مکاتبِ فکر کے سینکڑوں علماء کو بھجوا دیا۔ وہ فقہی نوعیت کے سوالات تھے۔ فقہی نوعیت کے سوالات ہوں اور مختلف مکاتبِ فکر کے سینکڑوں علماء کو وہ سوالنامہ بھیجا جائے تو ظاہر ہے کہ جواب ایک نہیں آئے گا۔ ہم سمجھ گئے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جب جوابات مختلف آئیں گے تو ہم یہ کہہ دیں گے کہ علماء آپس میں متفق نہیں ہیں اس لیے اس مسئلہ کو چھوڑو۔ لہٰذا اس مرحلے پر ہم دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کچھ دوست اکٹھے ہوئے۔ جس کے محرک ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم تھے، بریلوی مکتبِ فکر کے تھے اور میرے دوست تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کریں اور ان کے درجات بلند فرمائیں۔ انہوں نے کچھ دوستوں سے بات کی کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ گڑبڑ ہو جائے گی، تو کیا کریں؟ اس موقع پر ہم نے ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے نام سے ایک فورم تشکیل دیا۔
’’ملی مجلس شرعی‘‘ میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، جماعتِ اسلامی اور شیعہ سب شامل ہیں اور اس کا دائرہ کار یہ ہے کہ جب اس طرح کا علمی مسئلہ پیش آئے تو وہ ایک مشترکہ رائے قائم کرے اور اسے اوپن کر دے کہ ہماری مشترکہ رائے یہ ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اس مسئلے پر سارے متفق نہیں ہیں۔ اس کے پہلے صدر ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ تھے، میں نائب صدر تھا، پھر بریلوی مکتب فکر کے بڑے عالم مولانا مفتی محمد خان قادریؒ اس کے صدر رہے، وہ فوت ہوئے تو اب میں اس کا صدر ہوں۔ اور مجلس کے سیکرٹری ملک کے معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد امین چلے آ رہے ہیں۔ اس میں سب ہمارے ساتھ شریک ہیں، تمام مکاتب فکر کی سرکردہ شخصیات ہمارے فورم کا حصہ ہیں۔ اس موقع پر ہم نے یہ طے کیا کہ اس سوالنامے کے جو جوابات آتے ہیں آتے رہیں، لیکن تمام مکاتبِ فکر کی طرف سے ایک متفقہ جواب بھی ریکارڈ پر آنا چاہیے تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ اس مسئلے پر علماء متفق نہیں ہیں۔ ہم نے الحمد للہ جواب تیار کیا اور متفقہ طور پر لاہور کے تمام بڑے جامعات مثلاً جامعہ اشرفیہ، جامعہ مدنیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ سلفیہ، جماعت اسلامی منصورہ اور جامعہ المنتظر کے دستخط کروائے اور جواب بھیج دیا کہ ان سوالات کے جواب میں یہ ہمارا متفقہ موقف ہے۔ یہ متفقہ موقف وفاقی شرعی عدالت کے ریکارڈ میں جمع کرا کر ہم نے یہ دروازہ بند کر دیا کہ علماء آپس میں متفق نہیں ہیں۔
یہ تو پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد یہ مرحلہ آیا کہ سماعت کی تاریخ ہی نہیں آ رہی تھی، کیس فریزر میں پڑا تھا، کوئی فریزر کا دروازہ کھولے گا تو کیس نکلے گا۔ شروع میں کیس دائر کرنے والے تو خاصے گروپ تھے، لیکن سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کی سطح پر مسلسل عدالتی کیس کی پیروی کرنا آسان کام نہیں ہے، تو دو جماعتوں نے تسلسل کے ساتھ محنت کی، ایک جماعتِ اسلامی اور دوسری محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی تنظیمِ اسلامی۔ انہوں نے استقامت اور تسلسل کے ساتھ کیس لڑا اور اب تک عدالت میں یہی دونوں کھڑے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں ان دوستوں نے ہم سے بات کی کہ ہم کھڑے تو ہیں لیکن کچھ شور مچے گا تو تاریخ نکلے گی ورنہ نہیں نکلے گی، اس کی کوئی صورت نکالیں۔ الحمد للہ ہمارے ہاں لاہور، گوجرانوالہ میں یہ ماحول ہے کہ اس قسم کے مسائل میں ہم تمام مکاتبِ فکر اکٹھے ہو جاتے ہیں، اکٹھے بیٹھ کر کوئی راستہ نکالتے ہیں اور کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔ اس موقع پر ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور ’’تحریکِ انسدادِ سودِ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک اور فورم تشکیل دیا، اس میں بھی تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ ذمہ دار حضرات شریک ہیں، لیکن اس کا ٹائٹل سود کے حوالے سے ہے، اس کا کنوینر مجھے بنایا گیا۔ ہم نے اس کی مہم چلائی۔ کراچی، اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد میں کنونشن کیے اور آواز اٹھائی کہ مقدمہ نکالو تو سہی، سنو تو سہی۔ یوں اس جدوجہد سے تاریخیں لگنا شروع ہو گئیں، لیکن پھر بھی کئی سال لگ گئے، اور بالآخر وفاقی شرعی عدالت نے گذشتہ رمضان المبارک میں ستائیسویں شب کو فیصلہ کا اعلان کر دیا۔
وہی فیصلہ جو وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ نے کیا تھا، اس فیصلے کو مزید واضح کر کے اور شکوک و شبہات دور کر کے جامع اور مکمل فیصلہ سنا دیا اور اس پر عملدرآمد کے لیے پانچ سال کی مدت دی۔ یہ مدت اگرچہ ہمارے نزدیک زیادہ تھی لیکن ہم نے سوچا کہ جہاں تیس سال گزارے ہیں تو پانچ سال اور سہی۔ چنانچہ ہم نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا، ملک بھر میں اجتماعات کیے اور خوشی کا اظہار کیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے دو ٹوک، جامع، مکمل اور مکمل متبادل سسٹم کے ساتھ فیصلہ دیا اور اس میں یہ بھی کہا کہ اگر کہیں الجھن پیش آئے تو ہم وضاحت کے لیے حاضر ہیں۔ جب فیصلہ آ گیا تو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اگر کسی نے اپیل کر دی تو پھر وہی معاملہ ہوگا۔ لہٰذا ہم نے اجتماعات کر کے حکومت سے اپیل کی کہ جب عدالت نے پانچ سال دے دیے ہیں، اس دوران الجھن کے حل کے لیے خود کو پیش بھی کیا ہے، ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کی قرارداد بھی آ گئی کہ ہم اس کے عملدرآمد میں مکمل تعاون کریں گے، جہاں الجھن ہوگی ہم راستہ دیں گے، تو اب کسی کو اپیل نہیں کرنی چاہیے۔ ہم نے یہ آواز اٹھائی کی کہ اپیل نہ کریں، روڈ میپ بنائیں، پانچ سال کا عرصہ بہت وقت ہے، شروع کریں گے تو پانچ سال ختم ہوں گے۔ لیکن پھر بھی سپریم کورٹ میں مختلف بینکوں کی طرف سے اپیلیں چلی گئیں۔ اسٹیٹ بینک، نیشنل بینک اور بعض پرائیویٹ بینکوں نے اپیل کر دی۔ میری معلومات کے مطابق ستائیس اپیلیں کی گئیں۔
ایک فرق اور ذہن میں رکھ لیں کہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں کسی فیصلے کے خلاف اپیل کریں تو اگر حکمِ امتناعی لینا ہو تو درخواست دینی پڑتی ہے کہ سٹے دیا جائے، لیکن وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل میں سٹے آرڈر کے لیے الگ درخواست نہیں دینی پڑتی، اپیل سماعت کیلئے منظور ہونے کے ساتھ ہی سٹے آرڈر ہو جاتا ہے۔ یہ ٹیکنیکل اور بنیادی فرق ہے۔ اس لیے اپیلوں کی وجہ سے وہ سارا کام رک گیا۔
پھر ایک اور مرحلہ یہ پیش آیا کہ حکومت بدلی اور نئی حکومت آئی، مولانا فضل الرحمٰن صاحب اس حکومت کا حصہ ہیں تو ہم نے ان سے گزارش کی کہ اس معاملے میں کوشش کریں۔ انہوں نے وزیر اعظم سے بات کی۔ یوں مولانا فضل الرحمٰن اور دوسرے حضرات کی کوششوں سے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ٹاسک فورس بنائی۔ لیکن عملی صورتحال یہ تھی کہ ٹاسک فورس کا اعلان ہوگیا جس میں اسٹیٹ بینک مرکزی کردار ہے۔ جبکہ ملکی معیشت میں بھی مرکزی کردار اسٹیٹ بینک ہے۔ اسٹیٹ بینک ٹاسک فورس میں بھی ہے اور ادھر اپیل میں بھی کھڑا ہے تو ہم نے سوال اٹھایا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ ہم نے اسٹیٹ بینک سے سوال کیا کہ آپ کس طرف ہیں، ٹاسک فورس میں عملدرآمد کے لیے بیٹھے ہیں یا اپیل میں سٹے کے لیے کھڑے ہیں؟ اس الجھن پر ہم نے پھر کوشش کی اور ادھر مولانا فضل الرحمٰن نے دباؤ ڈالا تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کچھ دن پہلے اعلان کیا کہ سرکاری بینک اپیلیں واپس لے رہے ہیں۔ نیشنل بینک اور اسٹیٹ بینک کی تقریباً تیرہ اپیلیں بنتی ہیں جو انہوں نے واپس لے لیں۔ ہم نے اس کا خیرمقدم کیا کہ اچھی بات ہے۔
ہم نے دو باتوں کا خیرمقدم کیا۔ ایک تو سرکاری بینکوں کے اپیلیں واپس لینے پر، اور اس کے ساتھ دوسری بات جو اس سے زیادہ اہم ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ نے سود کے خاتمے کا واضح اعلان کیا ہے۔ البتہ یہ بات میں آپ کے ریکارڈ میں لانا چاہتا ہوں کہ یہ پہلی بار نہیں بلکہ دوسری بار اعلان ہوا ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۸۴ء میں جب وزیر خزانہ غلام اسحاق خان تھے جو بعد میں صدرِ پاکستان بنے، انہوں نے ۱۹۸۴ء کے بجٹ کی نشری تقریر میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے غیر سودی بینکاری اور معیشت کی تیاری کے تمام مراحل طے کر لیے ہیں، سارے اشکالات دور کر دیے ہیں اور میں قوم کو خوشخبری سناتا ہوں کہ اگلے سال کا بجٹ غیر سودی ہوگا۔ اس پر ہم بہت خوش ہوئے کہ اگلے سال کا بجٹ غیر سودی ہوگا، لیکن بدقسمتی سے وہ اگلا سال ابھی تک نہیں آیا۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم سودی بینکاری اور سودی معیشت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور اس پر عملدرآمد کا اعلان کرتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اعلان کرنے والے دونوں وزیر خزانہ اسحاق ہیں۔ میں نے اس پر کالم میں لکھا کہ پہلے بھی اسحاق تھے اور یہ بھی اسحاق ہیں، اللہ کرے کہ اسحاق ڈار کا اعلان اسحاق خان کے اعلان سے مختلف ہو۔
اس اعلان کے بعد ہم اس مرحلے پر آگئے کہ کچھ اپیلیں واپس ہو گئی ہیں، اللہ پاک اپیلیں واپس لینے والوں کا بھلا کرے کہ انہوں نے قوم کی بات مان لی ہے، لیکن پرائیویٹ بینکوں کی چودہ اپیلیں سپریم کورٹ میں پڑی ہیں، کل سیمینار میں کوئی اور تعداد بتائی گئی، لیکن میری معلومات کے مطابق ستائیس میں سے تیرہ اپیلیں واپس ہو گئی ہیں اور چودہ باقی ہیں، بہرحال جتنی بھی اپیلیں پڑی ہیں، اگر ان میں سے ایک اپیل بھی سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں ہو گی تو سٹے قائم رہے گا۔ اور اگر سٹے رہے گا تو ٹاسک فورس کیا کرے گا، کمیٹیاں کیا کریں گی اور وزارت خزانہ کیا کرے گی؟ اس فیصلے پر عملدرآمد کا پہلا ورق بھی نہیں کھولا جا سکتا۔ اس پر مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے مختلف حضرات سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے تو میں نے کہا کہ ہم لاہور، گوجرانوالہ وغیرہ کی سطح پر تو آواز بلند کر لیتے ہیں، آپ قومی سطح پر کوئی صورت نکالیں، پریشر ڈویلپ کریں گے تو شاید بات آگے چلے۔ یوں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے باہم مشورہ کیا اور کل کا سیمینار ہوا۔ اس کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس بڑھاپے میں بہت محنت کی ہے، میں سارے مراحل سے واقف ہوں کہ ان کو کیا کچھ کرنا پڑا ہے اور انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ چنانچہ کل جو قومی حرمتِ سود سیمینار ہوا یہ ان دو شخصیتوں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمٰن کی محنت کا نتیجہ ہے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دیں۔
اس موقع پر دو تبدیلیاں نظر آئی ہیں، پہلی صورتحال سے دو باتیں تبدیلی کی ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت زیادہ واضح لفظوں میں اعلان کر رہی ہے کہ ہم سودی نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں، سودی نظام سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، ہم تیار ہیں، عملدرآمد کریں گے اور عملدرآمد کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس لہجے میں سرکاری حلقوں کی طرف سے میں یہ اعلان پہلی دفعہ سن رہا ہوں۔ دوسری یہ بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ اس موقع پر بزنس کمیونٹی کی اعلیٰ ترین قیادت ہمارے ساتھ بلکہ ہم سے آگے کھڑی ہے، اور ہم سے سپورٹ مانگ رہی ہے۔ کل کے سیمینار میں یہ دو بڑی باتیں میں نے دیکھی ہیں۔ جس میں ملک کے تمام مکاتبِ فکر کی اعلیٰ ترین دینی قیادتیں کسی استثنا کے بغیر اکٹھی ہوئی ہیں، سب نے اس پر اتفاق کا اظہار کیا ہے اور گویا قومی عزم کا اظہار ہوا ہے کہ ہم نے ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کرنا ہے۔ اسی طرح بزنس کمیونٹی کی قیادت اس جدوجہد کی صفِ اول میں دکھائی دے رہی ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
یہاں تک تو کل کے سیمینار کے پس منظر کی بات ہے۔ اب آگے کیا ہوگا اور ہم نے کیا کرنا ہے؟ تبلیغی جماعت کی اصطلاح کے مطابق وعدہ تو ہو گیا ہے، اب وصولی کیسے کرنی ہے؟ اور سیاسی لوگوں کی اصطلاح ہے کہ جتنا کام ہو گیا ہے اسے کیش کیسے کروانا ہے؟ اب وصولی کا اور اس سارے عمل کو کیش کروانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر اس کی پشت پر دینی حلقوں کی قوت مجتمع کر کے، اکیلے اکیلے نہیں بلکہ اسی طرز پر سارے اکٹھے بیٹھ کر اس کا پیچھا کریں گے تو کام ہوگا۔ اس کے لیے ایک کام تو دینی اور سیاسی جماعتوں کا ہے کہ پبلک پریشر منظم کریں۔ پبلک پریشر میں دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی اجتماعیت قائم رکھیں اور اس کا اظہار کرتے رہیں، کہیں یہ مرحلہ نہ پیدا ہونے دیں کہ فلاں تمہارے ساتھ نہیں ہے۔ جس دن کوئی فلاں الگ ہوا تو کام خراب ہو جائے گا۔ پبلک پریشر قوت کا پہلا حصہ یہ ہے کہ سب اکٹھے نظر آئیں۔ اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ ہم عوام کو اپنے ساتھ ملائیں، یہ دینی اور سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ رائے عامہ کو منظم کریں اور عوام کو سڑکوں پر لائیں۔
جبکہ ایک کام ہمارے حلقے یعنی اہلِ علم کا ہے۔ میں تو خیر اہلِ علم میں سے نہیں ہوں، ان کا خادم ہوں، جبکہ علمی اداروں، علمی مراکز اور علماء کرام کا کام یہ ہے کہ اب قدم قدم پر اشکالات پیش آئیں گے، سوالات کھڑے ہوں گے، الجھنیں پیدا ہوں گی، کنفیوژن دکھائے جائیں گے۔ ان کا سامنا کرنا اور اس فیصلے کا علمی دفاع اس حلقے کا کام ہے۔ جب ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمیں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر اعتماد ہے تو اس میں اگر ایک آدھ کمزوری ہو بھی تو اس کا علمی اور فقہی دفاع کرنا اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔ سیکولر حلقہ سینکڑوں قسم کے شکوک و شبہات لائے گا، کچھ پریکٹیکل، کچھ فقہی، کچھ نظریاتی اور کچھ اور نوعیت کے ہوں گے کہ کسی طریقے سے اس فیصلے پر اتفاق ٹوٹ جائے۔ ان کا سب سے بڑا ہدف اور حربہ یہ ہوگا کہ اس فیصلے پر جو قوم کا اتفاق ہے کہ اسے نافذ ہونا چاہیے، اس اتفاق میں رخنہ ڈالا جائے۔ اس سے بچنا، فیصلے پر قومی اتفاق کو قائم رکھنا، علمی اشکالات کا جواب دینا، لوگوں کی ذہن سازی کرنا، یہ علمی حلقے کی ذمہ داری ہے۔ دوسرے لوگوں کو چھوڑیں، اس وقت خود علماء کی ذہن سازی اس سطح کی نہیں ہے کہ آج کے ماحول کے اعتبار سے سود کا عالمی تناظر کیا ہے، اشکالات اور ان کا عملی حل کیا ہے؟ فقہی اشکالات کہ یہ معاملہ سود ہے یا نہیں ہے؟ اس طرح کے مسائل اب زیادہ شدت سے کھڑے ہوں گے۔ اس لیے جامعات، علمی اور دینی اداروں اور مفتیان کرام کی ذمہ داری میرے نزدیک یہ ہے کہ اس فیصلے پر قومی اتفاق کو قائم رکھیں، قومی اتفاق کا اظہار اور علمی اشکالات کے جوابات اور قوم کو مطمئن کرنا ان کا کام ہے۔ اگر ہم یہ دو کام کر سکے۔ ایک مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا کام اور دوسرا اہل علم اور جامعات کا کام۔ اگر ہم یہ کر سکے تو مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ العزیز ہم پانچ سال کے مقررہ وقت میں پورا نہیں تو بیشتر حصہ حاصل کر چکے ہوں گے۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!