اسلامی نظام میں نمائندگی کا تصور کیا ہے؟

   
جنوری ۱۹۹۰ء

سوال: کیا اسلامی نظام میں حکومت اور عوام کے درمیان نمائندوں کے کسی طبقے کا وجود ہے؟ اور اسلام میں اس کا تصور کیا ہے؟ (حافظ عبید اللہ عامر، گوجرانوالہ)

جواب: کسی مسئلہ پر عوام کی رائے کو صحیح طور پر معلوم کرنے کے لیے نمائندگی کا تصور اسلام میں موجود ہے۔ غزوۂ حنین کے بعد غنیمت کا مال تقسیم ہوا اور مفتوحین کی طرف سے اپنے قیدی واپس لینے کے لیے ایک وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تو چونکہ قیدی مجاہدین میں تقسیم ہو چکے تھے اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کی واپسی کے لیے مجاہدین کی رضا اور رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مجاہدین کو جمع کیا جن کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی، ان سب کے سامنے مسئلہ پیش کر کے ان کی رائے طلب کی، سب نے اجتماعی آواز سے جواب دیا کہ ہمیں قیدیوں کی واپسی بخوشی منظور ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتماعی جواب پر اکتفاء نہیں کیا اور ارشاد فرمایا کہ

’’انا لا ندری من اذن منکم فی ذٰلک ومن لم یاذن فارجعوا حتٰی یرفع الینا عرفاءکم امرکم۔‘‘ (بخاری ج ۲ ص ۶۱۸)

’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں۔ اس لیے تم سب (اپنے خیموں میں) واپس جاؤ حتٰی کہ تمہارے عرفاء تمہارا معاملہ ہمارے سامنے پیش کریں۔‘‘

چنانچہ مجاہدین اپنے خیموں میں چلے گئے اور عرفاء نے ان سے الگ الگ رائے معلوم کر کے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک اسے پہنچایا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کی واپسی کا فیصلہ کیا۔

عرفاء ’’عریف‘‘ کی جمع ہے اور عریف عرب معاشرے میں ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو عوام کے مسائل سرداروں اور حکمرانوں تک پہنچاتے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس طبقہ کو اپنے فیصلہ کی بنیاد بنایا ہے بلکہ ایک موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ

’’ان العرافۃ حق ولابد للناس من عرفاء رواہ ابوداؤد۔‘‘ (مشکٰوۃ ص ۳۳۱)

’’عرافہ حق ہے اور لوگوں کے لیے عرفاء کا وجود ضروری ہے۔‘‘

اس لیے اسلامی نظام میں حکومت اور عوام کے درمیان ایک ایسے طبقے کے وجود اور اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے جو عام لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے مسائل اور اجتماعی امور پر ان کی رائے حکومت تک پہنچا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter