دفاعِ وطنِ عزیز کے چار بڑے دائرے

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۶ ستمبر ۲۰۲۳ء

(یومِ دفاع کے موقع پر جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر مولانا عبد الرزاق کی زیر صدارت علماء و طلبہ کے بھرپور اجتماع سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ۶ ستمبر ہے جو قومی سطح پر یومِ دفاع پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن تحریکِ پاکستان کے شہداء، ۱۹۶۵ء کی جنگ کے شہداء اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جہاں بھی ہمارے جوانوں فوجیوں اور سویلین نے قربانیاں دی ہیں ان کا تذکرہ ہوتا ہے، انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، ان کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں اور وطن کے دفاع کے لیے تجدید عہد کیا جاتا ہے۔

۱۹۶۵ء میں آج کے دن بھارت نے پاکستان کی مختلف سرحدوں پر یلغار کر دی تھی، بالخصوص لاہور اور سیالکوٹ ان کا ٹارگٹ تھے اور لاہور پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھائی کر دی تھی۔ پاکستانی فوج کے جوانوں نے جانیں دے کر اور عوام نے قومی وحدت کا اظہار کرتے ہوئے فوج کی پشت پر کھڑے ہو کر ملک کا دفاع کیا تھا۔ پرانے بزرگوں کو وہ منظر یاد ہوگا، مجھے بھی یاد ہے، میں دیکھ بھی رہا تھا اور اس جنگ میں عملاً دو تین حوالوں سے شریک بھی تھا۔ وطن کا دفاع ہمارا قومی فریضہ اور دینی ذمہ داری ہے اور یہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ دفاع وطن کے حوالے سے آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں میں اس کا تین چار حوالوں سے ذکر کرنا چاہوں گا۔

(۱) جغرافیائی دفاع

پہلا دائرہ سرحدوں کا دفاع ہے جسے جغرافیائی دفاع کہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی سرحدوں کو جو خطرات درپیش چلے آ رہے ہیں اور جو خطرات آئندہ ہو سکتے ہیں ہمیں ان سے باخبر ہونا چاہیے۔ سرحدوں کی حفاظت بنیادی طور پر فوج کی ذمہ داری ہے، اس میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم فوج کے پیچھے کھڑے ہوں، وحدت اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں، اپنے جوانوں کو حوصلہ دلائیں، ان کی پشت پناہی کریں۔ اس حوالہ سے جغرافیائی دفاع کے دو پہلوؤں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو موجودہ حالات میں ہمیں درپیش ہیں۔

ایک پہلو ہے تکمیلِ پاکستان کا کہ آج سے پون صدی پہلے ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں وطن آزاد ہوا اور پاکستان قائم ہوا تھا، جو سرحدیں اس وقت ہمارے پروگرام میں تھیں وہ آج نہیں ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ کشمیر ہماری سرحدوں میں پورا موجود نہیں ہے حالانکہ کشمیر پاکستان کے تصور کا لازمی حصہ تھا۔ جبکہ یہ کشمیریوں کا حق ہے اور ہمارا اُن سے وعدہ بھی ہے کہ ہم انہیں آزاد کرائیں گے۔ انہوں نے ہم سے یہ وعدہ کیا کہ وہ آزاد ہوں گے تو پاکستان میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے۔ ان کا نعرہ ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور ہمارا نعرہ ہے کہ کشمیر آزاد ہوگا۔ یہ ہمارا باہمی معاہدہ ہے لیکن یہ منزل ابھی دور ہی نظر آ رہی ہے۔

دوسرا ہمیں یہ پہلو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جو پاکستان ہم نے ۱۹۴۷ء میں قائم کیا تھا، اپنی کوتاہیوں اور بے توجہی کی وجہ سے اس کا ایک حصہ گنوا چکے ہیں۔ مگر جن کوتاہیوں کی وجہ سے ہم ۱۹۷۱ء میں آدھا حصہ گنوا چکے ہیں ہم نے ان سے توبہ نہیں کی۔ مجھے اور آپ کو بڑی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری جن حماقتوں کی وجہ سے ملک تقسیم ہوا تھا، مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان الگ ہوا تھا اور ہماری فوج سرنڈر کر گئی تھی، وہ ہماری کوتاہیاں کیا تھیں؟ وہ کوتاہیاں مفروضے نہیں ہیں بلکہ حقائق کی صورت میں ریکارڈ پر موجود ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں کمیشن قائم ہوا تھا، انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب لکھے تھے، وہ رپورٹ ریکارڈ پر موجود ہے۔ میں پڑھے لکھے دوستوں بالخصوص نئی نسل سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جسٹس حمود الرحمٰن کمیشن نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے جن اسباب کا تعین کیا تھا اور جو وجوہات بیان کی تھیں، نہ ہم ان سے توبہ کر رہے ہیں، نہ ہمیں ان پر شرمساری ہے۔ اس لیے ہمیں پاکستان کے تقسیم ہونے کے اسباب اور اپنی سرحدوں کے سکڑنے کے اسباب معلوم رہنے چاہئیں تاکہ آئندہ ہم احتیاط کر سکیں۔

میں نے یہ عرض کیا ہے کہ جب تک کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کے حصہ نہیں بنے گا پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں مکمل نہیں ہوں گی۔ اس پر بھی ہمیں نظر ثانی کرنی چاہیے کہ ہم کشمیر کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے اور ہماری کوتاہیاں کیا ہیں؟ اس کے ساتھ ہمیں اپنی فوج کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں کے ایک ایک چپے کے دفاع کے لیے اپنے عزم کی تجدید کرنی چاہیے کہ جب بھی ملک کو ضرورت پڑی، ملک کی کسی سرحد پر قربانی کی ضرورت پڑی تو ہم اپنی فوج کے ساتھ ہیں، فوج کے پیچھے کھڑے ہیں۔

(۲) تہذیبی دفاع

دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کے دفاع کا ایک دائرہ تہذیبی ہے، اس پر بھی ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ دو قومی نظریہ سر سید احمد خان مرحوم نے پیش کیا تھا، علامہ اقبالؒ نے علمی اور فکری دنیا میں اس کو واضح کیا جبکہ قائد اعظم مرحوم نے اس کے لیے تحریک کی قیادت کی۔ اس نظریہ کی بنیاد پر ہی پاکستان بنا تھا۔ دو قومی نظریہ یہ تھا کہ ہندو تہذیب الگ ہے اور مسلم تہذیب الگ ہے، اس لیے ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے اور ہمیں الگ الگ ہونا چاہیے۔ مسلم ثقافت کے تحفظ کے لیے، ہندو ثقافت کے غلبے سے بچنے کے لیے اور امتیاز قائم رکھنے کے لیے ہم نے کہا تھا کہ ہم دو قومیں ہیں اور اس بنیاد پر ہم نے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔

میں اس پر یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا دو قومی نظریہ، تہذیبی کشمکش اور الگ وطن کے مطالبہ سے مطلب یہ تھا کہ ہم ہندو تہذیب کی غلامی اور غلبے سے نکل کر انگریزی تہذیب میں شامل ہو جائیں گے؟ یا یہ مقصد تھا کہ مسلم تہذیب کا احیا کریں گے؟ اب ہم کر کیا رہے ہیں؟ ہماری تہذیب کہاں ہے؟ آج ہمارے کالجوں، یونیورسٹیوں، ہماری دانش گاہوں میں کون سی تہذیب جڑ پکڑتی جا رہی ہے اور اسلامی روایات کہاں جا رہی ہیں؟ یہ معمولی سوال نہیں کہ نظر انداز کر دیں۔ ہم نے ہندو تہذیب سے علیحدگی اختیار کی تھی، انگریزی تہذیب قبول کرنے کے لیے نہیں، بلکہ مسلم تہذیب کے احیا کے لیے۔ آج ہمارے ریاستی ادارے، سرکاری محکمے، ہماری تعلیم گاہیں اور دانش گاہیں مسلم تہذیب کے احیا کی بات کر رہی ہیں یا ویسٹرن تہذیب کے غلبے کی بات کر رہی ہیں؟ اور مسلم تہذیب کے احیا کی بات کس نے کرنی ہے؟ اس لیے آج میں یہ سوال اٹھا رہا ہوں کہ ہمارا ایک تہذیبی دائرہ ہے۔ ہم نے مسلم تہذیب اور مسلم ثقافت کے احیا کے لیے ہندو تہذیب کے غلبے سے نجات حاصل کی تھی لیکن اب ہم ویسٹرنائزیشن اور مغربی تہذیب کے غلبے میں گھستے جا رہے ہیں اور مغربی تہذیب ہم پر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔

میں نے دفاع وطن کا دوسرا دائرہ یہ عرض کیا ہے کہ اپنی تہذیب کا دفاع اور تحفظ بھی دفاعِ وطن کا تقاضہ اور پاکستان کے دفاع کا ایک مستقل دائرہ ہے۔

(۳) قومی خودمختاری کا دفاع

تیسری بات یہ ہے کہ ۱۷۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہم پر قبضہ کیا تھا۔ وہ یہاں معیشت اور تجارت کے نام پر داخل ہوئے تھے، انہوں نے یہاں لڑائیاں شروع کر دی تھیں اور قبضہ کر لیا تھا۔ وہ بڑھتے بڑھتے دہلی تک آئے تھے اور پورے انڈیا کو کنٹرول کر لیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تجارتی کمپنی تھی، فوج نہیں تھی، اس نے فوج یہاں آ کر بنائی تھی اور یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ اس کی فوج ہم خود بنے تھے۔ یہاں تک کہ برصغیر کے اکابر علماء کو انگریزی فوج میں بھرتی ہونے کو حرام قرار دینے کا فتویٰ جاری کرنا پڑا تھا۔ تجارت اور معیشت کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں قبضہ کیا جو ایک سو سال رہا، پھر برطانیہ خود آ گیا اور ایک سو نوے سال ان کا قبضہ رہا۔ اس کا آغاز معیشت پر قبضے سے تھا۔ آج ہماری معیشت اسی پوزیشن پر واپس چلی گئی ہے۔ اس لیے میں اصحابِ فکر و دانش کو دعوت دوں گا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمارے ساتھ معیشت کے میدان میں سو سال کیا کیا تھا؟ اور آج آئی ایم ایف ہمارے ساتھ معیشت کے میدان میں کیا کر رہی ہے؟ کسی کو ان دونوں میں فرق نظر آتا ہو تو نشاندہی فرما دیں۔ آج وہی معاملہ ہمارے ساتھ آئی ایم ایف کا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ ہماری معیشت ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے۔ ہم پر مہنگائی اور قرضے مسلط ہیں۔

ہمارے پڑوس میں افغانستان ہے، وہ کسی سے کچھ نہیں مانگ رہے۔ ایک تازہ رپورٹ ہے کہ ڈالر میں بہتر (۷۲) افغانی ہیں اور سوا تین سو (۳۲۵) روپے ہیں۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا رہے۔ عالمی بینک، ورلڈ بینک کی رپورٹ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تیس فیصد معیشت بحال کر لی ہے۔ جبکہ ہماری معیشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ میں تفصیلات میں نہیں جاتا، صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ آج ہم معیشت کے میدان میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے غلام ہیں اور ہماری معیشت ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ سٹیٹ بینک ہمارا سرکاری اور ریاستی بینک ہے، اس پر کنٹرول کس کا ہے، کس کی نگرانی ہے، اس کی پالیسیاں کون بناتا ہے؟ یعنی دکان میری ہے، اس میں سارا سامان میرا ہے، کاروبار میرا ہے، گلہ میرا ہے، لیکن اس کی چابی آئی ایم ایف کے پاس ہے۔ آج ملک کی معیشت کو آزاد کرائے بغیر ہم ملک کے دفاع کی بات کریں گے تو اپنے آپ کو دھوکا دیں گے۔ ہمیں دھوکے کی فضا سے نکلنا چاہیے۔ ہمیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا دوٹوک سامنا کرنا پڑے گا اور ملک کی معیشت کو ان کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہمارے دو طبقوں کو بطور خاص اسٹینڈ لینا ہوگا۔ ایک طبقہ عیاش طبقہ ہے جس کو عیاشیاں چھوڑنی ہوں گی اور دوسرا طبقہ عوام کا ہے کہ عوام کو متحد ہونا ہوگا۔

میں یہاں ایک فارمولا ذکر کرنا چاہوں گا کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جب امیر المومنین بنے تو ان کو بھی اسی قسم کے مسائل درپیش تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ کیا کہ تمام اَپر کلاس کے پاس بیت المال کے جو اثاثے تھے وہ سب ضبط کر کے بیت المال میں شامل کیے اور خود اپنی ذاتی زندگی میں تعیش چھوڑ کر سادہ زندگی پر آئے۔ اس لیے ہمارا عیاش طبقہ خواہ وہ کسی وردی میں ہو جب تک عیاشی نہیں چھوڑیں گے، ملک کی آزادی کا تحفظ ممکن نہیں ہے، عیاشی چھوڑنی پڑے گی اور غیر ملکی مداخلت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے دوسرا کام یہ کیا کہ بہت سے ٹیکس ختم کیے۔ یہ تاریخی واقعہ ہے کہ انہوں نے جب عوام پر کئی ٹیکس ختم کیے تو وزارتِ خزانہ نے اعتراض کیا کہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک سال انتظار کرو۔ ایک سال کے بعد کی رپورٹ انہوں نے وزارتِ خزانہ کے سامنے رکھی اور کہا یہ دیکھو جب ٹیکس تھے تو ملک کی آمدنی دو کروڑ سالانہ تھی، اب ٹیکس نہیں ہیں تو بارہ کروڑ سالانہ آمدنی ہے۔ اس لیے ہمیں مغربی معیشت کے اصولوں کو چھوڑنا ہوگا، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، قناعت اختیار کرنی ہوگی اور آئی ایم ایف کے سامنے اسٹینڈ ایک دفعہ تو لینا ہی ہوگا۔ میں نے تیسرا دائرہ یہ عرض کیا ہے کہ ملک کی معاشی خود مختاری جب تک بحال نہیں ہوگی قومی آزادی مکمل نہیں ہوگی۔

(۴) نظریاتی دفاع

چوتھا دائرہ نظریاتی ہے۔ ہم نے پاکستان بنانے سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ یہاں پر اللہ و رسول کی حکومت قائم کریں گے اور پاکستان بننے کے بعد قرارداد مقاصد میں بھی یہ طے کیا تھا کہ یہاں اللہ و رسول کی حاکمیت ہوگی۔ عوام کے منتخب نمائندے حکومت کریں گے اور قانون قرآن و سنت کا ہوگا۔ شریعت کے قوانین نافذ کرنا اور سود کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ نہیں کر رہے اور ہمیں اس محاذ پر بھی بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ آج بین الاقوامی حلقے، لابیاں، این جی اوز، یورپی یونین اور امریکہ آئی ایم ایف سمیت ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کو سیکولر ملک بناؤ اور قرارداد مقاصد کو پیچھے ہٹاؤ، قرآن و سنت کی بالادستی اور سود کے خاتمے کی شرط ختم کرو۔

سب سے بڑی بات یہ کہ ہم نے اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے ۱۹۷۴ء میں ختمِ نبوت کے دفاع کا متفقہ قومی فیصلہ کیا تھا۔ ہم پر سب سے زیادہ دباؤ اس معاملے میں ہے۔ پاکستان کے نظریاتی دفاع کا تقاضا ہے کہ ہم قرارداد مقاصد، دستور کی اسلامی دفعات اور ختم نبوت کے مسئلے پر قومی فیصلوں کا تحفظ کریں اور اس کے لیے شعور کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ عمومی ماحول پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ کوششیں کچھ جماعتیں ہی کر رہی ہیں۔ اس لیے میں یہ بات پھر دہراؤں گا کہ فیصلہ قوم کے تمام طبقوں اور اداروں نے کیا تھا۔ قرارداد مقاصد کسی علماء کی جماعت نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے منظور کی تھی۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات علماء نے شامل نہیں کی تھیں بلکہ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر شامل کی تھیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ علماء کا تھا یا پارلیمنٹ کا فیصلہ تھا؟ پارلیمنٹ کا فیصلہ قومی فیصلہ ہوتا ہے۔ اب قوم کے باقی طبقات کدھر ہیں ؟تاجر برادری، وکلاء حضرات اور وہ جماعتیں کہاں ہیں جنہوں نے قرارداد مقاصد، ۱۹۷۳ء کے دستور اور ختم نبوت کے فیصلے پر دستخط کیے تھے؟ میرا سوال ہے کہ جب فیصلہ کرنے میں سب اکٹھے تھے تو دفاع کرنا صرف مولوی کا کام کیوں ہے؟ اب جبکہ ان قومی فیصلوں کو چیلنجز درپیش ہیں تو ملک کے دوسرے طبقات کیوں سامنے نہیں آ رہے؟ ملک کے متفقہ فیصلے کو چیلنج ہو رہا ہے اور آپ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہیں کہ مولوی صاحب! تم کام کرو ثواب ہوگا۔ ثواب تو مولوی کو ہوگا میں اس سے انکار نہیں کر رہا لیکن یہ سب کی متفقہ ذمہ داری ہے۔

میں نے آج دفاع پاکستان کے تقاضوں کے حوالے سے چار دائرے عرض کیے ہیں۔ ہم نے ملک کی سرحدوں کی تکمیل کرنی ہے، ان کا دفاع کرنا ہے۔ ہم نے مسلم تہذیب کا دفاع کرنا ہے اسے بحال رکھنا ہے اور انگریزی تہذیب کا اسی طرح مقابلہ کرنا ہے جس طرح ہندو تہذیب کا مقابلہ کیا تھا۔ ہم نے پاکستان کی معاشی خود مختاری بحال کرنی ہے تاکہ قومی خود مختاری قائم رہے۔ اور ہم نے ملک کے دستوری و نظریاتی فیصلوں کا تحفظ کرنا ہے۔ آج ہم اس کے لیے اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم جب تک زندہ ہیں ان شاء اللہ العزیز یہ کام کرتے رہیں گے اور اس کے لیے جو قربانی ہم سے ہو سکی، دیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس وطن کو، اس کے فیصلوں اور اس کے امتیاز کو سلامت رکھیں اور ہمیں اس کا دفاع کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter