وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے میجر جنرل (ر) ظہیر الاسلام عباسی کی اپیل

   
۲۷ اپریل ۱۹۹۷ء

گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک مختصر سی خبر شائع ہوئی کہ میجر جنرل (ر) ظہیر الاسلام عباسی نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ہری پور سنٹرل جیل سے ایک اپیل بھجوائی ہے جس میں ان سے ان فوجی افسروں کے کیس کا ازسرنو جائزہ لینے کی درخواست کی گئی ہے جنہیں گزشتہ سال ملک کے خلاف سازش کے الزام میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے سزائیں سنائی گئی تھیں۔ سزا پانے والوں میں میجر جنرل (ر) ظہیر الاسلام عباسی کے علاوہ بریگیڈیئر (ر) مستنصر باللہ، کرنل (ر) عنایت اور کرنل (ر) آزاد منہاس شامل ہیں، جبکہ ان کو دی جانے والی سزائیں ملازمت سے برخواستگی کے علاوہ چودہ سال، سات سال، چار سال اور دو سال قید پر مشتمل ہیں۔

ستمبر ۱۹۹۵ء کے دوران جب ان فوجی افسروں کو گرفتار کیا گیا تو ان کے خلاف حکومت کی طرف سے مختلف الزامات سامنے آئے تھے۔ اس وقت کے وزیر دفاع جناب آفتاب شعبان میرانی نے سینٹ میں یہ کہا تھا کہ

’’ان افسروں نے پچیس تیس سویلین انتہا پسندوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے کور کمانڈروں کو میٹنگ کے دوران قتل کرنے اور ملک پر اپنی حکومت مسلط کرنے کا پلان بنایا تھا۔‘‘

اور وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ۳۰ نومبر ۱۹۹۵ء کو اسلام آباد میں ادبیوں اور دانشوروں کی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان گرفتار شدہ فوجی افسروں کے بارے میں کہا تھا کہ

’’یہ افسران اخلاقی اور معاشی طور پر بدچلن تھے اور ان کے پیشہ وارانہ اور نجی زندگیاں شرمناک پائی جائیں گی۔‘‘

ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے ان الزامات کی خوب تشہیر کی، جبکہ یہ افسران زیرِ حراست ہونے کی وجہ سے ان الزامات کے بارے میں اپنا موقف سامنے نہ لا سکے اور ان کے خلاف اس نوعیت کے الزامات کی بار بار تشہیر نے رفتہ رفتہ یکطرفہ میڈیا ٹرائیل کی شکل اختیار کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کیس کی سماعت کے لیے ’’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل‘‘ کی تشکیل ہوئی اور مقدمہ کی سماعت بند کمرے میں کرنے کا فیصلہ سامنے آیا تو ملک کے دینی اور عوامی حلقوں نے اس پر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ مقدمہ کی سماعت کھلے بندوں ہو، تاکہ عوام ان الزامات کے بارے میں گرفتار فوجی افسران کے موقف اور دلائل سے بھی آگاہی حاصل کر سکیں، لیکن اس مطالبہ کو درخوراعتنا نہ سمجھا گیا اور بند کمرے کی عدالتی کارروائی کے بعد ان فوجی افسروں کو سزائیں سنا دی گئیں۔

ان فوجی افسروں کی پیشہ وارانہ اور شخصی زندگی لوگوں کے سامنے تھی، وہ فوج کے ایماندار، دیانتدار اور محبِ وطن افسروں میں نمایاں حیثیت سے پہچانے جاتے تھے، دینی رجحانات کے حامل تھے اور مذہبی احکام کی پابندی میں مصروف تھے۔ بالخصوص میجر جنرل (ر) ظہیر الاسلام عباسی نے کچھ عرصہ قبل دہلی میں پاکستان کے فوجی اتاشی کی حیثیت سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی بھارتی سازش کو جرأت و حوصلہ کے ساتھ بے نقاب کیا تھا، اور اس کی پاداش میں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر بھارت سے مبینہ طور پر نکال دیا گیا تھا۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے عام لوگوں کا ذہن اس بات کو قبول نہیں کر رہا تھا کہ یہ افسران ملک کے خلاف سازش کر سکتے ہیں اور ملک کو نقصان پہنچانے کی کوئی بات سوچ سکتے ہیں۔

اسی بنیاد پر بعض حلقوں نے اس کارروائی کو پاک فوج سے دینی عنصر کو خارج کرنے کی عالمی سازش کا حصہ بھی قرار دیا، لیکن دوسری طرف بھی حکومت کے ذمہ دار حضرات کے بیانات اور پاک فوج کی قیادت کی کارروائی تھی جسے یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے اس مسئلہ کا صحیح حل یہی تھا کہ مقدمہ کی کارروائی کھلی عدالت میں ہوتی، دونوں طرف کے بیانات اور دلائل لوگوں کے سامنے آتے اور شکوک و شبہات سرے سے جنم ہی نہ لیتے، لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے جہاں سزا یافتہ قومی افسران اور ان کے عزیز و اقارب اس فیصلہ کے بارے میں عدمِ اطمینان کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں، وہاں ملک کے دینی اور عوامی حلقوں کے ذہنوں میں بھی شکوک کے کانٹے بدستور موجود ہیں اور انصاف کے معروف تقاضے پورے کیے بغیر ان شکوک کے ازالے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

ہم نے وزیر اعظم سے جنرل عباسی کی اپیل کی خبر سامنے آنے کے بعد گرفتار شدہ افسران کے قریبی حلقوں سے رابطہ کر کے ان کا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلہ میں بعض متعلقہ دستاویزات کا بھی مطالعہ کیا ہے، جس کی بنیاد پر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف بھی عوام کے سامنے لایا جائے، تاکہ وزیر اعظم سے کیس کا ازسرنو جائزہ لینے کی اس اپیل کے پس منظر اور مضمرات کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔

سزا یافتہ فوجی افسران اور ان کے قریبی حلقے اس سلسلہ میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے جو باتیں کہہ رہے ہیں انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ ٹیکنیکل باتوں پر مشتمل ہے جن کے بارے میں متعلقہ ماہرین ہی رائے دے سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ ان افسران کو کسی تحریری آرڈر کے بغیر گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف عدالت میں الزامات تحریری طور پر پیش نہیں کیے گئے، سینئر افسر کے خلاف جونیئر افسر کو عدالتی افسر مقرر کیا گیا، جس افسر نے استغاثہ کی کہانی تیار کی وہی افسر تبادلہ کے ذریعے عدالتی کارروائی میں فیصلہ کن اتھارٹی کی حیثیت اختیار کر گیا، وعدہ معاف سرکاری گواہ کے سوا کوئی شہادت عدالت میں پیش نہیں کی جا سکی، وعدہ معاف گواہ کا بیان بھی مجاز اتھارٹی کے سامنے قلمبند نہیں ہوا، گرفتار فوجی افسر پر اسلحہ کی اسمگلنگ کے الزام پر پشاور کے کور کمانڈر نے جو انکوائری کی تھی اس کی رپورٹ کو کارروائی میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ اور اس نوعیت کی بعض دیگر باتیں کہی جا رہی ہیں، جو ہمارے نزدیک ٹیکنیکل پہلوؤں میں شمار ہوتی ہیں، اس لیے ان کے بارے میں ہم کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

البتہ مسئلہ کے دو تین پہلو ایسے ہیں جو اصولی طور پر توجہ طلب ہیں، اس لیے ان کا تذکرہ اس موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے:

  1. ایک بات تو وہی ہے جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے کہ یہ ملک کی سلامتی اور اس کے خلاف سازش کا سنگین معاملہ ہے، اس لیے جہاں ملزمان کا حق ہے کہ ان کا موقف اور دلائل ملک کے عوام کے سامنے آئیں وہاں ملک کے عوام کا بھی یہ حق ہے کہ انہیں دونوں طرف کے موقف اور دلائل سے کماحقہ آگاہی حاصل ہو، تاکہ وہ حقائق تک پہنچنے میں کوئی دشواری محسوس نہ کریں، لیکن ایسا نہیں ہوا جو بہرحال انصاف کے مسلمہ اور معروف تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
  2. دوسری بات یہ کہ سزا یافتہ فوجی افسران کو اس فیصلہ کے خلاف اپیل کا جو حق دیا گیا ہے، وہ انہی افسران کے سامنے اپیل دائر کرنے کا ہے جنہوں نے فیصلہ لکھا ہے یا اس کی توثیق کی ہے، اسے انصاف کے مسلمہ اور عالمی اصولوں کی رو سے اپیل کا حق شمار نہیں کیا جاتا۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت سمیت بہت سے ملکوں میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف متاثرہ فریق کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے اور یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ سزا یافتگان کو ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا جائے تاکہ انصاف کی فراہمی میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ باقی نہ رہے۔
  3. تیسری بات یہ کہ اس فیصلہ کا تمام تر دارومدار وعدہ معاف سرکاری گواہ پر بیان کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے دو پہلو بطور خاص توجہ طلب ہیں:
    • ایک یہ کہ وعدہ معاف سرکاری گواہ کی گواہی کی شرعی اور اخلاقی حیثیت بجائے خود مشکوک ہے اور اس کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تفصیلی فیصلہ سامنے آ چکا ہے کہ ایسی گواہی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
    • دوسرا یہ کہ اقبالی بیان کے بعد وعدہ معاف گواہ کی حیثیت خود مجرم کی ہو جاتی ہے، اسے اس جرم کی سزا سے مستثنیٰ کرنے، بالخصوص ملک کی سلامتی کے خلاف سازش جیسے سنگین جرم میں معافی دینے کا کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ پھر اس کیس میں معاملہ ایک یا دو سرکاری وعدہ معاف گواہوں کا نہیں، بلکہ سینیٹ میں وزیرِ دفاع کے بیان کے مطابق پچیس تیس سویلین انتہا پسند بھی اس سازش میں شریک تھے، انہیں کیس کی کارروائی سے مستثنیٰ کر کے کھلی چھٹی اور معافی دینے کا معاملہ بھی محلِ نظر ہے اور اس کے بارے میں ملک کی رائے عامہ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں بعض واقف حال حضرات کا کہنا ہے کہ سویلین افراد کو کیس سے اس لیے الگ رکھا گیا ہے کہ ان کی وساطت سے معاملات ملک کی عام عدالتوں میں منتقل ہو جانے کا خدشہ تھا اور عام عدالتوں میں اپنے الزام کو ثابت کرنا استغاثہ کو دشوار نظر آ رہا تھا، اس لیے باقی سب لوگوں کو کھلی چھٹی دے کر سارا ملبہ چار فوجی افسروں پر ڈال دینے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی۔

اس پس منظر میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ہری پور جیل میں قید میجر جنرل (ر) ظہیر الاسلام عباسی کی اس اپیل کا جائزہ لیا جائے تو ان سے یہ گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ

  • وہ اس ساری صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیں، اور حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کر کے انصاف کے بارے میں پیدا ہو جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کریں، کیونکہ آرمی ایکٹ کی دفعہ ۱۳۲ کی رو سے وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر کورٹ مارشل کی کسی کارروائی کو غیر منصفانہ محسوس کرے تو اسے یکسر ختم کر سکتی ہے۔
  • اور اگر وزیر اعظم اس حد تک آگے جانا مصلحت کے خلاف سمجھتے ہوں تو سزا یافتہ فوجی افسران کو ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت، یا سپریم کورٹ میں فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کا حق دلائیں، تاکہ انصاف پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔
  • اور اگر وہ ایسا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں تو کم از کم درجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان اور پاک فوج کے ریٹائرڈ جنرلوں پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن قائم کر دیں جو اس کیس کے حقائق کی چھان بین کر کے انہیں منظر عام پر لائے اور پھر اس کے مطابق انصاف کی بے لاگ فراہمی کا اہتمام کیا جائے۔
   
2016ء سے
Flag Counter