اظہارِ ندامت کا امریکی فریب

   
۳ دسمبر ۲۰۰۱ء

امریکی صدر منصبِ صدارت سے الگ ہو کر بھی ذہنی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے فارغ نہیں ہوتا اور قومی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے، بلکہ جو کام کوئی صدر عہدہ صدارت پر فائز رہتے ہوئے انجام نہیں دے سکتا، اسے کسی نہ کسی سابق صدر کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور وہ ایک سرپرست کے طور پر اسے نمٹانے میں مصروف رہتا ہے۔

افغانستان پر روس کی مسلح جارحیت کے دوران امریکی صدر ریگن افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو سپورٹ کرنے میں مصروف تھے، اور عین اسی دوران سابق امریکی صدر نکسن اس جنگ کے نتیجہ میں مجاہدین کی حکومت قائم ہونے کا خدشہ محسوس کر کے روسی دانشوروں کو سمجھانے میں لگے ہوئے تھے کہ روسی فوجیوں کا افغانستان میں زیادہ دیر تک رہنا ممکن نہیں ہے، اور اگر وہ شکست کھا کر وہاں سے نکلیں تو مجاہدین کی نظریاتی حکومت قائم ہو جائے گی، جو نہ صرف دیگر مسلم ممالک کی دینی تحریکات کے لیے تقویت کا باعث ہوگی بلکہ امریکہ اور روس دونوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اس لیے روس کو امریکہ کے ساتھ معاملہ کر کے فوج واپس بلا لینی چاہیے تاکہ بعد میں باہمی انڈرسٹینڈنگ سے اس خطہ میں مشترکہ کنٹرول کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔ سابق صدر نکسن کی اسی مہم کے نتیجے میں امریکہ اور روس کی خفیہ مفاہمت ہوئی، جنیوا معاہدہ کے بعد افغانستان میں مسلسل خانہ جنگی کا جال پھیلایا گیا، اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئی یہی خفیہ مفاہمت آج طالبان حکومت کے خلاف امریکی مسلح جارحیت کی صورت میں سامنے آئی ہے جسے روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

لیکن اس پس منظر میں آج ایک اور مہم کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں جو ان دنوں سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے شروع کر رکھی ہے۔

ایک طرف موجودہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش طالبان اور اسامہ بن لادن کو عنوان بنا کر اسلام کی دینی تحریکات اور جہادی تنظیموں کو کچلنے کی کارروائی کا آغاز کر چکے ہیں، اور افغانستان کے بعد ہر اس ملک کو امریکی حملوں کا ٹارگٹ بنانے کا اعلان کر رہے ہیں جہاں ان کے خیال میں کوئی دہشت گرد تنظیم موجود ہے، اور جس ملک کی پالیسیوں کو امریکی قیادت دہشت گردی کے لیے معاون سمجھتی ہے۔

جبکہ دوسری طرف سابق امریکی صدر بل کلنٹن امریکی یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے میں مصروف ہیں جن کا بنیادی نکتہ عالمِ اسلام کے ساتھ تعلقات کار کو بہتر بنانا اور مسلمانوں میں امریکہ کے خلاف پائی جانے والی غم و غصہ کی لہر کو کنٹرول کرنا ہے۔ پاکستان کے ایک قومی روزنامہ نے اپنے واشنگٹن کے نمائندہ کے حوالے سے اس سلسلہ میں بائیس نومبر کو مندرجہ ذیل رپورٹ شائع کی ہے:

’’امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے خود کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں انہوں نے مسلم دنیا کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار نہیں کیے۔ انہوں نے اپنی انتظامیہ اور اپنے جانشین جارج ڈبلیو بش پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ۱۹۸۹ء میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد اس ملک کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔

سابق امریکی صدر آج کل امریکی یونیورسٹیوں اور مختلف فورموں میں تقریریں کر کے امریکیوں کو اصل تاریخ سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کلنٹن نے امریکی سربراہی میں اتحاد سے کہا کہ اسے دہشت گردی کو لازمی طور پر شکست دینی چاہیے۔ انہوں نے اسے نئی صدی کی جدوجہد قرار دیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جاری تنازعہ میں امریکی حکومت کوئی ولی نہیں۔ انہوں نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ جدوجہد کرنے والی مسلم فیملیز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کریں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ میں صرف اعلیٰ سطح کے شعور سے ہی مغرب اور اسلامی دنیا کو قریب لانے میں مدد ملے گی۔ ہمیں مکمل طور پر تبدیل ہونا ہے۔ دنیا کے غریبوں کی سربراہی بن لادن جیسے لوگ نہیں کر سکتے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا بچاؤ ہماری تباہی سے ہی ممکن ہے۔ تاہم دنیا کے امراء کی رہنمائی وہ لوگ نہیں کر سکتے جو ہماری خود غرضی اور تنگ نظری سے کھیلتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دوسروں کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے جو اپنے لیے کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

سابق صدر نے کہا کہ امریکہ کو مسلم اقوام پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے نقائص کو یاد رکھنا چاہیے۔ آج اسلام کے اندر جنگ ہو رہی ہے جس کے متعلق وہ جدید دنیا کے بارے میں بالعموم اور امریکہ کے لیے بالخصوص سوچتے ہیں۔ کلنٹن نے کہا کہ امریکہ اپنا اثر اسی طور پر ڈال سکتا ہے جب وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ واضح کرے کہ مغرب اسلام کے لیے خطرہ نہیں اور وہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کی بہتری کے لیے کام کرے۔

افغانستان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب سوویت یونین یہاں سے نکلا اور ہم بھی یہاں سے چل دیے، یہ غلطی تھی۔ انہوں نے بش انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے ترقیاتی امداد، مخصوص قرضوں میں ریلیف اور تجارت کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دے۔ حکومت دہشت گردی کے خلاف بہتر جنگ اسی طور کر سکتی ہے جب دہشت گردوں کی تلاش اور غیر قانونی تارکینِ وطن کے خطرہ سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا جائے گا۔‘‘

سابق امریکی صدر کی اس مہم اور مذکورہ خیالات کے بارے میں شاید کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ یہ امریکی قیادت میں عالمِ اسلام کے حوالے سے اپنی غلطیوں کے احساس اور ان کی تلافی کے کسی ارادے کی غمازی کرتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ بلکہ افغانستان پر امریکی بمباری کی گرد بیٹھ جانے اور عالمِ اسلام پر موجودہ سکتے کی کیفیت ختم ہو جانے کے بعد مسلمانوں میں جس ردِعمل کے وسیع پیمانے پر عالمی سطح پر رونما ہونے کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی قیادت ظاہری طور پر یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہے اور وہ ان کو دور کرنے کا سوچ رہی ہے، تاکہ عالمِ اسلام میں مغرب کی نمائندگی کرنے والے سیاستدان اور دانشور اپنی پالیسیوں کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کر سکیں، اور تاکہ ملتِ اسلامیہ کو مغرب کے ’’اظہارِ ندامت‘‘ کے چکر میں ڈال کر مغرب کے ایجنڈے کو اس کی آڑ میں آگے بڑھانے کا عمل جاری رہ سکے۔ ورنہ اگر امریکی قیادت اپنی غلطیوں کی نشاندہی میں مخلص اور ان کے ازالہ میں سنجیدہ ہے تو اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ

  • غلطیوں کی فہرست بھی امریکہ خود طے کرے،
  • ان کے ازالہ کا طریق کار طے کرنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں رکھے،
  • اور غلطیوں کی تلافی ہو جانے کے اعلان کی اتھارٹی بھی اسی کے پاس رہے۔

اس کے لیے امریکہ کو مسلمانوں کی فکری، علمی اور دینی قیادت کے ساتھ میز پر بیٹھنا ہو گا۔ وہ قیادت نہیں جو امریکی سرمائے اور فوجوں کے سہارے مسلم دنیا پر مسلط ہے اور مسلم دارالحکومتوں میں مغرب کے بوسٹروں کا کردار ادا کر رہی ہے، بلکہ وہ علمی اور فکری قیادت جو عام مسلمانوں کے دکھ سکھ میں شریک ہے اور ان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ اور اگر امریکی قیادت اس کے لیے تیار نہیں تو بل کلنٹن کی ان تقریروں کی حیثیت مگرمچھ کے آنسوؤں سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور دنیا کا کوئی باشعور مسلمان ان سے دھوکہ نہیں کھائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter