ایک قومی روزنامہ میں آج (۳ جولائی) کو سپریم کورٹ کے حوالہ سے شائع ہونے والی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیے۔
’’اٹارنی جنرل نے صوبائی قانون سازی ایکٹ کے سیکشن ۱۲ کو پڑھا جس میں ملک بھر میں مدارس کے خلاف کاروائی کی بات کی گئی ہے، تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ صرف مدارس کے بارے میں کیوں بات کی جا رہی ہے، دیگر دہشت گردوں کے بارے میں بھی دیکھنا ہوگا۔‘‘
سپریم کورٹ ان دنوں این جی اوز کے حوالہ سے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ایک کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے اس دوران صوبائی قانون سازی ایکٹ کا حوالہ دیا جس پر جسٹس موصوف کے یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں۔
دینی مدارس کو این جی اوز کا ہی ایک وسیع نیٹ ورک سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ ہزاروں دینی مدارس ملک بھر میں لاکھوں طلبہ اور طالبات کو نہ صرف مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں بلکہ رہائش، خوراک اور علاج وغیرہ کی سہولتیں بھی انہیں بلا معاوضہ مہیا کی جا رہی ہیں۔ اس تعلیم میں قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم کے ساتھ ساتھ میٹرک تک عصری تعلیم اور کمپیوٹر ٹریننگ بھی شامل ہے۔ اصحاب ثروت اپنی زکوٰۃ و صدقات اور عطیات وغیرہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں جو مستحق طلبہ اور طالبات پر خرچ کی جاتی ہے۔ اور اس طرح یہ مدارس جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی توخذ من اغنیاء ھم فترد الیٰ فقراءھم (زکوٰۃ معاشرہ کے مالدار حضرات سے لی جاتی ہے اور فقراء کو لوٹا دی جاتی ہے) کا عملی مصداق اور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اکثر مدارس اپنے حسابات کا باقاعدہ آڈٹ کراتے ہیں اور اپنی سالانہ کارگزاری میں آڈٹ رپورٹ کو شامل کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی اصحاب خیر کی بڑی تعداد علماء کرام اور دینی مدارس کے منتظمین پر اس قدر اعتماد رکھتی ہیں کہ لوگ بھاری رقوم ان کے حوالہ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اور دوبارہ پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔
اس پر ایک واقعہ ذہن میں آگیا ہے جو قارئین کے سامنے پیش کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔ بہت عرصہ قبل گوجرانوالہ میں یوسف کمال نامی ایک افسر ڈپٹی کمشنر تھے، ضلعی امن کمیٹی کے ایک اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء شریک تھے۔ ڈپٹی کمشنر موصوف نے علماء کرام سے خطاب کرتے ہوئے اور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ مجھے علماء کرام کی معاشرتی حالت پر بہت ترس آتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہوں کہ ان کا معاشرتی مقام کیسے بلند کیا جائے، ان کی تو روزی ہی لوگوں کی جیبوں سے وابستہ ہے۔ بریلوی مکتب فکر کے بزرگ عالم دین صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ صاحب بھی تشریف فرما تھے اور میں ان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا، انہوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کا یہ جملہ سن کر زیر لب فرمایا کہ ’’بہت زیادتی ہے‘‘۔ میں نے ان سے سرگوشی کے لہجے میں عرض کیا کہ حضرت آپ دعا فرمائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ حساب برابر ہو جائے گا۔
تھوڑی دیر میں میری گفتگو کی باری آئی تو میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔ مگر محترم ہماری طرح آپ کی روزی بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کی روزی انکم ٹیکس آفیسر اور تحصیل دار سسٹم کی طاقت سے لوگوں کی جیب سے نکالتے ہیں جبکہ ہماری روزی لوگ خود آکر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’حضرت قبول فرمائیے اور ہمارے لیے دعا کر دیجیے۔‘‘
میٹنگ سے فارغ ہو کر ہال سے باہر نکلے تو صاحبزادہ محترمؒ نے مجھے سینے سے لگا کر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ ضلع سیالکوٹ میں آلومہار کی نقشبندی خانقاہ کے مسند نشین تھے۔ مجلس احرار اسلام ہند کے مرکزی عہدہ دار کے طور پر امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے رفیق کار رہے اور بعد میں بریلوی مکتب فکر کی معروف ملک گیر جماعت ’’جمعیۃ العلماء پاکستان‘‘ کے مرکزی صدر بھی بنے۔
دینی مدارس کے نظام پر اصحاب خیر کا یہ اعتماد ہی ان کی بقا و تسلسل کا باعث ہے اور جب تک مدارس کے منتظمین سادگی، قناعت، خلوص اور جہد مسلسل کے حوالہ سے اپنا یہ اعتماد قائم رکھ سکے ان کے اس نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ البتہ اس اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں بہت سے ایسے رجحانات سے بچنے کی شعوری کوشش کرنا ہوگی جو کچھ عرصہ سے ہماری صفوں میں بڑھتے جا رہے ہیں۔
چند سال قبل یورپی یونین کا ایک وفد دینی مدارس کے حوالہ سے مطالعاتی دورے پر پاکستان آیا تو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی آیا۔ وفد کی سربراہ ایک برطانوی خاتون تھیں جن سے میری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے جامعہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کے اخراجات کے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ دونوں کے اخراجات ملا کر قریباً ایک کروڑ روپے کا تخمینہ بنتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کہاں سے آتا ہے؟ میں نے کہا کہ کہیں سے نہیں آتا، گوجرانوالہ شہر کے لوگ ہی پورا کرتے ہیں بلکہ ہم نے تو مدرسہ کی سفارت کاری کا کوئی نظام بھی نہیں رکھا ہوا لوگ خود ہی آکر دے دیتے ہیں۔ ان کا ذہن اس بات کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا مگر حقیقت حال یہی ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ علماء کرام اور سوسائٹی کا یہ باہمی تعلق اور اعتماد مساجد و مدارس کے اس متنوع اور وسیع تر نظام کی بنیاد ہے۔ جب تک یہ اعتماد قائم ہے مساجد و مدارس کے اس نیٹ ورک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اور مدارس کے اس نظام پر سیکولر حلقوں کے مسلسل سیخ پا رہنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ اس لیے وہ علماء اور معاشرہ کے درمیان اس تعلق و اعتماد کو کمزور کرنے کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں، لیکن الحمد للہ ہمیشہ انہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
بات دور نکل گئی ہے۔ گفتگو ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ میں دینی مدارس کو بطور خاص ٹارگٹ کرنے پر سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی طرف سے تحفظات کے اظہار پر ہو رہی تھی۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس بارے میں جن تحفظات کا اظہار ہم آغاز سے کر رہے ہیں وہ اب عدالت عظمیٰ کے فورم پر بھی سامنے آنے لگے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ تحفظات بلا جواز نہیں ہیں۔ لیکن کیا وفاقی حکومت اور قومی قیادت بھی ان جائز تحفظات پر غور کرنے کے لیے تیار ہوگی؟