ماہِ ربیع الاول کے دوران ملکہ کوہسار مری میں دو سیرت کانفرنسوں میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ بارہ ربیع الاول کو جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پر لارنس کالج کے شعبہ اسلامیات نے سیرت کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا اور شعبہ کے صدر پروفیسر حافظ ظفر حیات صاحب کی دعوت پر مجھے اس میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
اساتذہ، خواتین اور طلبہ کا مشترکہ اجتماع تھا۔ طلبہ کو دور نبیؐ کے دو طالب علموں کے واقعات سنائے۔ خواتین کو ام المومنین حضرت عائشہؓ کی علمی خدمات اور امت کی علمی و معاشرتی رہنمائی کے ساتھ ساتھ پردہ اور حجاب کے بارے میں ان کی احتیاط سے آگاہ کیا اور بتایا کہ پردہ کی حد درجہ پابندی کے باوجود علمی خدمات اور معاشرتی راہنمائی کے فرائض سرانجام دیے جا سکتے ہیں، اور پردہ علمی ترقی اور معاشرتی خدمات کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ جب کہ اساتذہ کرام سے گزارش کی کہ وہ دنیا کی اعلیٰ دانش گاہوں میں عالمی ثقافت اور کلچر کے حوالے سے جاری علمی و فکری کشمکش سے باخبر رہیں۔ اور خاص طور پر مغرب کے اعلیٰ فکری حلقوں میں تیزی سے آگے بڑھنے والے اس ذہنی رجحان کو ہر وقت نظر میں رکھیں جو فطرت کے قوانین اور بنیادوں کی طرف واپسی کے فطری ذوق کی نمائندگی کر رہا ہے۔ کیونکہ اگر ہم علم و حکمت اور دانش و تدبر کو صحیح طور پر استعمال میں لا سکیں تو یہی وہ موڑ ہے جہاں سے ہم عالمی فکر و ثقافت کا رخ اسلامی تعلیمات کی طرف موڑ سکتے ہیں۔
چودہ جون کو پی اے ایف شاہین کالج لوئر ٹوپہ (مری) میں سیرتِ رسول اکرم اور ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم‘ کی تقریبات کے حوالے سے حسنِ قراءت اور مقابلۂ نعت خوانی کا پروگرام تھا۔ شعبہ اسلامیات کے صدر پروفیسر حماد عباسی صاحب نے برادرم پروفیسر محمد اسلم کھوکھر صاحب کی وساطت سے حاضری کی فرمائش کی۔ کھوکھر صاحب ہمارے محترم دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ’’اوصاف فیلو‘‘ بھی ہیں، اس لیے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور اس تقریب میں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور قرآن کریم کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع مل گیا۔
پاکستان ایئر فورس کے بیس کمانڈر جناب شکیل احمد تقریب کی صدارت فرما رہے تھے۔ شاہین کالج کے پرنسپل سکوارڈن لیڈر (ر) جناب سردار محمود صاحب نے بطور میزبان اور نگران تقریب کو کنٹرول کیا اور کالج کے بہت سے طلبہ اور طالبات نے تلاوت قرآن کریم اور نعت خوانی کے مقابلہ میں حصہ لیا۔ بچے اور بچیاں باری باری قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے ساتھ نذرانہ جذبات پیش کر رہے تھے، مگر میرا ذہن اپنی عادت سے مجبور تاریخ کے جھروکوں سے ماضی کو جھانکنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ اور ماضی بھی زیادہ دور کا نہیں، بلکہ بالکل قریب کا ماضی کہ اب سے کوئی پون صدی قبل عالمِ اسلام کے سیاسی افق پر دو لیڈر نمودار ہوئے اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا اور قائد اعظم محمد علی جناح۔ دونوں جدید تعلیم گاہوں کے تربیت یافتہ تھے، دونوں سوٹڈ بوٹڈ تھے، دونوں ظاہری طور پر مغربی ثقافت کی نمائندگی کرتے تھے، اور دونوں کا مسجد و خانقاہ کے ماحول سے تعلق نہیں تھا، مگر دونوں کے اہداف ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد تھے۔ ایک نے صدیوں سے اسلامی بنیادوں پر قائم خلافت کی بساط لپیٹ کر اسلام کو سرے سے ملک سے دیس نکالا دے دیا، اور دوسرے نے اسلام کے نام پر ایک نئی مملکت قائم کر کے قرآن کریم کو اپنا دستورِ حیات قرار دینے کا اعلان کر دیا۔
پاک ایئر فورس کے کالج میں تعلیم پانے والے بچے تجوید و قراءت کے عمدہ ذوق کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور محبت و عقیدت کے جذبات میں ڈوب کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ترنم کے ساتھ نعت کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ اور میرا دل خوشی اور اطمینان کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبکیاں کھاتا ہوا خود کو تسلی دے رہا تھا کہ یہ قائد اعظم کی فوج ہے اتاترک کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاک فوج عالمی کفر و استعمار کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے اور پوری دنیائے اسلام کی امیدوں کا مرکز و محور بن چکی ہے، اللہ تعالیٰ اسے نظر بد سے بچائے، آمین۔
میری گفتگو کا بنیادی نکتہ قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت اور اس کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ و سنت تھا کہ نبی اکرمؐ نے قرآن کریم کی تلاوت اور اچھا پڑھنے والوں سے کلامِ پاک سننے کا نہ صرف خود اہتمام کیا ہے، بلکہ امت کو بھی اس کی تلقین فرمائی ہے اور اس پر بڑے اجر و ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ اس پر بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے اکثر حضرات بالخصوص اسے یاد کرنے والے طلبہ اور حفاظ جو کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں اس کے معنی و مفہوم کو نہیں سمجھتے، تو سمجھے بغیر محض الفاظ رٹنے اور ان کے سننے اور سنانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟
اس سلسلہ میں عرض کیا کہ معنی و مفہوم کو سمجھنے کی اہمیت اور ضرورت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ قرآن کریم پڑھتے ہوئے اسے سمجھنا اور اس کے مفہوم و معنی سے آگاہ ہونا بھی ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے۔ مگر صرف الفاظ کا پڑھنا، رٹنا، سننا اور سنانا بھی بہت زیادہ ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے الفاظ کی حفاظت ہوتی ہے، اور یہ قرآن کریم کو قیامت تک اصلی حالت میں محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہے۔ اب اس پیغام کو اگر محض پیغام کے طور پر منتقل کیا جانے لگے تو تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک پیغام اگر دوسری یا تیسری جگہ سے چوتھی یا پانچویں جگہ تک منتقل ہوتا ہے تو وہ اصلی حالت میں باقی نہیں رہتا، بلکہ درمیان میں تین چار ذہنوں، زبانوں اور جذبات کا واسطہ آ جانے سے لازماً رد و بدل کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اس پیغام کے ساتھ اس کے اصل الفاظ کو منتقل کرنے کی بھی پابندی لگا دی جائے تو درمیان میں سو واسطے آ جانے سے بھی اس کے مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مفہوم و معنی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اس کے الفاظ کو بار بار دہرانے اور دہراتے چلے جانے کو بھی ضروری قرار دیا ہے، اور یہی قرآن کریم کے اصلی حالت میں محفوظ رہنے کا عالمِ اسباب میں سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
آج دنیا میں قرآن کریم کے لاکھوں حافظ موجود ہیں اور دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ اس لیے کتاب کے ظاہری اسباب مثلاً کاغذ، قلم، سیاہی، کیسٹ، ڈسک، سی ڈی اور سکرین وغیرہ اگر دنیا سے کلیۃً ختم ہو جائیں تو دنیا کی کوئی اور کتاب تو شاید ایک بھی باقی نہ رہے، مگر قرآن کریم کو ان سارے اسباب کے یکسر ختم ہو جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ لاکھوں سینوں میں جوں کا توں پھر بھی محفوظ رہے گا۔
چند ماہ قبل میرے پاس کچھ نوجوان آئے اور پریشانی کا اظہار کیا کہ انٹرنیٹ پر بعض یہودی اور عیسائی گروپ قرآن کریم کے الفاظ سے ملتی جلتی سورتیں اور آیات وضع کر کے ویب سائٹس پر ڈال رہے ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کی تشویش آپ کے ایمان کی علامت ہے، مگر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ اس قسم کے بیسیوں گروپ بن جائیں اور سینکڑوں من گھڑت سورتیں قرآن کریم کے نام پر ویب سائٹس پر ڈال دیں، مگر ان کے اس سارے عمل کو واچ کرنے اور اس کی چھانٹی کرنے کے لیے دس بارہ سال کی عمر کا ایک حافظ قرآن کریم بچہ کافی ہے جس نے قرآن کریم یاد کیا ہے اور تین چار دفعہ سنا لیا ہے۔ وہ قرآن کریم کے ایک لفظ کا ترجمہ بھی نہیں جانتا، مگر اسے سکرین کے سامنے بٹھا کر ان ویب سائٹس کو اس کے سامنے سے گزار دیں۔ وہ ڈیڑھ دو گھنٹے میں ہر چیز چھانٹ کر رکھ دے گا کہ ان میں قرآن کریم کی اصلی سورتیں اور آیات کون سی ہیں اور جعلی اور من گھڑت کون سی ہیں۔ اس لیے جس پورے عمل کو واچ کرنے اور اس کی چھانٹی کے لیے دس بارہ سال کی عمر کا ایک بچہ کافی ہو اس سے قرآن کریم کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ یہ قرآن کریم کا اعجاز اور اس کی حفاظت کا تکوینی نظام ہے، جس کے ہوتے ہوئے قرآن کریم میں کسی طرح کے رد و بدل اور تحریف و ترمیم کا کسی درجہ میں کوئی امکان باقی نہیں ہے۔