قومی و ملی مسائل ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

   
تاریخ : 
۴ نومبر ۲۰۱۲ء

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی اور راقم الحروف یکم نومبر کو حسن اتفاق سے فیصل آباد میں اکٹھے ہوگئے۔ مولانا درخواستی ایک دوست کا نکاح پڑھانے کے لیے تشریف لائے تھے جبکہ میرا تبلیغی سہ روزے کا آخری دن تھا جس کی تشکیل اس سال فیصل آباد میں ہوئی۔ عید الاضحٰی کی تعطیلات میں میرا علماء گوجرانوالہ کی ایک جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگانے کا سالہا سال سے معمول ہے۔ گزشتہ سال ہم شیخوپورہ میں تین رہے جبکہ اس سال فیصل آباد میں حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی تعمیر کردہ مسجد عثمانیہ میں تشکیل ہوگئی اور فیصل آباد کے مختلف مدارس و مراکز میں حاضری اور سرکردہ شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کا موقع ملا جس میں دعوت و تبلیغ کے اس عالمگیر سلسلہ میں حصہ لینے اور رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کی ترغیب کا اعادہ کیا گیا۔ یہ معلوم ہونے پر کہ جمعرات کو مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی فیصل آباد میں تشریف لا رہے ہیں ہم نے علاقائی سطح پر پاکستان شریعت کونسل کے ایک مشاورتی اجلاس کا اہتمام کر لیا جو عصر کے بعد جامعہ سعدیہ کریم ٹاؤن میں ان کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے شرکاء میں مولانا عبد الرزاق، مولانا قاری محمد نعیم سعدی، حاجی احمد یعقوب قادری، حافظ ریاض احمد قادری، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مولانا حق نواز خالد، مولانا مفتی محمد سعید، مولانا قاری محمد یامین گوہر، مولانا سیف اللہ خالد، حافظ محمد عمیر چنیوٹی، مفتی محمد نعمان، مولانا فیض احمد فیض، مولانا احسان اللہ فاروقی اور حافظ محمد زبیر جمیل شامل تھے۔

مولانا فداء الرحمان درخواستی نے اپنے حالیہ دورۂ برطانیہ کے تاثرات اور خاص طور پر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی یاد میں رچڈیل کی مرکزی جامع مسجد میں منعقد ہونے والے ’’حافظ الحدیث سیمینار‘‘ کی تفصیلات سے شرکائے اجلاس کو آگاہ کیا اور بتایا کہ اس سیمینار کے انعقاد کو برطانیہ کے دینی و مسلکی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا اور خصوصاً دینی مدارس میں طلبہ کو احادیث یاد کرانے کی تجویز کو سراہا گیا، بہت سے علماء کرام نے اس تجویز کی حمایت کی اور کہا کہ محدثین کرام کے اس ذوق کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور دینی مدارس و مراکز کو اس سلسلہ میں توجہ دینی چاہیے۔

راقم الحروف نے ملک کی عمومی صورتحال اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت و تشخص کے خلاف سیکولر حلقوں کی مہم کا تذکرہ کیا اور گزارش کی کہ بین الاقوامی اور ملکی سیکولر حلقوں کی سرگرمیوں سے واقف رہنے کی ضرورت ہے اور ان کے سدباب کے لیے سنجیدہ اور مربوط محنت ہماری ذمہ داری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس وقت سیکولر حلقے ملکی اور عالمی سطح پر ان اہداف کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہیں، چنانچہ اس حوالہ سے چند اہم امور خصوصاً قابل توجہ ہیں:

  • ایک یہ کہ قرارداد مقاصد اور دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کو ہدف بنا کر ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اور اس کے لیے قومی اخبارات کے کالم نگاروں اور ٹی وی چینلوں کے اینکروں کی پوری کھیپ کام کر رہی ہے۔ میڈیا کے قومی اور بین الاقوامی پالیسی سازوں کی مکمل پشت پناہی انہیں حاصل ہے اور وہ اس بات کی بھرپور محنت کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں کسی نہ کسی طرح قرارداد مقاصد اور دیگر دستوری اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کا کوئی بل پاس ہو جائے اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی بجائے سیکولر ملک کی شکل دے دی جائے۔
  • دوسرے نمبر پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا قانون اور توہین رسالت کو جرم قرار دینے کا قانون ان کالم نگاروں اور اینکروں کی زد میں ہیں اور وہ اس مقصد کے لیے فضا کو ہموار کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں کہ ان دو قوانین کو ختم کر دیا جائے یا غیر مؤثر بنا دیا جائے۔
  • سیکولر حلقوں کی یہ سرتوڑ کوشش ہے کہ آنے والے انتخابات میں اسلام پسند قوتوں بالخصوص دینی جماعتوں کا کوئی مشترکہ فورم تشکیل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ سیکولر حلقوں کے معاملہ میں اسلامی حلقوں کا ووٹ اگر مجتمع رہا تو آنے والے انتخابات میں سیکولر حلقوں کی کامیابی مشکل ہوگی اور اس کا وہ سارا ایجنڈا خطرے میں پڑ جائے گا جو پاکستان کی قومی وحدت، جغرافیائی سالمیت اور اسلامی تشخص کے خلاف سازشوں کے حوالہ سے عالمی استعمار نے طے کر رکھا ہے۔ اس سیکولر ایجنڈے کو ناکام بنانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ دینی حلقوں کا ووٹ آنے والے انتخابات میں کسی سطح پر بھی تقسیم نہ ہونے پائے۔ میرے خیال میں آنے والے انتخابات پاکستان کے مستقبل کے حوالہ سے فیصلہ کن ہوں گے، اگر اس موقع پر دینی و اسلامی حلقے ووٹوں کی اکثریت رکھنے کے باوجود ووٹ تقسیم ہونے کے باعث ناکام ہو گئے تو اس کے نتائج انتہائی تلخ اور تباہ کن ہوں گے اور موجودہ دینی قیادت عند اللہ و عند الناس اس کی ذمہ داری سے بری نہیں ہوگی۔ اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی ووٹ کو تقسیم ہونے سے ہر قیمت پر بچایا جائے اور اس کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔

اجلاس میں ملالہ کیس کا تذکرہ ہوا اور شرکائے اجلاس نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ اس واقعہ کے افسوسناک اور قابل مذمت ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے عالمی سیکولر لابیوں نے ناموس رسالت کے تحفظ کے سلسلہ میں عالمگیر مہم کا رخ جس چابک دستی کے ساتھ موڑ دیا ہے وہ اس سے زیادہ افسوسناک ہے۔ اجلاس میں اس حوالہ سے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبد اللہ کی طرف سے حج کے موقع پر اس مطالبہ کے دہرائے جانے کا خیرمقدم کیا گیا کہ توہین رسالت کو جرم قرار دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے تمام مسلم حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ توہین رسالت کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دلوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور اس کے لیے منظم محنت کریں۔

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے قومی سیاست میں حصہ لینے والی دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی کہ وہ انتخابی نظام میں اصلاح کے لیے بھی محنت کریں اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن کرانے کی مشترکہ مہم کا اہتمام کریں کیونکہ متناسب نمائندگی کے ذریعے ہی انتخابی نظام کو بہتر اور بامقصد بنایا جا سکتا ہے۔

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے اس خبر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ حکومت قومی اسمبلی میں موت کی سزا کو ختم کرنے کا بل لا رہی ہے۔ اجلاس کی رائے میں یہ اقدام قرآن کریم کے صریح احکام سے انحراف اور دستور پاکستان کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جرائم میں اضافے کا باعث بھی بنے گا اس لیے اس اقدام سے گریز کیا جائے۔

اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ قومی سیاست میں حصہ لینے والی دینی جماعتوں کے منشور، ترجیحات اور مطالبات میں نفاذ شریعت کی جدوجہد ثانوی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے جو انتہائی افسوسناک اور لمحۂ فکریہ ہے۔ اجلاس میں قومی سیاست میں شریک دینی قیادت سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرتے ہوئے نفاذ شریعت کی جدوجہد کو اولیت دیں اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی محنت کریں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں حجیت حدیث کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور طلبہ میں حفظ حدیث کا ذوق بیدار کرنے کے لیے ’’حافظ الحدیث سیمینار‘‘ منعقد کیے جائیں گے اور دینی مدارس و مراکز کو فتنۂ انکار حدیث سے نئی نسل کو بچانے کے لیے مربوط محنت کی طرف توجہ دلائی جائے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔

   
2016ء سے
Flag Counter