الحاج عبدالرحمان باوا تحریکِ ختمِ نبوت کے پرانے کارکنوں میں سے ہیں۔ گجرات (انڈیا) کے میمن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی فیملی ایک عرصہ تک رنگون (برما) میں مقیم رہی ہے۔ پھر مشرقی پاکستان آ گئے اور چٹاگانگ میں کئی سال مقیم رہے۔ بنگلہ دیش بنا تو وہ پاکستان آئے اور کراچی میں ڈیرہ لگا لیا۔ تحریکِ ختمِ نبوت کی سرگرمیاں لندن میں منتقل ہوئیں تو لندن کا رخ کیا اور اب ایسٹ لندن کے علاقہ فاریسٹ گیٹ میں قیام پذیر ہیں۔
عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کی سرگرمیاں انہوں نے برما میں ہی شروع کر دی تھیں۔ وہاں گزشتہ صدی عیسوی کے ساتویں عشرہ میں انہوں نے مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت قائم کی۔ ’’ختم نبوت‘‘ کے نام سے رسالہ جاری کیا اور علماء کرام سے مل کر اجتماعات کا اہتمام کرتے رہے۔ مشرقی پاکستان آئے تو مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان سے رابطہ قائم کیا۔ اس وقت کے امیرِ مجلس حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو دعوت دے کر مشرقی پاکستان کا دورہ کرایا، مجلس کی باقاعدہ شاخیں بنوائیں اور اس محاذ پر مصروف ہو گئے۔ کراچی آئے تو کاروبار کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کی سرگرمیاں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کو کراچی میں منظم کرنے اور مجلس کے لیے مالی تعاون کا وسیع حلقہ فراہم کرنے میں ان کا کردار بہت نمایاں ہے۔ ہفت روزہ ختم نبوت کراچی کا اجرا اور مزار قائد اعظمؒ کے وسیع احاطہ کے ایک کونے میں خوبصورت مسجد باب الرحمت اور اس کے ساتھ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر کی تعمیر انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
۱۹۸۵ء میں قادیانی جماعت کا مرکز لندن میں قائم ہونے کے بعد تحریک ختم نبوت کے راہنماؤں نے بھی لندن میں سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی تو الحاج عبدالرحمان باوا اپنے پرانے رفیق کار مولانا منظور احمد الحسینی کے ہمراہ لندن آ گئے اور دونوں نے مل کر برطانیہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا حلقہ منظم کرنے اور اسٹاک ویل کے علاقہ میں مجلس کا دفتر قائم کرنے میں شبانہ روز محنت کی۔ ایک چرچ خرید کر مجلس کا دفتر قائم کیا گیا جس کے انچارج آج کل مولانا منظور احمد الحسینی ہیں جبکہ عبد الرحمان باوا اب سے دو سال قبل دفتر سے الگ ہو گئے اور انہوں نے لندن ایسٹ میں ختم نبوت اکیڈمی کے نام سے ادارہ قائم کر لیا جہاں وہ اپنے بیٹے مولانا سہیل باوا (فاضل بنوری ٹاؤن کراچی) کی معیت میں تحریک ختم نبوت کے مقاصد کے لیے مصروف کار ہیں۔
گزشتہ ماہ میں جب لندن پہنچا تو باوا صاحب نے اکیڈمی میں آنے کی دعوت دی اور بتایا کہ ہم نے انٹرنیٹ پر اپنے پروگرام کا آغاز کر دیا ہے جس میں روزانہ کم و بیش دو گھنٹے دنیا بھر کے احباب سے رابطہ رہتا ہے۔ دوستوں کو عقیدہ ختم نبوت اور تحریک ختم نبوت کے بارے میں معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں اور باہمی تبادلہ خیالات ہوتا ہے۔ دو ماہ قبل مولانا منظور احمد چنیوٹی لندن آئے تو اس پروگرام کے تحت انٹرنیٹ پر ان کے دو خطابات کرائے گئے جس پر احباب نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور مولانا چنیوٹی حیرت و تعجب کا اظہار کرتے رہے کہ یہ عجیب کرشمہ ہے کہ وہ لندن میں بیٹھے خطاب کر رہے ہیں اور ان سے سوالات کرنے والوں میں کوئی امریکہ سے سوال کر رہا ہے، کوئی کینیڈا سے پوچھ رہا، کوئی پاکستان سے دریافت کر رہا ہے، کوئی انڈونیشیا سے مخاطب ہے اور کوئی دوبئی میں بیٹھا اپنا اشکال پیش کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’پال ٹاک‘‘ کے عنوان سے پینٹاگون کے زیر کنٹرول چلنے والے انٹرنیٹ کے وسیع پروگرام میں ’’اسلام‘‘ کے نام سے ایک مستقل ویب سائٹ ہے جس میں قادیانیوں نے اپنا پروگرام شامل کرنے کی کوشش کی تو اس پر مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا، اور اس احتجاج کی وجہ سے قادیانیوں کو ’’اسلام‘‘ کے نام پر اپنا پروگرام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ جس کے بعد وہ پاکستان اور ایشیا کے سیکشن میں پروگرام پیش کرتے ہیں اور ہم نے بھی ’’ڈیفنڈر‘‘ کے نام سے اس پروگرام میں اپنا روم بنایا ہے جس میں روزانہ تقریباً دو گھنٹے کام ہوتا ہے اور مختلف ممالک کے احباب سے رابطہ قائم ہوتا ہے۔
باوا صاحب نے مجھے بھی اس پروگرام میں خطاب کی دعوت دی اور میں نے زندگی میں پہلی بار اس کا تجربہ کیا۔ مجھے کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے بٹھا دیا گیا، کانوں پر سماعت کے آلات اور منہ کے سامنے مائیک سیٹ کر دیا گیا۔ سکرین پر ان لوگوں کے نام آ رہے تھے جو مختلف ممالک میں ہمارے ساتھ اس پروگرام میں شریک تھے اور گفتگو سن رہے تھے، اور ان میں سے جو بولتا تھا اس کی آواز بھی کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ اس کیفیت میں مجھے انٹرنیٹ پر گفتگو کا پہلا تجربہ حاصل ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ اس قسم کے پروگرام میں شرکت کا چونکہ میرا پہلا موقع ہے، اس لیے آج صرف اصولی گفتگو کروں گا۔ اس کے بعد جب کبھی موقع ملا عقیدہ ختم نبوت اور قادیانیت کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہو جائے گی۔ اس اصولی اور تمہیدی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
امت میں پیدا ہونے والے فتنوں سے باخبر رہنا، ان کی نشاندہی کرنا اور ان سے عام مسلمانوں کو آگاہ کرنا بھی دین کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر فتنوں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں احادیث میں فتنوں اور امت میں قیامت سے قبل رونما ہونے والی خرابیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جنہیں محدثین کرام نے احادیث کی کتابوں میں فتن اور علامات قیامت کے عنوان سے مستقل ابواب کی صورت میں مرتب کیا ہے، اور بعض محدثین نے اس پر مشتمل کتابیں بھی لکھی ہیں۔ معروف محدث اور مؤرخ حافظ ابن کثیرؒ نے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ کے نام سے ملتِ اسلامیہ کی جو ضخیم تاریخ کئی جلدوں میں لکھی ہے اور جس میں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر اپنے دور تک کے اہم واقعات بیان کیے ہیں اس کا آخری حصہ ’’النہایۃ‘‘ کے عنوان سے فتنوں اور علاماتِ قیامت کے بارے میں ہے اور اس میں انہوں نے ان دو موضوعات پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشتر ارشادات کو جمع کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ میں تکوینی طور پر اس طرح مختلف ذوق تقسیم فرما دیے تھے جو دین کے الگ الگ شعبوں کے لیے بنیاد بنے اور ان پر امت میں دین کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے مستقل طبقات وجود میں آئے۔ قرآن کریم کی قراءت میں حضرت ابی بن کعبؓ، فقہ و استنباط میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، تفسیر و تاویل میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ، احادیث کے حفظ و جمع میں حضرت ابوہریرہ، سنتِ رسولؐ کی جزئیات کی حفاظت میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ، فرائض و میراث کے مسائل میں حضرت زید بن ثابتؓ، احکام کی حکمت و فلسفہ کے بیان میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ، قضاء و عدالت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، اور اجتہاد کی ضرورت و طریق کار کی وضاحت میں حضرت عمر بن الخطابؓ کی خصوصیات و امتیازات سب پر واضح ہیں۔ اسی طرح فتنوں سے واقفیت اور ان کی نشاندہی میں بھی ایک صحابئ رسول کا ذوق نمایاں ہے جن کا نام حضرت حذیفہ بن الیمانؓ ہے اور انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رازدار کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جناب نبی اکرمؐ سے زیادہ تر فتنوں کے بارے میں ہی دریافت کیا کرتے تھے اور اپنے اس ذوق کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ باقی لوگ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا۔
شر کے بارے میں پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کے بارے میں دریافت کرتے تھے کہ فتنوں کا دور کب شروع ہو گا؟ کس کس طرح کے فتنے رونما ہوں گے؟ ان سے امت میں کیا نقصانات ہوں گے؟ اور ان سے محفوظ رہنے کی کیا صورت ہوگی؟ حضرت حذیفہؓ کا یہ ذوق صحابہ کرامؓ میں اس قدر معروف تھا کہ لوگ ان سے اس حوالے سے بطور خاص معلومات حاصل کیا کرتے تھے اور کہیں فتنوں کے حوالے سے گفتگو ہوتی تو صحابہ کرامؓ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ یہ بات حذیفہؓ سے پوچھو، ان کی معلومات اس کے بارے میں زیادہ ہیں۔
دین کے دیگر شعبوں کی طرح امت میں اس ذوق کے افراد بھی ہر دور میں رہے ہیں اور ایسے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں فتنوں کی نشاندہی کی، امت کو ان سے خبردار کیا اور اس مشن میں انہیں قربانیوں اور تکالیف کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب کئی جلدوں میں لکھی ہے جو اردو میں ہے اور جس میں ہر دور کے ایسے نمایاں بزرگوں اور شخصیات کی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے عقائد، عبادات، اخلاقیات، سیاست و اجتماعیت اور دیگر شعبوں میں پیدا ہونے والے فتنوں کو بے نقاب کیا، امت کو ان سے خبردار کیا اور اس کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں، طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ بہت سے بزرگوں کو جام شہادت بھی نوش کرنا پڑا۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ کی ذات گرامی کو سامنے رکھ لیجئے جنہوں نے عقائدِ اسلام کے ایک اہم مسئلہ پر خلق قرآن کے فتنہ کا مقابلہ کیا، سرعام کوڑے کھائے، جیل جانا قبول کیا اور جسم لہولہان کرا لیا، مگر ایک اسلامی عقیدہ کی غلط تعبیر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ صرف مثال کے طور پر ایک بزرگ کا نام میں نے لیا ہے، ورنہ امت میں سینکڑوں علماء کرام ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ہر دور میں امام احمد بن حنبلؒ کی اس سنت کو زندہ رکھا ہے اور عزیمت و استقامت کی عظیم روایات کے تسلسل کو باقی رکھا ہے۔
آج بھی یہ تسلسل قائم ہے اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ اس لیے جس طرح دین کے دیگر شعبوں کے لیے افراد کو تیار کرنا دین کا تقاضا ہے، اسی طرح فتنوں سے واقفیت، ان کی نشاندہی، ان سے امت کو باخبر کرنے اور اس مقصد کے لیے ابلاغ کے ہر ممکن ذریعہ کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو بہرہ ور کرنا اور انہیں اس کے لیے تیار کرنا بھی دینی ضرورت ہے، اور دینی مراکز اور اداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔