۲۶ مئی قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کا یومِ وفات ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں وفات پائی تھی جسے ایک صدی مکمل ہو گئی ہے۔ اور اپنے مذہب کے ایک سو سال مکمل ہو جانے پر مرزا قادیانی کے پیروکار دنیا بھر میں یہ پورا سال ’’صد سالہ تقریبات‘‘ کے عنوان سے منا رہے ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ پاکستان میں انہیں یہ تقریبات منانے کی اجازت نہیں دی جا رہی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مگر سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ اپنی سرگرمیاں اپنے مذہب کے الگ نام کی بجائے اسلام کے نام پر جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور ملک کے دستور میں انہیں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیے جانے کے باعث اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لیے انہیں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کی مخصوص اصطلاحات کے ساتھ اپنے جداگانہ مذہب کی تبلیغ و تشہیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
البتہ دنیا کے بہت سے علاقوں میں قادیانیوں کی یہ صد سالہ تقریبات ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ انڈونیشیا میں اسی قسم کی سرگرمیوں اور تقریبات کے ردعمل کے طور پر وہاں کی دینی جماعتیں قادیانیوں کو انڈونیشیا میں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئیں، جس کے لیے گزشتہ دنوں جکارتہ میں صدارتی محل کے باہر ایک زبردست عوامی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
بہرحال اس فضا میں جہاں مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار اپنے مذہب کا صد سالہ جشن منا رہے ہیں اور مختلف تقریبات میں اپنی سو سالہ پیشرفت اور کامیابیوں کا تذکرہ کرنے میں مصروف ہیں، وہاں تحفظِ عقیدۂ ختمِ نبوت کے عنوان سے قادیانیوں کے خلاف سرگرمِ عمل جماعتیں بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’تصویر کے دوسرے رخ‘‘ کے طور پر اجتماعات کا اہتمام کر رہی ہیں۔
ان میں سے ایک اجتماع ۲۶ مئی پیر کو صبح دس بجے ایوانِ اقبال لاہور میں انٹرنیشنل ختمِ نبوت موومنٹ پاکستان کے زیر اہتمام ہو رہا ہے، جس کے سربراہ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے فرزند اور پنجاب اسمبلی کے رکن مولانا محمد الیاس چنیوٹی ہیں۔ اور ہماری معلومات کے مطابق اس کانفرنس سے مختلف مذہبی مکاتبِ فکر کے سرکردہ رہنماؤں کے علاوہ سابق صدر پاکستان جناب رفیق تارڑ اور ممتاز مسلم لیگی رہنما راجہ محمد ظفر الحق بھی خطاب کرنے والے ہیں۔
یہ کانفرنس چونکہ ایوانِ اقبال میں ہو رہی ہے اور علامہ اقبالؒ کا بھی اس مسئلہ کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے، اس لیے ہم آج کے کالم میں قادیانیت کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے ارشادات کا ایک انتخاب پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس تمہیدی گزارش کے ساتھ کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کی تجویز سب سے پہلے مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے پیش کی تھی۔ اور انہی کی اس تجویز کو پاکستان بن جانے کے بعد ملک کے تمام دینی حلقوں نے اپنا مشترکہ مطالبہ قرار دیا تھا، جس پر ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم (قائد ایوان) اور مولانا مفتی محمود (قائد حزب اختلاف) کی قیادت میں قادیانیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کا دستوری فیصلہ صادر کیا تھا۔
پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے اس فیصلے، ملک کے تمام دینی حلقوں کے متفقہ مطالبہ، اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کی اس تجویز کا پس منظر کیا ہے؟ اسے علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
★ سید نذیر نیازی مرحوم کے نام ایک خط میں اقبالؒ فرماتے ہیں: ’’ختمِ نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزائے نبوت موجود ہیں، یعنی یہ کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے، تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل ہے، مسیلمہ کذاب کو اسی بنا پر قتل کیا گیا تھا۔‘‘
★ سید نذیر نیازی مرحوم ’’اقبالؒ کے حضور‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’چودھری صاحب جب کبھی موقع پاتے، قادیانی سیاست پر کوئی نہ کوئی فقرہ چست کر دیتے۔ حضرت علامہ کی طبیعت پر بھی بیان کے رد و کد سے جو بار پڑا تھا، وہ دور ہو چکا تھا۔ ایک مرتبہ چودھری صاحب کہنے لگے: ’’مزے کی بات یہ ہے کہ اہلِ قادیان اگرچہ عقیدتاً ہمیں کافر سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود اتحاد کے بھی خواہشمند ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سب کو ایک ہو جانا چاہیے، اس لیے کہ ہندو بہرحال ہم سب کو ایک سمجھتے ہیں‘‘۔ حضرت علامہؒ نے فرمایا: ’’یہ خوب منطق ہے، اسلام کی بنا پر تو ہم ایک ہیں نہ ایک ہو سکتے ہیں، اور ہو سکتے ہیں تو ہندوؤں کے اس کہنے پر کہ ہم سب مسلمان ہیں‘‘۔ ارشاد ہوا کہ ’’دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم تو قادیانیوں کا مسلمان ہونا تسلیم کر لیں، البتہ وہ ہمیں برابر کافر سمجھتے رہیں، یہ کیا خوب بنائے اتحاد ہے‘‘۔ اس پر ہم سب کو ہنسی آ گئی۔
★ قادیانیت کے بارے میں علامہ اقبالؒ کے تنقیدی افکار پر اخبار ’’سٹیٹس مین‘‘ نے مضمون لکھا، جس کے جواب میں علامہ اقبالؒ نے تفصیلی مضمون تحریر فرمایا۔ اس میں اقبالؒ لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں قادیانیوں کی حکمتِ عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ بانئ تحریک نے ملتِ اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے، اور اپنے مقلدین کو ملتِ اسلامیہ سے میل جول رکھنے سے اجتناب کا حکم دیا تھا۔ علاوہ بریں ان کا بنیادی اصولوں سے انکار، اپنی جماعت کا نیا نام، مسلمانوں کی قیامِ نماز سے قطع تعلق، نکاح وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں سے بائیکاٹ، اور ان سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ دنیائے اسلام کافر ہے۔ یہ تمام امور قادیانیوں کی علیحدگی پر دال ہیں ۔۔۔ ملتِ اسلامیہ کو اس مطالبے کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے۔‘‘
★ علامہ اقبالؒ نے اپنے متعدد مضامین کے علاوہ اشعار میں بھی عقیدۂ ختمِ نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ چنانچہ مثنوی رموز خودی میں فرماتے ہیں:
بر رسول ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفل ایام را
او رسل را ختم و ما اقوام را
خدمت ساقی گری با ما گذاشت
داد ما را آخرین جامے کہ داشت
’’لا نبی بعدی‘‘ ز احسان خدا است
پردۂ ناموس دین مصطفٰیؐ است
قوم را سرمایۂ قوت ازو
حفظ سر وحدت ملت ازو
حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست
تا ابد اسلام را شیرازہ بست
دل ز غیر اللہ مسلماں بر کند
نعرۂ لا قوم بعدی می زند
’’اللہ تعالیٰ نے ہم پر شریعت اور ہمارے رسولؐ پر رسالت ختم کر دی ہے۔ ہمارے رسولؐ پر انبیاء کا سلسلہ اور ہم پر اقوام کا سلسلہ ختم کر دیا ہے، اب بزمِ جہاں کی رونق ہم سے ہے۔ میخانۂ شریعت کا آخری جام ہمیں عطا فرمایا گیا ہے، اب قیامت تک ساقی گری کی خدمت ہم ہی سرانجام دیں گے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی کہ ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ احساناتِ خداوندی میں سے ایک احسان ہے اور دینِ مصطفٰیؐ کا محافظ بھی یہی ہے۔ مسلمانوں کا اصل سرمایۂ قوت یہی عقیدہ ہے اور اسی میں وحدتِ ملت کا راز پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کے بعد ہر دعوائے نبوت کو باطل ٹھہرا کر اسلام کا شیرازہ ہمیشہ کے لیے مجتمع کر دیا ہے۔ اسی عقیدہ کے باعث مسلمان ایک اللہ کے سوا سب سے تعلق توڑ لیتا ہے، اور ’’امتِ مسلمہ کے بعد کوئی امت نہیں‘‘ کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ ہمارے زمانے نے ایک نبی پیدا کیا ہے جسے قرآن میں اپنے سوا کوئی نظر نہیں آیا۔ خود پسند، جاہ پرست اور کوتاہ نظر ہے اور اس کا دل لا الٰہ سے خالی ہے۔ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو کر کلیسا کا مرید ہوا، اور اس نے ہماری عزت کا پردہ چاک کر دیا۔ اس کا دامن تھامنا بے وقوفی ہے اور اس کا سینہ روشن دل سے خالی ہے۔ اس کی پرجوش گفتگو اور چرب زبانی سے بچنے کی کوشش کرو۔ اس کا پیر شیطان اور فرنگی کا غلام ہے، اگرچہ کہتا ہے کہ میں بایزیدؒ کے مقام سے بول رہا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ غلامی میں ہی دین کی رونق ہے، اور خود اس کی زندگی خودی سے محروم ہے۔ غیروں کی حکمرانی کو اس نے رحمت قرار دیا، اور کلیسا کے گرد رقص کرتے کرتے مر گیا۔‘‘
اس لیے ۲۶ مئی کو علامہ اقبالؒ کی تعلیمات کے مرکز ایوانِ اقبال میں منعقد ہونے والی یہ ختمِ نبوت کانفرنس جہاں عقیدۂ ختمِ نبوت کے ساتھ مسلمانوں کے والہانہ تعلق کا ایک بار پھر اظہار ہے، وہاں صاحبِ ایوان یعنی مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے لیے خراجِ عقیدت کی حیثیت بھی رکھتا ہے، جس سے علامہ اقبالؒ کی روح یقیناً خوش ہو گی۔