آمشوں کے بارے میں پڑھ سن تو رکھا تھا کہ امریکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی آباد ہیں جو بجلی استعمال نہیں کرتے، خچروں کے ذریعے کھیتی باڑی کرتے ہیں، گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں، اور باقی دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں، مگر دیکھنے کا اتفاق ۲۱ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ہوا۔ میرا خیال تھا کہ ایسے لوگ اگر ہیں بھی تو کسی جزیرے میں ہوں گے یا امریکہ کی کسی دور دراز سرحد پر آباد ہوں گے، لیکن پتہ چلا کہ امریکہ کے وسط میں اور واشنگٹن ڈی سی (دارالحکومت) سے صرف اڑھائی تین گھنٹے کی ڈرائیو پر یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں رہتے ہیں۔ اپنے اردگرد چاروں طرف جگمگاتی روشنیوں اور ٹیکنالوجی کی جدید ترین سہولتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آج بھی موم بتیوں اور لالٹینوں کی مدہم سی روشنی پر قناعت کیے ہوئے ہیں اور مختلف علاقوں کے سیاحوں اور تماشائیوں کی تفریح اور تجسس و تحقیق کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
جوہر آباد خوشاب میں ہمارے ایک پرانے بزرگ کلیم علی احمد خان رہتے ہیں جو جمعیت علماء اسلام کے سینئر حضرات میں سے ہیں۔ ان کے فرزند محمد اشرف میرے پرانے دوست ہیں اور ورجینیا امریکہ میں گزشتہ پندرہ برس سے آباد ہیں۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ کسی روز آمشوں کا علاقہ دیکھنے جانا ہے تو وہ تیار ہو گئے، اور ان کے ساتھ ہمارے ایک اور دوست علی ناہن صاحب بھی شریک سفر ہوئے جو سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں کاروبار کرتے ہیں اور دینی کاموں میں دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ یہ آمش حضرات امریکہ کی ریاست پینسلوینیا کی لنکاسٹر کاؤنٹی میں آباد ہیں اور ان کا مرکزی گاؤں ’’انٹرکورس‘‘ کہلاتا ہے جس کے بارے میں اشرف صاحب نے بتایا کہ انگریزی محاورہ میں یہ لفظ کسی اچھے معنی کا حامل نہیں ہے، مگر بہرحال آمشوں کے مرکزی مقام کا نام یہی ہے۔
ہم تقریباً تین گھنٹے کا سفر کر کے ساڑھے گیارہ بارہ بجے کے لگ بھگ ’’انٹرکورس‘‘ کی جانب سڑک پر مڑے تو ایک سفید ریش بزرگ نظر آئے جو ادھر جانے والی گاڑیوں سے لفٹ مانگ رہے تھے۔ سیاہ پینٹ کوٹ کے اوپر سیاہ ہیٹ اور لمبی سفید ڈاڑھی تھی جبکہ مونچھیں صاف تھیں۔ ہم نے گاڑی روک لی اور ان سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ آ جائیں۔ یہ ہماری کسی آمش سے پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے دو تین میل تک جانا تھا، جہاں ان کی بگھی کھڑی تھی۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھے تو ہم نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم آمش لوگ کم و بیش تین سو سال قبل جرمنی سے یہاں آئے تھے۔ یہاں تقریباً چالیس میل کے رقبہ میں ہمارے تین ہزار سے زائد خاندان آباد ہیں۔ ہم سادگی کے ساتھ پرانی وضع پر زندگی بسر کرتے ہیں، بجلی استعمال نہیں کرتے، البتہ مقامی طور پر خود بنائی ہوئی گیس استعمال کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ ہمارا تعلق عیسائیوں کے بیپٹسٹ فرقہ سے ہے، چرچ کی قیادت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کی رہنمائی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمارے تمام فیصلے چرچ کرتا ہے جن کی پابندی ہم پر لازمی ہوتی ہے۔ عورتیں گھریلو زندگی بسر کرتی ہیں، لمبا کرتا پہنتی ہیں، سر پر سکارف لیتی ہیں، بند بوٹ پہنتی ہیں اور گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ زرعی فارموں میں اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں، اس کے علاوہ کوئی ملازمت وغیرہ نہیں کرتیں۔
ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک جگہ سڑک کے کنارے بڑی بلڈنگ کے ساتھ بگھی اور گھوڑا بندھا ہوا نظر آیا۔ چھت والی بند بگھی تھی جس کے آگے ایک گھوڑا تھا۔ بگھی میں دو آدمی بیٹھ سکتے تھے اور نیچے تھوڑا بہت سامان رکھنے کی جگہ تھی۔ ہم گاڑی روک کر وہاں اتر گئے، بگھی دیکھی بلکہ میں تو اس میں تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ بھی گیا۔ اس بزرگ نے میرے بارے میں کہا کہ وہ اس بگھی پر مجھے اپنے گاؤں کی سیر کرا سکتا ہے، مگر اکیلے ایسا کرنا میرے لیے مشکل تھا، اس لیے اسے شکریہ ادا کر کے رخصت کر دیا اور وہ بگھی پر بیٹھ کر گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔
اس جگہ کے قریب ایک میدان میں دو بگھیاں لے کر گھوڑے گول دائرے میں تیزی سے دوڑ رہے تھے۔ ان کے بارے میں اس سفید ریش بزرگ نے بتایا کہ یہاں گھوڑوں کو ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ وہاں سے آگے بڑھے تو تھوڑے فاصلے پر ایک انفارمیشن سینٹر اور اس کے ساتھ آمش گاؤں کا ایک ماڈل بنا ہوا ہے۔ سینٹر کے ساتھ ایک دکان ہے جہاں معلوماتی لٹریچر کے ساتھ ساتھ کچھ قابل (فروخت) اشیا بھی ملتی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک بریفنگ روم ہے، اس میں داخلہ ٹکٹ کے ذریعے ہوا اور اس میں ایک بوڑھی خاتون نے ہمیں آمش قوم، ان کی تاریخ اور رہن سہن کے طریقوں کے بارے میں بریفنگ دی اور بہت سی معلومات فراہم کیں۔ بریفنگ میں ہمارے علاوہ اور بھی بیسیوں سیاح شریک تھے جو مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔
اس نے بتایا کہ ان لوگوں میں ابتدائی تعلیم چرچ میں ہوتی ہے، اور اس کے بعد ایک مقامی سکول میں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے، اس کے بعد کسی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لڑکیاں پورا لباس پہنتی ہیں جس کے ساتھ سکارف ضروری ہے۔ لڑکے بھی پورا لباس پہنتے ہیں، نیکر پہننے کی اجازت نہیں ہے، اور سر پر ہیٹ ضروری ہے، ننگے سر پھرنا مرد و عورت دونوں کے لیے ممنوع ہے۔ ہیٹ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے مگر شادی شدہ اور غیر شادی حضرات کے ہیٹ مختلف ہوتے ہیں اور ان کی ساخت میں تھوڑا فرق رکھا گیا ہے۔ مردوں کے لیے سیاہ لباس ضروری ہے، جبکہ عورتیں نیلا، سبز اور سفید لباس بھی پہن سکتی ہیں۔ گھروں میں تصویر رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور آمش لوگ فوٹو کھنچوانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ کپڑے گھر میں ہی سلے جاتے ہیں، بچے کی ولادت گھر میں ہوتی ہے اور عام طور پر وفات بھی گھر میں ہوتی ہے۔ چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج گھر میں جڑی بوٹیوں سے کرتے ہیں۔ بیماری بڑھ جائے یا کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو جائے تو ایک مشترکہ میڈیکل انشورنس کا نظام ہے جس کے ذریعے بیمار کو کسی ہسپتال میں لے جایا جاتا ہے۔ شادی کے لیے لڑکا لڑکی خود ایک دوسرے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور ماں باپ بھی رشتے طے کرتے ہیں۔ شادی سے پہلے جنسی تعلقات کی اجازت نہیں ہے، لڑکا لڑکی آپس میں مل سکتے ہیں، ہاتھ ملا سکتے ہیں، مگر اس سے آگے کسی بے تکلفی کو جائز نہیں سمجھا جاتا۔ شادی گھر میں ہی ہوتی ہے، عام طور پر ایک جوڑے کی اولاد چھ سے آٹھ تک ہوتی ہے، اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے۔ یہ لوگ انتخابات میں حصہ نہیں لیتے، نہ ہی سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں فیصلہ کن اتھارٹی صرف اور صرف چرچ ہے جس کے ہر فیصلے کی پابندی لازمی ہے۔ چرچ کے فیصلے کی خلاف ورزی پر سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ مختلف چرچوں کے پادری باہمی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ ان میں ایک ہیڈ ہوتا ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
ہم نے کسی چرچ میں جانے اور وہاں کسی ذمہ دار شخص سے بات چیت کی خواہش ظاہر کی تو بتایا گیا کہ چرچ صرف اتوار کو کھلتا ہے اور غیر آمش لوگوں کو چرچ میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ آمش لوگ ضرورت سے زائد اشیا گھر میں نہیں رکھتے۔ عام طور پر دو جوڑے کپڑے اور ضرورت کے برتن وغیرہ ان کا سامان ہوتا ہے۔ باپ کے فوت ہونے پر لڑکی کو، اور خاوند کے فوت ہونے پر بیوی کو ایک سال تک سیاہ لباس پہننا پڑتا ہے۔ عورتیں گھروں میں کئی ماہ کی اکٹھی خوراک تیار کرتی ہیں۔ عام طور پر ایک عورت پانچ ہزار سے چھ ہزار تک خوراک کے کینز سالانہ تیار کرتی ہے، جو گھر کی ضرورت کے لیے ذخیرہ کرنے کے علاوہ چرچ میں دیے جاتے ہیں اور نادار اور غریب لوگوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔
بریفنگ کے بعد ہمیں ایک مکان دکھایا گیا جس میں بیڈ روم، ڈبل بیڈ، ڈائننگ ٹیبل، ٹائلٹ، واشنگ مشین، بجلی کے بلب اور دوسری اشیا موجود تھیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ عام آمش مٹی کے تیل سے دیا یا لالٹین جلاتے ہیں، مگر بعض گھروں میں مقامی طور پر تیار کردہ گیس سے، جسے یہ نیچرل گیس کہتے ہیں، جرنیٹر بھی بنائے جاتے ہیں جن سے واشنگ مشین اور بلب وغیرہ جلتے ہیں۔ پانی ہینڈ پمپ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، ایئر پریشر کے ذریعے چلنے والے واٹر پمپ بھی ہیں۔ مرغیاں، بھیڑیں، خرگوش اور سور گھروں میں پالتے ہیں اور خود ذبح کرتے ہیں۔
ہم نے اپنی گاڑی میں مختلف اطراف میں گھوم پھر کر دیکھا۔ ایک جگہ عجیب منظر دیکھنے میں آیا کہ ایک کھیت میں نوجوان لڑکا سیاہ ہیٹ پہنے ایک مشین کے ذریعے مکئی کے ٹانڈے زمین سے اکھاڑ رہا تھا۔ مشین میں انجن چل رہا تھا جس کے ذریعے زمین سے وہ ٹانڈے اکھاڑے جا رہے تھے، جبکہ اس مشین کو کھینچ کر کھیت میں ادھر ادھر لے جانے کی خدمت چار خچر سرانجام دے رہے تھے جو اس کے آگے بندھے ہوئے تھے۔ میرے ساتھیوں نے تعجب کا اظہار کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ قدیم اور جدید کا امتزاج ہے۔
ایک جگہ کھیت میں کچھ مردوں کو دیکھا کہ وہ ایک آلے کے ذریعے گھاس کے بندھے ہوئے بڑے بڑے بنڈلوں کو پلاسٹک کی چادروں میں لپیٹ رہے تھے اور اس آلہ یا مشین کو خچروں کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔ ہم نے قریب جا کر دیکھنا چاہا اور خیال ہوا کہ ان سے کچھ بات چیت بھی ہو جائے مگر ہمارے جانے سے پہلے وہ وہاں سے کام ختم کر کے چل دیے تھے۔ ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہمیں کوئی اور آمش میسر آ جائے جس سے ہم مزید باتیں کر سکیں اور کچھ اور معلومات حاصل ہو جائیں، مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ البتہ ایک دکان پر آمشیوں کی دستکاری کے نمونے دیکھے۔ ہاتھ سے بنی ہوئی مختلف اشیا دکان میں سجی ہوئی تھیں اور متعدد اطراف سے آئے ہوئے سیاح انہیں شوق سے دیکھ اور خرید رہے تھے۔ ایک لحاف نما کمبل پر اس کی قیمت سو ڈالر درج تھی اس لیے وہاں سے کچھ خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، البتہ میں نے اپنے ننھے منے سے پوتے طلال خان اور ننھے منے نواسے عیینہ خان کے لیے ایک ایک کھلونا یادگار کے طور پر خرید لیا۔ اور کم و بیش دو گھنٹے آمشوں کے علاقے میں گھومنے پھرنے کے بعد ہم بالٹیمور کی طرف روانہ ہو گئے، جبکہ مغرب کے بعد ایک اجتماع میں شرکت کا وعدہ تھا۔