روزنامہ مشرق کا انٹرویو

   
تاریخ : 
۲ جولائی ۲۰۲۳ء

(اسلامک رائٹرز موومنٹ کے تعاون سے روزنامہ مشرق لاہور کے سنڈے میگزین ۲ جولائی ۲۰۲۳ء میں شائع ہونے والا انٹرویو ضروری تصحیح و ترتیب اور مولانا راشدی کی نظرثانی کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)


تعارف

مولانا زاہد الراشدی عالمی سطح پر علمی، عوامی اور سنجیدہ حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ آپ کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ ایک علمی و مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد محترم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ایک نامور علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے خصوصی تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی قال اللہ و قال الرسولؐ کا درس دیا۔ آپ کے والد ماجد نے بھی اپنے استاد محترم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے باطل نظریات کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ آپ خود ایک ہمہ جہت شخصیت اور نامور مذہبی سکالر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ نہ صرف نامور عالمِ دین ہیں بلکہ اپنے والد ماجد کی حیات مبارکہ سے ہی شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صحافی برادری سے بھی آپ کا پرانا تعلق ہے۔ ۱۹۶۵ء میں آپ نے قلمی میدان میں قدم رکھا تو اس وقت آپ کا نام عبد المتین خان زاہد تھا۔ آپ نے عنفوانِ شباب میں اپنا قلمی نام زاہد الراشدی منتخب کیا تو معاشرے میں اس نام کو اتنی پذیرائی ملی کہ لوگ اصل نام بالکل ہی بھول گئے۔ آپ مختلف اداروں میں دینی و مذہبی سیاسی جماعتوں کے فعال ترین کارکنوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ آپ کی علمی، فکری اور نظریاتی خدمات کے اعتراف میں آپ کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ ملکی و نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کیا کرتے ہیں۔

انٹرویو نگار: چوہدری محمد اشرف
مینیجنگ ڈائریکٹر روزنامہ مشرق، لاہور

سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں۔

جواب: میرے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور گکھڑ ضلع گوجرانوالہ کی مسجد بوہڑ والی میں ۱۹۴۳ء سے خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ان کا تعلق خیبرپختونخوا کے علاقہ مانسہرہ سے تھا اور میری ولادت گکھڑ میں ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔

سوال: آپ نے تعلیمی زندگی کا آغاز دینی تعلیم سے کیا تھا یا عصری تعلیم سے؟

جواب: سکول میں پڑھ رہا تھا کہ گکھڑ کی مسجد میں حفظ کا مدرسہ شروع ہو گیا اور مجھے وہاں منتقل کر دیا گیا۔ چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ساری تعلیم مدرسہ کی ہی ملی ہے۔ حفظِ قرآن کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درسِ نظامی کا کورس کیا اور ۱۹۶۹ء میں درسِ نظامی کی تکمیل ہوئی۔

سوال: موجودہ دور میں آپ عصری تعلیم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: عصری تعلیم قومی ضروریات کے لیے تو ناگزیر ہے مگر دین کی دعوت، ابلاغ، دفاع اور نفاذ کے تقاضوں کے لیے حسبِ ضرورت دینی نصاب میں بھی عصری تعلیم کا شامل ہونا ازحد ضروری ہے۔

سوال: صحافتی زندگی میں پہلا قدم کب رکھا؟

جواب: ۱۹۶۴ء ۔ ۱۹۶۵ء کے دوران ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور اور ہفت روزہ نوائے گوجرانوالہ میں لکھنا شروع کیا، تب سے اب تک لکھتا ہی آ رہا ہوں۔ روزنامہ وفاق، روزنامہ پاکستان، روزنامہ اوصاف اور روزنامہ اسلام میں مستقل لکھتا رہا ہوں۔ علمی، قومی، مذہبی اور سیاسی مسائل پر مضامین کی تعداد کم و بیش ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ مختلف عنوانات پر بیس سے زائد مجموعے پی ڈی ایف کی صورت میں آن لائن موجود ہیں اور متعدد عنوانات پر کتب شائع بھی ہو چکی ہیں۔

سوال: دعوتی امور کے سلسلے میں کتنے ممالک کا سفر کیا؟

جواب: الحمد للہ دعوتی امور کے سلسلہ میں اندرون و بیرون ملک بے شمار سفر کیے، نمایاں ممالک کے نام یہ ہیں: بھارت، بنگلہ دیش، ہانگ کانگ، جنوبی افریقہ، متحدہ عرب امارات، مصر، ترکی، امریکہ، کینیڈا، ایران، برطانیہ، کینیا، ازبکستان وغیرہ۔

سوال: میڈیا لائن میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار مثبت ہے یا پرنٹ میڈیا کا؟

جواب: پرنٹ میڈیا میں اسلامی حوالے سے الیکٹرانک میڈیا کی بہ نسبت زیادہ توازن دکھائی دیتا ہے۔

سوال: الشریعہ اکادمی کا بنیادی مقصد کیا ہے؟

جواب: نفاذِ اسلام کے تعلیمی تقاضوں کو اجاگر کرنا، مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان مکالمہ کا ماحول فراہم کرنا، دینی و عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و طلبہ کے درمیان میل جول اور باہمی تعاون کو فروغ دینا۔

سوال: ورلڈ اسلامک فورم اور پاکستان شریعت کونسل کا دائرہ کس حد تک وسیع ہے؟

جواب: ورلڈ اسلامک فورم عالمی سطح پر ہم خیال دانشوروں کا فورم ہے جو وقتاً فوقتاً سیمینارز اور مضامین کے ذریعے ملت ِاسلامیہ کے مسائل پر اظہار خیال کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان شریعت کونسل پاکستان کے اندر نفاذِ اسلام کا ایک علمی و فکری فورم ہے جو انتخاب اور اقتدار کی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے نفاذِ اسلام کی علمی و فکری جدوجہد میں مصروف ہے۔

سوال: زندگی میں پہلی بار اصلاحی تعلق کے لیے کس خانقاہ میں جانے کا اتفاق ہوا؟

جواب: میرا اصلاحی تعلق الحمد للہ شروع ہی سے شیرانوالہ لاہور سے رہا ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ (حضرت مولانا احمد علیؒ لاہوری کے خلیفہ و داماد) میرے مرشد و شیخ ہیں۔ ان کی وفات تک یہ سلسلہ باقاعدہ قائم رہا۔ ان کے بعد مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ سے بیعت کا تعلق قائم کیا، جبکہ حضرت والد محترم مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے بھی مجھے نقشبندی سلسلہ میں خلافت سے نوازا ہے۔

سوال: نظریہ شاہ ولی اللہؒ کو ہمارے موجودہ تعلیمی نصاب کا حصہ کیوں نہیں بنایا جاتا؟

جواب: دارالعلوم دیوبند کا نصاب درسِ نظامی اور درسِ ولی اللہ کے دو نصابوں کا امتزاج ہے۔ البتہ ولی اللہ علوم و افکار کو اس میں مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

سوال: تمغہ امتیاز ایک بہت بڑا سرکاری اعزاز ہے، آپ کو اس سے کب نوازا گیا۔

جواب: ۲۳ مارچ ۲۰۱۵ء کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے مجھے گورنر ہاؤس لاہور میں اس اعزاز سے نوازا گیا۔

سوال: اس وقت آپ کن کن عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں؟

جواب: سینئر نائب صدر ملی مجلس شرعی پاکستان (مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کا فورم)، سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل، کنوینر رابطہ کمیٹی تحریکِ انسدادِ سود پاکستان، شیخ الحدیث و صدر مدرس جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ، خطیب مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ، رکن پنجاب قرآن بورڈ (حکومت پنجاب)، رکن صوبائی اتحاد بین المسلمین کمیٹی (حکومت پنجاب)، سیکرٹری اطلاعات کل جماعتی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت پاکستان، سرپرست اسلامک رائٹرز فورم وغیرہ۔

سوال: قارئین مشرق سنڈے میگزین کیلئے کوئی اہم پیغام

جواب: تمام قارئین کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے دین پر قائم رہیں اور عقیدہ کی پختگی کے ساتھ اعمال کی اصلاح اور بہتری کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ قرآن و سنت کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق بڑھائیں۔ جمہور علماء اہل سنت کے دائرہ کی پابندی کریں۔ تلاوتِ قرآن اور ذکر و اذکار کا اہتمام کریں۔ دینی جدوجہد کے کسی نہ کسی شعبہ سے وابستہ رہیں اور دوسرے شعبوں کے ساتھ احترام اور تعاون کا تعلق قائم رکھیں۔

سوال: اسلامک رائٹرز موومنٹ کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب: اسلامک رائٹرز موومنٹ فنِ صحافت و خطابت کے ذریعے مدارس، جامعات اور یونیورسٹیوں میں صدائے حق بلند کر رہی ہے الحمد للہ۔ ہمارے دیرینہ و مرحوم دوست مولانا اللہ وسایا قاسم نور اللہ مرقدہٗ کے فرزندان عزیزم حفیظ چوہدری اور اسامہ قاسم نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں نظر آ رہے ہیں۔ مستقبل کے معماروں کے ہاتھ میں قلم، کاغذ اور کتاب دیکھنا میرا ایک خواب تھا جو آج اسلامک رائٹرز موومنٹ کے عنوان سے پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter