افغانستان پر پابندیاں اور امریکی حکمرانوں کی غلط فہمی

   
تاریخ : 
۷ اگست ۲۰۰۱ء

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف عائد کردہ پابندیوں پر سختی کے ساتھ عمل کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور سرحدات پر مانیٹرنگ کے لیے اپنی ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ جن کے بارے میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا محمد عمر نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کے افراد کو دشمن تصور کیا جائے گا، اور نہ صرف افغانستان بلکہ قبائلی علاقہ کے عوام بھی انہیں برداشت نہیں کریں گے۔ ادھر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر اقوام متحدہ کی ٹیموں کے بھیجے جانے کو ہم اپنے ملکی معاملات اور خود مختاری میں مداخلت تصور کرتے ہیں، لیکن چونکہ یہ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے اس لیے اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

امارت اسلامی افغانستان کے خلاف امریکہ اور روس کے حواریوں کے ایما اور دباؤ پر اقوام متحدہ کی یہ پابندیاں ایک عرصہ سے چل رہی ہیں، لیکن اقوام متحدہ اور امریکہ بہادر کو ان پابندیوں سے جن نتائج کی توقع تھی وہ حاصل نہیں ہو رہے۔ ان کا خیال تھا کہ پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان کو ہر قسم کی اشیا کی فراہمی روک دی جائے گی، افغان عوام بھوکے مرنے لگیں گے، بازار سونے پڑ جائیں گے، کھیت ویران ہو جائیں گے، اور طالبان امریکہ بہادر کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرتے ہوئے عاجزی کے ساتھ معافی کی درخواست پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، یا افغان عوام اپنے مصائب کا ذمہ دار طالبان حکومت کو قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بغاوت کر دیں گے، اور اس طرح امریکہ اور اس کے حواریوں کو کابل پر اپنی مرضی کی حکومت بٹھانے اور افغانستان میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کا راستہ روکنے کا موقع مل جائے گا۔

لیکن ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا اور طالبان حکومت پورے اطمینان اور اعتماد کے ساتھ نہ صرف کاروبارِ حکومت جاری رکھے ہوئے ہے، بلکہ اسے افغان عوام کا تعاون بھی میسر ہے، لوگوں کو اشیائے صرف مل رہی ہیں، بازار اس طرح آباد ہیں، اور مسلم اہلِ خیر اپنے افغان بھائیوں کی امداد اور بحالی کے لیے ہر طرف سے متوجہ ہو ہے ہیں۔ حتیٰ کہ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ نے کابل میں عوام کو سستی روٹی فراہم کرنے والے تنور بند کرنے کا فیصلہ کیا تو کراچی سے ’’الرشید ٹرسٹ‘‘ نے ان تنوروں کا انتظام سنبھالنے کا اعلان کر دیا، جس پر اقوام متحدہ کو اپنا وار خطا ہوتا دیکھ کر دوبارہ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر ان تنوروں کو چلاتے رہنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اور اب تک صورتحال یہ ہے کہ تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود افغان عوام کو ان مصائب پر واویلا کرنے اور طالبان حکومت کو معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ بہادر کو اس سلسلہ میں سب سے زیادہ شکایت پاکستان سے ہے، کیونکہ ان کے خیال میں پاکستان کے ساتھ افغانستان کی سینکڑوں میل لمبی سرحد کو مکمل طور پر مانیٹر کیے بغیر افراد اور اشیا کی نقل و حرکت کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سرحدات کو واچ ور مانیٹر کرنے میں حکومتِ پاکستان سنجیدہ نہیں ہے، اس لیے انہوں نے خود اپنی مانیٹرنگ ٹیمیں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ وہ خود آ کر افغانستان کی اقتصادی ناکہ بندی کو مکمل طور پر کامیاب بنائیں گے، اور ہمارے خیال میں حکومتِ پاکستان نے بھی اسی لیے سلامتی کونسل کے اس فیصلے کو پاکستان کی خودمختاری میں مداخلت قرار دینے کے باوجود اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیموں کو راستہ دینے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود آ کر دیکھ لیں کہ یہ کام کس قدر آسان ہے۔

ہم ان کالموں میں پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ جہاں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل اور پیچیدہ سرحد ان پابندیوں کے مکمل نفاذ میں رکاوٹ ہے، وہاں یہ بات بھی ایک معروضی حقیقت کے طور پر موجود ہے کہ ان سرحدات کے دوسری طرف وہ پاکستانی قوم آباد ہے جس نے روسی جارحیت کے خلاف افغان عوام کی جنگِ آزادی کی نہ صرف عملاً پشت پناہی کی ہے بلکہ ان کے ساتھ خود بھی قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، اور پاکستانی قوم اپنی اس جدوجہد اور قربانیوں کے منطقی ثمرات سے محروم ہونے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں ہو گی۔ اس لیے امریکہ چاہے یا نہ چاہے، اقوام متحدہ خوش ہو یا ناراض، اور خود پاکستان کی حکومت برداشت کرے یا نہ کرے، پاکستان کے جن دیندار عوام اور دینی حلقوں نے روس کے خلاف جدوجہد میں افغان عوام کا ساتھ دیا تھا وہ اس جہاد کے منطقی نتائج کے تحفظ کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کے تحفظ کے لیے بھی تیار ہیں اور اسے بھی اپنی دینی ذمہ داری تصور کرتے ہیں۔

بد قسمتی سے امریکہ ابھی تک اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ افغان عوام نے روس کے خلاف امریکہ کے کہنے پر جنگ لڑی تھی، اور پاکستان کے عوام بھی صرف امریکہ بہادر کو خوش کرنے کے لیے اس میں شریک ہو گئے تھے۔ اس لیے یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اب جب کہ امریکہ کے مفادات کا رخ تبدیل ہو گیا ہے تو افغان عوام اور پاکستان کے دینی حلقے اس رخ کی طرف اپنا قبلہ بدلنے پر کیوں آمادہ نہیں ہو رہے اور اس کے ایجنڈے کو قبول کیوں نہیں کر رہے؟ ہمارے خیال میں اصل بات یہیں رکی ہوئی ہے۔

اس لیے امریکہ بہادر سے ہم یہی گزارش کریں گے کہ وہ اس غلط فہمی کو دل سے نکالتے ہوئے معروضی حقائق کا ادراک کرے، اور اس حقیقت کو تسلیم کر لے کہ افغان عوام اور ان کی حمایت میں پاکستان کے دینی حلقوں نے روسی استعمار کے خلاف جنگ اپنے نظریات اور مشن کے تحت لڑی تھی، اور اس میں وقتی ضرورت اور مصلحت کی خاطر امریکہ کی امداد بھی قبول کر لی تھی۔ اس لیے اگر امریکہ کو سوویت یونین کے خاتمہ کے منطقی ثمرات میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کا حق ہے تو افغان عوام اور ان کے بہی خواہ حلقوں کو بھی ان نتائج و ثمرات میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کا حق اسی طرح حاصل ہے۔ اور امریکہ اقوام متحدہ کی چھتری کو استعمال کر کے اس خطہ کے مسلمانوں کو ان کے اس جائز، فطری اور مسلّمہ حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ یہ بات امریکی حکمرانوں کی سمجھ میں جتنی جلدی آ جائے خود ان کے حق میں بہتر ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter