مولانا منظور احمد چنیوٹی ان دنوں ایک اور محاذ کے لیے مورچہ بندی میں مصروف ہیں اور ہوم ورک کا سلسلہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ تحریک ختم نبوت کے سرگرم اور متحرک راہنما ہیں، اس محاذ پر اجتماعی جدوجہد اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی سرگرمیوں میں پورا حصہ ڈالتے میں، مگر اپنا جداگانہ مورچہ بھی قائم رکھتے ہیں اور جدوجہد میں امتیازی تشخص برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جو اس لحاظ سے ان کا حق بھی ہے کہ جس جوش و جذبہ اور جنون و ولولہ کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں اور کسی مسئلہ کو ہاتھ میں لے کر اس میں پیشرفت کے لیے ملی تقاضوں کے مراحل سے گزرتے ہیں، وہ بڑے بڑے اداروں کے لیے قابل رشک ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے ’’اپنی ذات میں ایک انجمن‘‘ ہونے کا محاورہ ان پر پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے۔
۲۰ مئی جمعرات کو میں ضلع جھنگ میں احمد والا کے مقام پر رات کے وقت ایک سیرت کانفرنس میں شریک تھا کہ نصف شب کے لگ بھگ مولانا چنیوٹی کے دو صاحبزادے مولانا محمد ثناء اللہ چنیوٹی اور مولانا محمد بدر عالم چنیوٹی گاڑی لے کر آ گئے کہ والد صاحب آپ کو یاد کرتے ہیں اور ایک ضروری کام کے لیے مشورہ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم آپ کو لینے آئے ہیں، رات ہمارے پاس رہیں اور صبح ان سے ملاقات کر کے واپس جائیں۔ میرے شیڈول میں یہ پروگرام شامل نہیں تھا، لیکن مولانا چنیوٹی کے اس نوعیت کے کسی تقاضے سے انکار میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ ان کا معاملہ بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ سیرت کانفرنس سے فارغ ہو کر ان کے ساتھ چلا گیا، بقیہ رات مولانا چنیوٹی کے گھر میں گزاری اور جمعہ کے روز صبح نماز کے بعد ہماری ملاقات ہوئی۔ جسمانی کمزوری کے اثرات ان پر نمایاں ہوتے جا رہے ہیں، عمر میرے اندازے میں پچھتر برس کے لگ بھگ ہو گئی۔ ساری زندگی تحریکوں اور معرکوں میں گزاری ہے، بہت سے معرکے سر کیے ہیں اور ان کے لیے بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرے ہیں، مگر اس بڑھاپے میں بھی ان کا عزم جواں ہے اور قادیانیت کے خلاف ایک اور مورچہ قائم کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔
کہنے لگے زندگی کا کچھ پتہ نہیں، قادیانیت کے محاذ پر بحمد اللہ تعالیٰ بہت سی کامیابیاں دیکھی ہیں، مگر چند کام باقی ہیں اور جی چاہتا ہے کہ یہ بھی میری زندگی میں ہو جائیں تو ان کی خوشی بھی دیکھتا جاؤں۔ یہ کہہ کر انہوں نے دو مسائل کا ذکر کیا:
- ایک یہ کہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کے اضافے کا کام ابھی رہتا ہے جو انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ قادیانی عام طور پر مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں اور خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں، جس سے مغالطہ اور اشتباہ ہوتا ہے، خاص طور پر بیرونی ممالک اور عرب ملکوں میں اس سلسلہ میں زیادہ الجھن پیش آتی ہے۔ اس لیے تحریک ختم نبوت کے قائدین کا ایک عرصہ سے یہ مطالبہ چلا آ رہا ہے کہ شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بڑھا کر مسلمانوں اور غیر مسلموں کا الگ الگ اندراج کیا جائے، تاکہ قادیانی اس حوالہ سے لوگوں کو دھوکہ نہ دے سکیں۔
اس سلسلہ میں ایک بار جناب غلام اسحاق خان کی صدارت اور میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس حد تک پیشرفت ہو چکی ہے کہ وفاقی حکومت نے اصولی طور پر شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کے اضافہ کا فیصلہ کر لیا تھا، مگر اس وقت بین الاقوامی سیکولر حلقے اور پاکستان کی مسیحی اقلیت آڑے آ گئی اور فیصلہ ہو جانے کے باوجود اس پر عمل نہ ہو سکا۔ حالانکہ دینی حلقوں کے اس مطالبہ کا ہدف مسیحی اقلیت نہیں، بلکہ قادیانی گروہ تھا، لیکن قادیانیوں نے عالمی صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور خود سامنے آنے کی بجائے سیکولر لابیوں اور مسیحی اقلیت کی اوٹ میں اس فیصلہ کو سبوتاژ کرنے کا کھیل کھیلا۔ مگر اس کی ضرورت بدستور باقی ہے اور اس مسئلہ کا اصل حل اب بھی یہی ہے کہ شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بڑھایا جائے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کا الگ الگ اندراج کیا جائے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ بات قابل عمل نہ ہو تو متبادل صورت یہ ہے کہ جس طرح سعودی عرب میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اقاموں کا رنگ الگ الگ کر دیا گیا ہے اور ان جداگانہ رنگوں کی وجہ سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اقامہ مسلم کا ہے اور یہ غیر مسلم کا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے شناختی کارڈوں کا رنگ الگ الگ کر دیا جائے تاکہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان اشتباہ اور مغالطہ و فریب کی جو صورتیں پیش آتی رہتی ہیں ان کا سدباب ہو سکے۔
- دوسرا مسئلہ اوقاف کا ہے کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں جب محکمہ اوقاف قائم ہوا تو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے بڑے بڑے اوقاف حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیے، جو اب محکمہ اوقاف کے تحت چل رہے ہیں، مگر قادیانیوں کو اس موقع پر مستثنیٰ رکھا گیا۔ حالانکہ ان کے بڑے بڑے اوقاف ہیں، جن کی آمدنی ایک باطل مذہب کے فروغ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے مسلسل استعمال ہو رہی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ دیگر غیر مسلموں کی طرح قادیانیوں کے اوقاف کو بھی غیر مسلم اوقاف کے قانون کے تحت سرکاری تحویل میں لیا جائے۔
مولانا چنیوٹی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں متحدہ مجلس عمل کے راہنماؤں قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ساجد میر سے رابطہ قائم کیا ہے اور قاضی حسین احمد سے منصورہ میں خود ملاقات کر کے اس مسئلہ پر تفصیل سے بات کی ہے۔ قاضی صاحب نے اس سلسلہ میں نہ صرف عملی پیشرفت کا یقین دلایا ہے، بلکہ بعد میں ان کی طرف سے جناب فرید پراچہ ایم این اے اور مولانا عبد المالک خان ایم این اے نے مولانا چنیوٹی کو بتایا ہے کہ ان دونوں مسئلوں پر بحث کے لیے قومی اسمبلی میں قراردادوں کا نوٹس دے دیا گیا ہے اور توقع ہے کہ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں یہ قراردادیں زیر بحث آ جائیں گی۔
مولانا چنیوٹی اس کے علاوہ چناب نگر کے رہائشیوں کو ان کے مکانات کے مالکانہ حقوق دلوانے کے مسئلہ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ چناب نگر کی ساری زمین انجمن احمدیہ کے نام پر ہے اور وہاں مکانات تعمیر کر کے رہائش رکھنے والی پوری آبادی میں سے کسی کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں قانونی ماہرین سے مشاورت اور رابطہ کر رہے ہیں اور اس ضمن میں پیش رفت کی کوئی قابل عمل صورت سامنے آئی تو وہ اس مسئلہ کو بھی چھیڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مولانا چنیوٹی نے اس سلسلہ میں ضروری مشاورت اور عملی طریق کار طے کرنے کے لیے مجھے بلایا تھا، چنانچہ اس کے مختلف پہلوؤں پر ہمارے درمیان مشاورت ہوئی اور لائن آف ایکشن طے کی گئی، جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کو ان مسئلوں کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے ایک ’’بریفنگ لیٹر‘‘ بھجوایا جا رہا ہے، ان سے ملاقاتوں کا پروگرام طے کیا جا رہا ہے، متحدہ مجلس عمل اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت میں شامل جماعتوں بالخصوص عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنماؤں سے رابطہ کی ترتیب بنائی جا رہی ہے، تاکہ ماضی کی طرح اب بھی تحریک ختم نبوت کے اس محاذ پر مشترکہ کوششوں کے ذریعہ مقصد کی طرف بڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔
بظاہر حالات اس کام کے لیے سازگار نظر نہیں آ رہے اور حکمران طبقات کے رجحانات کا رخ اس کے مخالف سمت دکھائی دیتا ہے، لیکن مولانا منظور احمد چنیوٹی کے ماضی کے تجربات اور ان کا عزم و ولولہ اور جوش و جذبہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک ختم نبوت کا یہ بوڑھا جرنیل اس نئے محاذ کے لیے مناسب صف بندی کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ اپنی تدریسی مصروفیات کی وجہ سے ماضی کی طرح وقت تو شاید نہیں دے پاؤں گا، مگر جہاں تک بس میں ہوا دیگر ممکنہ ذرائع سے اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دوں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ملک بھر کی دینی جماعتوں، علماء کرام اور دینی کارکنوں سے بھی میری یہی گزارش ہے۔ امید ہے کہ متعلقہ اصحاب و احباب اسے سنجیدہ توجہ سے نوازیں گے۔