تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کا ایک اہم اجلاس ۱۰ ستمبر کو بعد نماز مغرب جامعہ اشرفیہ لاہور میں صدر مجلس مولانا مفتی محمد خان قادری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا عبد المالک خان، علامہ احمد علی قصوری، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، علامہ خلیل الرحمن قادری، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا اشرف علی، مولانا محمد رمضان، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ محمد نعمان، ڈاکٹر سید محمد مہدی، ڈاکٹر محمد توقیر، مولانا سید عبد الوحید شاہ، حافظ عاکف سعید، مرزا محمد ایوب بیگ، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر اور راقم الحروف کے علاوہ خصوصی دعوت پر جسٹس (ر) میاں نذیر اختر اور جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن فرخ نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں آئینی ترمیم کے حوالہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے کا جائزہ لیا گیا اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ آئینی ترامیم کے حوالہ سے پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے جن بنیادی اصولوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ان میں دستور کی اسلامی دفعات اور ملک کا نظریاتی تشخص شامل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ اختیار تسلیم کر لیا گیا ہے کہ وہ دستور کی ان دفعات میں ترامیم کر سکتی ہے جن کا تعلق نظریہ پاکستان، ملک کے اسلامی تشخص اور اسلامی قوانین کی عملداری سے ہے۔ یہ بات ملک کے نظریاتی و اسلامی حلقوں کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔ اس سلسلہ میں جسٹس (ر) میاں نذیر اختر اور جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن نے شرکاء اجلاس کو بریفنگ دی جس کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ ملی مجلس شرعی پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے باقاعدہ درخواست دی جائے گی جس کی تفصیلات دونوں جسٹس صاحبان اور ڈاکٹر محمد امین پر مشتمل کمیٹی طے کرے گی۔
اجلاس میں حکومت پنجاب کے متحدہ علماء بورڈ کی طرف سے مختلف مکاتب فکر کے لیے اپنے علمی و دینی اختلافات کے اظہار کے سلسلہ میں تجویز کردہ ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ زیر بحث آیا جس پر مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے دستخط کیے ہیں۔ متحدہ علماء بورڈ کے چیئرمین مولانا حافظ فضل الرحیم نے اجلاس میں اس کی تفصیلات بیان کیں جس پر طے پایا کہ تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کو اس کی کاپیاں مہیا کی جائیں گی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور علامہ خلیل الرحمن قادری ان کی مشاورت کے ساتھ ان تجاویز کا جائزہ لے کر عید الاضحی کے بعد ملی مجلس شرعی کے اجلاس میں رپورٹ پیش کریں گے۔
اجلاس میں ممتاز قادری کیس کے سلسلہ میں عدالتی صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ علامہ احمد علی قصوری کی سربراہی میں اس حوالہ سے قائم کی جانے والی کمیٹی رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے اپنا کام جلد شروع کرے گی اور غازی ممتاز قادری کی بریت اور رہائی کے لیے کوششوں کو تیز کیا جائے گا۔ اجلاس میں تحریک انسداد سود کی صورت حال کا بھی جائزہ لیا گیا اور تحریک کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی حیثیت سے راقم الحروف (ابو عمار زاہد الراشدی) نے اجلاس کو یقین دلایا کہ عید الاضحی کے بعد اس سلسلہ میں سرگرمیوں کا از سر نو آغاز کیا جائے گا۔
اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور یمن کے تنازعہ کا جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ ملی مجلس شرعی کے صدر مولانا مفتی محمد خان قادری اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین اس سلسلہ میں سعودی عرب، یمن اور ایران کے سفارت خانوں سے رابطہ کر کے انہیں ملی مجلس شرعی کے اس موقف سے باضابطہ طور پر آگاہ کریں گے کہ باہمی تنازعات کو مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جائے اور ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو علاقہ میں سنی شیعہ کشیدگی میں اضافہ کا باعث ہوں۔ یہ بھی طے پایا کہ مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ تصادم میں مسلسل اضافہ کو روکنے کے لیے اہل سنت اور اہل تشیع کے سنجیدہ علماء کرام اور دانشوروں کے درمیان مذاکرات اور مکالمہ کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ کوئی مشترکہ موقف اور لائحہ عمل سامنے لایا جا سکے۔
اجلاس میں جناب جاوید احمد غامدی کے متنازعہ افکار اور ان کی مسلسل تشہیر و فروغ کی صورت حال بھی زیر بحث آئی اور طے پایا کہ مولانا مفتی محمد خان قادری اور ڈاکٹر محمد امین اس حوالہ سے غامدی صاحب کو اہل علم کے اشکالات و اعتراضات تحریری طور پر بھجوائیں گے اور ان کے جواب کے بعد ان کے متنازعہ افکار کے بارے میں مشترکہ موقف باہمی مشاورت کے ساتھ طے کیا جائے گا۔
اجلاس میں ناموس رسالتؐ کے قانون کے خلاف بین الاقوامی اور قومی سطح پر کی جانے والی سازشوں کا بھی ذکر کیا گیا۔ اس سلسلہ میں شرکاء اجلاس نے فیصلہ کیا کہ ناموس رسالتؐ کے قانون کے بارے میں ہر قسم کی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔ نیز ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کی حفاظت اور دستور کی اسلامی دفعات کی عملداری کے لیے رائے عامہ کو منظم و بیدار کرنے کی مہم جاری رکھی جائے گی۔ اجلاس سے مولانا مفتی محمد خان قادری اور مولانا حافظ فضل الرحیم نے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ اس وقت ملک و قوم کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔