۱۲، ۱۳، ۱۴ فروری ۲۰۰۶ء کو جامعہ اسلامیہ کامونکی میں مطالعہ مذاہب کے سلسلے میں بدھ مت اور سکھ مذہب کے بارے میں سیمینار تھا، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ دعوۃ اکیڈمی کے تعاون سے جامعہ اسلامیہ کامونکی نے یہ روایت رکھی ہوئی ہے کہ تین چار ماہ کے وقفہ سے کسی مذہب کے حوالے سے ایک مطالعاتی اور معلوماتی سیمینار کا اہتمام ہوتا ہے۔ علماء کرام اور طلبہ اس میں شریک ہوتے ہیں، دعوۃ اکیڈمی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کے علاوہ دینی مدارس کے بعض اساتذہ بھی مختلف عنوانات پر مقالات یا بیانات کی صورت میں شرکاء کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران یہودیت، مسیحیت اور ہندو مت کے موضوعات پر تین الگ الگ سیمینار ہوئے، جبکہ اس سال اس سلسلے کا آغاز بدھ مت اور سکھ مت کے عنوان سے ہوا ہے اور ۱۳، ۱۴، ۱۵ مئی کو منعقد ہونے والے سہ روزہ سیمینار کے لیے اسلام سے منحرف مذاہب مثلاً قادیانیت، بہائیت، ذکری، اسماعیلیت اور نیشن آف اسلام کو عنوان بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کچھ عرصہ سے مسلمانوں اور سکھوں کے تعلقات ایک نیا رخ اختیار کر رہے ہیں، باہمی روابط اور میل جول میں اضافہ ہو رہا ہے، لاہور اور امرتسر کے درمیان بس سروس ، ننکانہ صاحب کو ضلع قرار دینے اور پنجاب کے دونوں حصوں کے حکمرانوں کے باہمی خیر سگالی کے دوروں نے مسلم سکھ تعلقات کے اس نئے رخ میں رنگ بھرنا شروع کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ سیمینار خاصا اہمیت کا حامل تھا اور اس سیمینار کی آخری نشست میں لاہور کے سکھ رہنما سردار شام سنگھ نے شرکت کر کے اور کورس کے شرکاء کو سرٹیفکیٹ تقسیم کر کے ان نئے رجحانات کو آگے بڑھایا ہے۔
میرے ذمہ اس سیمینار میں گفتگو کا جو عنوان تجویز کیا گیا تھا اس کی روشنی میں مسلم سکھ تعلقات کے مرحلہ وار جائزہ کے ساتھ ساتھ سکھ دور حکومت میں مسلمانوں کی ثقافتی حالت کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
سکھ مذہب کے بانی پانچ سو سال قبل کے ایک مصلح بابا گورو نانک تھے، جو ننکانہ صاحب کے قریب تلونڈی نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہندو تھے، مگر بچپن میں انہوں نے جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ان میں مسلمان اساتذہ بھی شامل تھے۔ ہندو معاشرے میں بت پرستی، ذات پات اور ایسی دیگر باتیں ان کے مزاج کو راس نہ آئیں اور انہوں نے ان سے نجات اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے ہندو مذہب اور معاشرت کے دائرے میں رہنا گوارا نہ کیا۔ وہ بنیادی طور پر ایک مصلح تھے، جو معاشرہ میں عقیدت و ثقافت کی باقاعدہ مذہب کی شکل اختیار کر لی۔ گورو نانک توحید کے قائل تھے، اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے تھے اور ذات پات کے فرق کی نفی کرتے تھے۔ وہ مسلم صوفیاء کرام بالخصوص حضرت بابا فرید گنج شکر رحمہ اللہ سے متاثر تھے، صوفیاء کرام کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کا سفر بھی کیا اور مبینہ طور پر حج کے اعمال میں شریک ہوئے، لیکن مسلمان نہیں ہوئے، بلکہ مسلم صوفیاء کی طرز پر ایک جداگانہ روحانی سلسلہ کا آغاز کر کے لوگوں سے بیعت لینا شروع کی اور خانقاہی طرز پر اپنے نئے حلقے کی بنیاد رکھی۔
سکھوں کی عبادت گاہ اور مذہبی مرکز کو گوردوارہ کہا جاتا ہے اور اس کی شب و روز کی سرگرمیاں مسلم صوفیاء کے پرانے خانقاہی نظام سے ملتی جلتی ہیں۔ میں نے کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے شہر برمنگھم میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مولانا سید سلمان الحسنی ندوی لکھنؤ کے ہمراہ ایک بڑے گوردوارے کا دورہ کیا تھا اور اس کے اندرونی نظام اور معمولات کا جائزہ لیا تھا۔ گوردوارے کو ”پانچ پیاروں“ کی ایک کمیٹی چلاتی ہے اور اس کے روز مرہ اعمال میں دو باتیں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں:
- ایک یہ کہ گوردوارے کے مین ہال میں ان کی مذہبی کتاب گورو گرنتھ مسلسل پڑھی جاتی ہے اور گورو صاحبان باری باری اسے بلند آواز سے پڑھتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر چوبیس گھنٹے چلتا ہے۔ اس ہال میں اسی طرح کا ماحول بنایا گیا ہے جیسے ہمارے ہاں مساجد میں ہوتا ہے۔ جوتے اتار کر اندر جاتے ہیں، پہلے گرو گرنتھ صاحب کو جو ہال کے وسط میں ہوتا ہے ماتھا ٹیکتے ہیں یعنی سجدہ کرتے ہیں، پھر بڑے ادب سے بیٹھ کر گرو گرنتھ کی قراءت سنتے ہیں اور جب جانا چاہیں اسی ترتیب کے ساتھ ماتھا ٹیکتے ہوئے الٹے پاؤں ہال سے باہر نکل جاتے ہیں۔ ماتھا ٹیکنا ہال میں داخل ہونے کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے، ہم سے بھی اس کا تقاضا کیا گیا مگر ہم نے انکار کر دیا، جس پر گوردوارے کے پانچ بڑوں کی بیٹھک ہوئی اور انہوں نے مہمان داری کی خاطر خصوصی رعایت دیتے ہوئے ہمیں ماتھا ٹیکے بغیر ہال کے اندر جانے کی اجازت دے دی۔
- گوردوارے کا دوسرا بڑا عمل جو ہم نے دیکھا لنگر خانہ ہے، جہاں ہر وقت کھانا پکتا رہتا ہے اور لوگ آ کر وہاں مسلسل کھانا کھاتے رہتے ہیں۔ یہ عمل بھی چوبیس گھنٹے کسی وقفے کے بغیر جاری رہتا ہے۔ کھانا کھانے کے لیے مذہب کی کوئی قید نہیں اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص کسی وقت بھی وہاں آ کر کھانا کھا سکتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق روزانہ تقریباً چھ ہزار افراد وہاں آ کر کھانا کھاتے ہیں۔
ہر وقت ذکر و اذکار اور لنگر کا یہ عمل مسلم صوفیاء کرام کی خانقاہوں کا امتیاز ہوتا تھا اور اسے ہی تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ سکھ مذہب میں اختیار کیا گیا ہے۔ سکھ مذہب کا آغاز خانقاہی طرز کے اس نظام سے ہوا تھا اور ابتدا میں جہانگیر کے دور تک سکھوں کے سیاست کے ساتھ کسی تعلق کا اظہار نہیں ہوتا، البتہ شاہجہان کے دور میں جب داراشکوہ اور اورنگزیب عالمگیر کے درمیان کشمکش عروج پر پہنچی ہے تو اس وقت کی سکھ مذہبی قیادت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے داراشکوہ کو سپورٹ کیا اور اورنگزیب عالمگیر کے دور میں سکھوں نے عسکری جتھہ بندی کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی پرزے نکالنے شروع کر دیے، جس کے نتیجے میں ان کے اس وقت کے گرو تیغ بہادر گرفتار ہوئے اور قتل کر دیے گئے، جس سے مسلم سکھ کشمکش کا مستقل طور پر آغاز ہوا اور یہ کشمکش قیام پاکستان تک مسلسل جاری رہی۔
اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغل حکومت باہمی خانہ جنگی اور شہزادوں کی آپس کی اقتدار کی جنگ کے باعث کمزور ہوتی چلی گئی، جبکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں سکھوں کے گروپ منظم ہوتے گئے اور علاقائی طور پر ان کا اقتدار قائم ہوتا گیا، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جس طرح جنوبی ہند میں ہندو مرہٹے ایک اہم فوجی اور سیاسی قوت کی حیثیت اختیار کر گئے تھے، اسی طرح پنجاب میں سکھ ایک مضبوط قوت بن گئے اور انہوں نے علاقائی طور پر بہت سی تقریباً خود مختار ریاستیں قائم کر لیں، جن کے سامنے مغل اقتدار بتدریج بے بس ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست فاش دی تو اس کے بعد وہ پنجاب کے سکھوں کی طرف بھی متوجہ ہوا اور بعض جنگوں میں ان کو شکست دی، مگر افغانستان کے داخلی حالات اور خلفشار کے باعث وہ ان سے پانی پت کی طرز کی کوئی فیصلہ کن جنگ نہ لڑ سکا اور پنجاب میں سکھوں کی قوت اور اقتدار میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
پنجاب میں ایک دور میں سکھوں کی بارہ مثلیں (اندرونی خود مختار ریاستیں) قائم ہوئیں جو بعد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ایک بڑی سکھ حکومت کا حصہ بن گئیں اور جب ایک نامور سکھ سردار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر قبضہ کیا تو اس کی سلطنت میں پشاور سے لے کر ملتان تک علاقہ شامل تھا، کشمیر بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ اس دور کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک بڑے علاقے میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی، ان کی مساجد پر قبضہ کر لیا جاتا تھا، سکھ اکثریت کے گاؤں میں مسلمانوں کو مسجد میں اذان دینے اور باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک دور میں لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد سکھ فوج کی چھاؤنی اور گھوڑوں کے اصطبل کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
شہدائے بالا کوٹ نے جب ۱۸۳۰ء میں پشاور پر قبضہ کیا تو اس وقت پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی اور بالا کوٹ میں جب سید احمد شہید رحمہ اللہ نے جام شہادت نوش کیا تو ان کا سامنا رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی زیر کمان سکھ فوج سے تھا۔ امیر المؤمنین سید احمد شہید رحمہ اللہ کی زیر قیادت لڑی جانے والی اس جنگ کے مقاصد میں برطانوی استعمار سے گلوخلاصی اور پورے ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے مسلمانوں کو مذکورہ بالا مظالم سے نجات دلانا بھی شامل تھا۔
مسلم سکھ کشمکش کا ایک تاریخی پہلو یہ بھی ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں جب مجاہدین نے جنرل بخت خان کی قیادت میں دہلی پر قبضہ کر کے انگریزوں کو وہاں سے باہر نکال دیا تھا تو انگریزوں کی حمایت میں پنجاب سے تازہ دم سکھ فوج گئی تھی، جس نے دہلی پر انگریزی اقتدار کی دوبارہ بحالی کے لیے اہم کردار ادا کیا اور اسی مسلم سکھ کشمکش کے خوفناک نتائج دنیا نے قیامِ پاکستان کے وقت تقسیم پنجاب کے بعد مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتلِ عام کی صورت میں دیکھے، جن کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اس پس منظر میں مسلم سکھ تعلقات کے اس نئے دور کا جائزہ لینا چاہیے جب مشرقی پنجاب میں سکھ اکثریت نے اپنے سیاسی و مذہبی حقوق کی مسلسل پامالی دیکھ کر ”آزاد خالصتان“ کی تحریک کا آغاز کیا اور پاکستان کے بہت سے حلقوں نے اسے سپورٹ کیا۔ ایک دور میں سکھوں اور قادیانیوں نے مشترکہ طور پر اس بات کی تحریک چلائی تھی کہ پاکستان میں ننکانہ صاحب اور بھارت میں قادیان کو مقدس شہر کا درجہ دے کر کھلا شہر قرار دیا جائے، لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ مگر اب سکھوں کی سیاسی محرومیاں اور پاکستان کی علاقائی سیاسی ضرورتیں ایک نئے رومان کا باعث بن رہی ہیں، جن کی طرف ہم مسلسل پیش رفت ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں اور اگر مسلمان اور سکھ مشترکہ مفادات اور ضروریات میں ایک دوسرے کے کام آنا چاہیں تو ہماری یہ گزارش ضرور ذہن میں رکھیں کہ مستقبل کے رومانس کی طرف بڑھتے ہوئے ماضی کے حقائق اور یادوں کو بھلا نہ دیا جائے، کیونکہ ماضی کو بھول جانے والی قومیں مستقبل کی طرف بہتر پیش رفت نہیں کر سکتیں۔