جمعیۃ علماء اسلام کے متوازی گروپ کے ساتھ مصالحت کے سلسلہ میں مولانا حبیب گل صاحب کی زیر قیادت ہونے والی سرگرمیوں کی ایک سرسری رپورٹ زیر نظر شمارہ میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ جہاں تک جماعتی اختلافات سے ہونے والے نقصانات اور اس کے مضمرات کا تعلق ہے، اس سے دونوں اطراف کے کسی ذی شعور کو انکار نہیں ہو سکتا، اور انہی نقصانات و مضمرات کو سامنے رکھتے ہوئے مصالحت و مفاہمت کے اس عمل کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگرچہ ہماری طرف سے مصالحت و مفاہمت کا دروازہ بند نہیں ہوا اور قائد جمعیۃ مولانا عبید اللہ انور مدظلہ نے مصالحتی کمیٹی کے سربراہ مولانا حبیب گل صاحب کے نام اپنے تازہ ترین مکتوب میں واضح کر دیا ہے کہ کمیٹی کے تمام فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کی مؤثر ضمانت کی صورت میں ہم اب بھی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت اور مصالحتی پروگرام کی تکمیل میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔ لیکن متوازی گروپ کی طرف سے کوئٹہ کے اجلاس کے بعد مصالحت کا دروازہ بند کر دینے، اور مصالحتی کمیٹی سے اپنے نمائندے واپس بلانے کا جو اعلان ہوا ہے، اس کے پیش نظر اب بظاہر مصالحت کے عمل میں پیشرفت مشکل نظر آتی ہے۔ اور یہ صورتحال بلاشبہ ملک بھر کے جماعتی احباب اور ہمارے بہی خواہ حضرات کے کرب و الم اور رنج و غم میں اضافہ کا باعث بنی۔
کرب و الم اور صدمہ و بے چینی کے ان لمحات میں قافلہ ولی اللہی سے وابستہ ہر عالمِ دین اور اس کے مقدس مشن کے لیے قربانی کا جذبہ رکھنے والا کارکن اپنے مستقبل کے عمل اور کردار کے بارے میں آخری فیصلہ کے موڑ پر کھڑا ہے اور سوچ رہا ہے کہ اس کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا۔ اس سوچ میں رنج و الم ہے، غم و غصہ ہے، جذبات کی شدت ہے اور اضطراب بھی ہے۔ لیکن اس نازک مرحلہ میں ہم تمام جماعتی احباب، علماء کرام اور کارکنوں سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ایک دفعہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور و فکر کر لیں، تاکہ ان کا فیصلہ قومی تقاضوں اور قافلہ ولی اللہی کی شاندار روایات سے ہم آہنگ ہو، اور یہ فیصلہ نتائج کے لحاظ سے نقصان کا باعث نہ بنے۔
اس مرحلہ میں بہت سے بزرگ اور دوست یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سارے جھنجھٹ سے ہی جان چھڑا لی جائے اور دونوں فریقوں سے کنارہ کش ہو کر گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی جائے۔ ایسا سوچنے والے حضرات سے ہم بالخصوص یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ان کی سوچ نہ تو مثبت ہے اور نہ عملی، انہیں ایک بار پھر غور و فکر کی زحمت فرمانی چاہیئے۔
اصولی اختلاف ہر دور میں رہا ہے اور خود ہمارے اکابر میں رہا ہے۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے اور تحریکِ آزادی کے قائد تھے، لیکن انہی کے دور کے دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا حافظ محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی سیاسی سوچ ان کے بالکل متضاد تھی۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ کی سیاسی سوچ، عمل اور جدوجہد میں زمین و آسمان کا فرق تھا، لیکن ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے راستہ پر سب بزرگ گامزن رہے۔ اور جس بزرگ نے ان میں سے کسی بزرگ کے موقف کو صحیح سمجھا، کسی جھجھک کے بغیر اس کا ساتھ دیا، تعاون کیا اور اس کے لیے محنت کی۔
آج بھی ہم ایسے مرحلہ سے دوچار ہیں۔ ہمارے اختلافات میں بنیادی امر یہ ہے، جسے متوازی گروپ کے ذمہ دار حضرات مولانا میاں سراج احمد دین پوری دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید محمد شاہ امروٹی مدظلہ العالی واضح طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ایم آر ڈی میں شرکت کی جائے یا نہ کی جائے؟ دوسرے لفظوں میں ہمارے خیال سے اس مسئلہ کی نوعیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور دیگر لادین عناصر کے ساتھ دینی مقاصد کو بنیاد بنائے بغیر محض جمہوریت کے لیے اتحاد ہماری روایات اور دینی تشخص کے منافی ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں اس اتحاد میں شمولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ ایک اصولی اختلاف ہے، اسے شخصیات کا ٹکراؤ قرار دے کر یا ذاتی عنوان دے کر اس کی اصولی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے علماء اور کارکنوں کو اس (بارے میں) سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے:
جو حضرات صدقِ دل اور دیانتداری کے ساتھ اس اتحاد میں شرکت کو صحیح سمجھتے ہیں ان کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ بلاخوف لومۃ لائم اس میں شامل ہو کر اس کے لیے مخلصانہ کوشش کریں۔
لیکن جن حضرات کی سوچ، فکر اور نظریہ کے مطابق اس اتحاد میں شمولیت درست نہیں ہے، اور وہ اپنی جدوجہد کو محض سیاست اور جمہوریت کی بجائے اسلامی نظام کے نفاذ اور دینی سیاست کے فروغ کے لیے اپنی سیاست کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، انہیں کھلے دل کے ساتھ اپنے ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہنا چاہیئے اور تمام ذہنی تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیئے۔
بیشتر دوستوں کو یہ شکایت ہے کہ حضرت درخواستی مدظلہ العالی اور حضرت مولانا عبید اللہ انور مدظلہ العالی کا موقف درست ہونے کے باوجود ان کے کیمپ میں حرکت اور ورک کی کمی ہے، اور حرکت اور ورک کا عنصر دوسرے کیمپ میں وافر ہے۔ لیکن سنجیدگی کے ساتھ سوچیں کہ کیا اس فرق کے ساتھ ایک غلط موقف درست ہو جائے گا؟ موقف درست ہو اور سمت صحیح ہو تو حرکت اور ورک کی کمی کو کسی لمحہ بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر بنیادی موقف ہی درست نہ ہو تو حرکت کی تیزی اور ورک کی زیادتی سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟
بہرحال ہماری مؤدبانہ گزارش ہے کہ آخری فیصلہ کرنے سے قبل ٹھنڈے دل کے ساتھ غور فرما لیں اور اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ:
اختلافات کے بہانے اپنے فرائض اور قومی اور دینی جدوجہد سے کنارہ کشی کوئی حقیقت پسندانہ طرزعمل نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کر کے عند اللہ سرخروئی حاصل ہو گی۔ ایک موقف کو درست سمجھتے ہوئے محض اس لیے تعاون سے گریز کہ اس کے لیے مطلوبہ محنت نہیں ہو رہی، صحتمندانہ رویہ نہیں ہے۔ اور اسی طرح ایک اور موقف کو دل سے غلط سمجھتے ہوئے محض جذبہ، عمل اور محنت کو دیکھ کر اس کا ہمنوا ہو جانا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔
شرعاً ہم صرف اس بات کے پابند ہیں کہ جس موقف کو صحیح سمجھتے ہیں اس کی حمایت کریں، نتائج ہمارے ہاتھ میں نہیں اور نہ ہم ان کے مکلف ہیں، البتہ اس امر کے مسئول و مکلف ضرور ہیں کہ جس موقف کو صحیح سمجھا اس کے لیے محنت اور عمل کیا یا نہیں۔ وما علینا الا البلاغ۔